ماہ رحمت اور کرونا (لعلکم تتقون)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
دنیا کے تمام لوگ اپنی زندگی کی دوڑ میں تگ و دو کررہے تھے، خدا سے بے خبر۔ پھر اللہ نے چاہا کہ اپنے بندوں کو اپنی طرف رجوع کیا جائے۔ اچانک ہی ایک "کورونا" نامی وائرس نے جنم لیا اور پوری دنیا میں تباہی مچادی۔ جہاں صحت متاثر ہوئی وہیں کاروبار میں تعطل آیا۔ بڑے بڑے کاروبار اور منڈیوں پر زوال آیا۔ غرض دنیا کی ہر چیز میں تغیر و تبدل آگیا۔ اللہ کو دیکھنا یہ تھا کہ کون میرا بندہ ہے، جو میری طرف رجوع کرتا ہے، کون شیطان کا پیروکار ہے کہ اب بھی اسی کے ساتھ رہتا ہے۔
یہ عجیب سا سما تھا، زندگی کا پہلا رمضان ایسا کہ ہر شخص گھر میں قید ہو کر رہ گیا اپنوں سے دور ہوگیا۔ سب کچھ بدل گیا زندگی وہیں کی وہیں رک گئی۔ بہت سے افراد نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، بہت سے بالکل تنہا رہ گئے۔
لوگوں کو وقت نہیں ملتا تھا۔ اللہ نے تمام کام کاج چھڑوا کر وقت ہی وقت دے دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم اسی سے بات کرتے، اسی کی طرف رجوع کرتے، مگر ہم نے کیا کیا؟ مختلف قسم کے کھیلوں اور بہت سی فضولیات میں وقت گزارنا شروع کردیا اور تو اور اللہ کے عذاب کو بھی مذاق سمجھ لیا۔

ماہ رحمت اور کرونا
دوسری طرف جس چیز پر زوال آیا اور اسے نظر انداز کیا گیا وہ تھا تقدیر پر ایمان۔ اس بیماری کو گویا اوڑھنا بچھونا ہی بنالیا اور نعوذ باللہ یوں سمجھا کہ اسے کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا۔ اللہ پر توکل ہمارا ڈاما ڈول ہوا۔ یقین ہی تو سب سے بڑی طاقت ہے، یقین ہی تو خود اعتمادی ہے، یقین ہی تو عملی زندگی پر کھڑے کرنے کا ذریعہ ہے اور یقین ہی کے بقدر اللہ انسان کو عطا کرتے ہیں۔
انا عند ظن عبدی بی (میں اپنے بندوں کے گمان پر پورا اترتا ہوں) یہ ہمارا رب کہہ رہا ہے۔ اگر ساری دنیا والے مل کر بھی ہمیں نفع پہنچانا چاہیں مگر اللہ نہ چاہیں تو ہمیں نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر ساری دنیا مل کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ کا حکم نہ ہو تو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔
ایمان اور یقین کی برکت ایسی ہے کہ اس سے یقین کی بدولت کئی جنگیں لڑی گئیں اور فتوحات نصیب ہوئی ہیں زیادہ تعداد والوں کو شکست ہوئی اور کم تعداد والے فتح لے گئے یہ صرف ایمان اور توکل علی اللہ کی بدولت تھا۔
حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ایمان والے طوفان سے محفوظ رہے جبکہ پوری دنیا ہلاک ہوگئی۔
ابراہیم علیہ السلام کو آگ کوئی نقصان نہ پہنچاسکی، یہ ایمان اور تعلق مع اللہ کی مضبوطی کا سبب تھا۔
یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں بحفاظت باہر آئے۔
اسماعیل علیہ السلام کو چھری سے بچانے والی ذات بھی اللہ کی۔
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانیاں، یہاں تک کہ دشمنوں نے جادو تک کروادیا مگر کامل ایمان اور اعمال کے اہتمام کی بدولت اس سے رہائی نصیب ہوئی۔
جس طرح آگ ایک مادہ ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچانے کے لیے اللہ کی محتاج تھی اسی طرح بیماری بھی ایک مادہ ہے، نفع و نقصان کس کو پہنچانا ہے اس میں اللہ کے حکم کی محتاج ہے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اللہ کی ذات پر کامل اعتماد ہونا بھی ضروری ہے۔
یہ دوسرا رمضان بھی اسی کرونا کی زد میں گزر رہا ہے۔ مگر رمضان المبارک تو ماہ رحمت ہے، رمضان کی کی آمدہوتے ہی مساجد اور گھروں میں عبادات کا خصوصی اہمتمام بڑھ جاتا ہے۔ قرآن مجید پر پورے سال کی لدی ہوئی مٹی جھڑ جاتی ہے۔ اللہ ہمیں بوسٹ اپ ہونے کا چانس دیتا ہے۔ رمضان ہی ہے جو گناہوں کو جلا کر بھسم کردیتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں:
يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ
ترجمہ:
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔ (سورۃ البقرة: 183)

یہ وہ ماہ رحمت ہے، جس میں تمام رحمتوں اور نعمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ یہ ہی وہ ماہ رحمت ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔
شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاس وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡه
ترجمہ:
مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حقکو باطل سے جدا کرنے کی، سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اس کے۔

ماہ رمضان کلامِ الٰہی، جو زندہ کلامِ ربانی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کی ایک ایک ادا منارہ نور اور مشعل راہ ہے۔ یہ مہینہ بھی تعلق مع اللہ کو استوار کرنے کا، اپنے آپ کو بدلنے کا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم روزے کا مقصد یعنی تقوی کے حصول کے لیے خود کتنی مشقت کرتے ہیں۔ کیوں کہ جو رمضان میں خود کو ٹھیک کرلے تو اللہ رب العالمین اس کی پورے سال مدد کرتے ہیں۔
کیا ہمارے دل اتنے مردہ ہوگئے؟ اللہ کے جھنجھوڑنے پر بھی ہم اللہ کے قریب نہیں ہوئے۔ ہم نے اب تک اللہ کو نہیں منایا اب تک ہم شیطان کے دوست بنے بیٹھے ہیں تو ذرا نہیں یہاں پورے ہوش و حواس سے مکمل سوچنے کی ضرورت ہے، یہاں ہمارے ایمان عمل اور آخرت کی بات ہے۔ ہمیں خود کو اور اپنے گھر والوں کو آگ کی تباہی سے بچانا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا
ترجمہ:
اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ۔ (سورۃ التحريم :6)

جلدی کیجیئے، توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ شیطان لاکھ کوشش کرے گا ہمیں روکنے کی، مگر ہمیں صرف اللہ کو منانا ہے۔ یہ تعلق مع اللہ کو مضبوط کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، ہے کوئی جو اس کا فائدہ اٹھائے اور منالے اپنے رب کو؟
ختم شد
۲۲_اپریل_۲۰۲۰
۹_رمضان المبارک_١٤٤۲


 

10 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی