سیرابی کا ذریعہ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
عنوان: 23 اپریل کتابوں کا عالمی دن
(کتابیں سیرابی کا ذریعہ)

کتابوں کا عالمی دن۔ 23 اپریل
کچھ اور سبق ہم کو زمانے نے سکھائے
کچھ اور سبق ہم نے کتابوں میں پڑھے تھے
(ہستی مل ہستی)
آپ نے سنا ہوگا کہ ایک زرخیر زمین بہت فائدہ دیتی ہے، مگر شرط یہ ہوتی ہے کہ اس کو پانی سے سیراب کیا جائے یا اس کے لیے پانی مہیا ہوجائے۔ وہ بارش کی صورت میں ہو یا پھر کسی اور ذریعے سے۔ پانی ملنے کے بعد زمین اپنے وقت پر پھل لے آتی ہے یا وہ ہری بھری ضرور ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک انسان زرخیز زمین کی طرح ہے اور کتابیں اس کے لیے سیرابی کا ذریعہ ہیں۔ جس طرح ایک زرخیز زمین کو نشوونما اور پھل کے لیے پانی دینے کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح کتابیں انسان کی زندگی میں ایک چمن کی طرح ہوتی ہیں، جو انسان میں جینے کا ہنر اور سلیقہ میں اجاگر کرتی ہیں۔
23 اپریل کتابوں کا عالمی دن ہے۔ اس کی ابتدا 1995 میں ہوئی۔ آج کل انٹرنیٹ کی دنیا میں لوگ مگن ہیں کتابوں سے رشتے ناتے لوگ آج کل کم ہی رکھتے ہیں۔ مگر اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں، جو کتابیں پڑھنے کے ہی شوقین نہیں بلکہ کتابیں رکھنے کے بھی شوقین ہیں۔ کتابیں نہیں تو انسان جی نہیں سکتا۔ یا جی تو سکتا ہے مگر ایک بہترین زندگی کا حصول ممکن نہیں۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی اللمتقین میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔
کتابوں کا دور روز اول سے ہے۔ اس بات کی گواہی خود قرآن دیتا ہے کہ قرآن لوح محفوظ میں موجود ہے۔ جس کا ذکر سورۃ بروج میں ہمیں ملتا ہے۔ یعنی "فی لوح محفوظ"۔ اسی طرح جب دنیا میں انسان آیا، آگے ترقی کرنا شروع کی تو باقاعدہ کتابیں مختلف موضوعات پر لکھی گئیں۔ انبیاء کرام بھی آئے تو وہ انسانیت کو دین کا علم دینے کے لیے چار خاص کتابیں لے کر آئے تو کچھ انبیاء مختلف صحائف (چھوٹی کتابیں) لے کر آئے۔ جس کا ذکر سورۃ الاعلی کے اخیر میں ہمیں ملتا ہے. "صحف ابراہیم وموسی"۔ غرض یہ کہ آج قرآن بھی ایک باقاعدہ کتاب کی شکل میں محفوظ ہے، جو انسان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
اب بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ کتابیں انسان کو سیراب اس وقت ہی کریں گی، جب انسان کتاب پڑھے۔ اکثر اوقات مکمل کتاب پڑھنے کے بعد بھی انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کتاب سے کچھ نہیں سیکھا۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیوں کہ وہ کتاب انسان کو اس وقت بے معنی نے مقصد لگ رہی ہوتی ہے مگر وہ آگے چل کر کوئی نہ کوئی فائدہ دے جاتی ہے۔ پھر انسان سوچتا ہے یہ تو میں نے فلاں کتاب میں پڑھا تھا۔
جیسا کہ پہلے بیان کرچکی ہوں کہ کتابیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہیں، کتابیں انسانیت کے حقوق بتاتی ہیں، کتابیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہیں، کتابیں دنیا میں آنے کا مقصد بتاتی ہیں، کتابیں دوسرے انسان کے تجربات بتاتی ہیں جس سے انسان ان مسائل سے دوچار ہونے سے بچ جاتی ہے، جو گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آچکے ہیں۔
گیری پالسن نے کہا ہے کہ:
"میرے لیے پڑھنا ایک دوست کے ساتھ وقت بتانے جیسا ہے"۔
گویا کتابیں دوست ہوتی ہیں پھر انسان کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔ انسان چاہتا ہے کہ ایک کے بعد ایک کتاب پڑھتا چلا جائے، وہ جنون کی حد تک کتابوں سے دوستی اور لگاؤ رکھنے لگتا ہے۔
جوزف ایڈیسن کا قول ہے کہ:
"پڑھنا دماغ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا بدن کے لیے کسرت"۔
پڑھنا دماغ کی ورزش ہے۔ اس سے دماغ سستی و کاہلی کا شکار نہیں ہوتا۔ جتنا دماغ سے کام لیا جائے گا، اتنا ہی وہ کام کرتا چلا جائے گا۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان وسوسوں اور بے بنیاد اور فضول خیالات سے بچا رہتا ہے۔
جارج آر آر مارٹن کا کہنا ہے کہ:
"وہ انسان جو پڑھتا ہے وہ مرنے سے پہلے ہزار زندگیاں جیتا ہے جب کہ نہ پڑھنے والا صرف ایک"
وہ انسان جو کتابیں پڑھتا ہے، وہ ہر ایک کی زندگی کا ذائقہ چکھ لیتا ہے۔ گویا ہر ایک کی زندگی کو بذات خود محسوس کرتا ہے گویا وہ انسان اپنے آپ کو اسی دور میں جیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا وہ صرف ایک زندگی جیتا ہے یعنی صرف اپنی زندگی۔
قارئین کرام! کتابیں انسان کو سیراب کرتی ہیں علم وادب، ہنر، سلیقہ، فن، غرض یہ کہ ہر بات کتاب سکھادیتی ہے۔ اس کا اندازہ مندرجہ بالا جارج آر آر مارٹن کے قول سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتابیں پڑھنے والا انسان ہزار زندگیاں جیتا ہے۔ کیوں کہ ایسا شخص محدود سوچ کا مالک ہوتا ہے، جب کہ کتب بینی کرنے والا شخص لامحدود سوچ رکھتے ہوئے اپنے چاروں اطراف سے سوچ کا ہنر حاصل کرلیتا ہے۔ جی ہاں! کتابیں سیراب کرتی ہیں ایک ابھرتے،بدلتے شخص کو۔ یقین نہ آئے تو اپنے اطراف کتابیں پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے شخص کا موازنہ کرلیجیے گا۔

جزاکم اللہ خیرا

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی