تحریر: سیدہ حفظہ احمد
وقت کی قدر |
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
وقت کی قدر کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ "وقت برف کی طرح قیمتی سرمایہ ہے"۔ برف فروش کے لئے اس کا قیمتی سرمایہ و کل اثاثہ یہ برف ہی ہوتی ہے۔ اگر برف پگھل کر ضائع ہو جائے تو یہ بے سود ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وقت گزر جائے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
وقت کا صحیح استعمال کرکے اسے بے فائدہ کاموں میں ضائع ہونے سے بچانا بےحد ضروری ہے۔
گویا وقت سونے کی طرح قیمتی ہے۔ گزرا وقت اگر مال و دولت دے کر خریدنا چاہیں جب بھی نہیں خرید سکتے۔ لہذا ہمیں وقت کی قدروقیمت جانتے ہوئے کل کی فکر کے ساتھ موجودہ وقت کو بھی فائدہ مند بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ قیامت کے دن ہر گھڑی کا حساب لیا جائے گا۔
اہل علم اور وقت کی قدر:
اہل علم نے وقت کی قدر کرتے ہوئے ہمارے لیے بہت سا قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے۔ انہوں نے کس قدر وقت کی اہمیت کو پہچانا اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقوال سے لگایا جا سکتا ہے:
1: امام محمد رحمتہ اللہ علیہ دن رات تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے، تقریبا ایک ہزار تک کی کتابیں بتائی جاتی ہیں۔
2:حضرت مولانا عبدالحی کے والد نے ان کی مطالعہ گاہ کے دروازے پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر باہر جانا پڑے تو ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔
3: شیخ جمال الدین قاسمی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو لایعنی باتوں میں مشغول دیکھا تو حسرت سے کہا: اے کاش! وقت کوئی ایسی شے ہوتی جو بیچی یا خریدی جا سکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات خرید لیتا۔
4: امام رازی کو افسوس تھا کہ کھانے کا وقت کیوں عملی مشاغل سے خالی جاتا ہے۔
5: حافظ امام ابن حجر عسقلانی کبھی خالی نہ بیٹھتے۔ مطالعہ کتب، تصنیف و تالیف یا عبادت میں مشغول رہتے۔
اسی طرح محدثین، سیرت نگاروں اور سوانح نگاروں نے اپنی قیمتی زندگیاں صرف کر کے وقت کی اہمیت کو جانتے ہوئے علوم و فنون تیار کیے۔ جس کی مثال آج بہت کم ملتی ہے۔
بے رحم وقت,
جواب دیںحذف کریںوقت کی اہمیت کو اُجاگر کرتی بہت عمدہ تحریر
جزاک اللہ خیرا
حذف کریںاکابرین کے اقوال نے تحریر کو مزید جامع اور مفید بنا دیا۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
حذف کریںایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks