سیرت امین الامت حضرت ابو عبیدہ عامر ابن الجراحؓ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
الفاظ کی تعداد: 1005
حضرت ابو عبیدہؓ اوصاف حمیدہ کے مالک تھے۔ آپؓ پر خوف خدا غالب تھا، طبیعت میں زہد و تقوٰی انتہا درجے پر تھا، جرات وبہادری ورثے میں ملی تھی۔ آپؓ کی شکل و صورت سادگی اور کمزوری کی عکاسی کرتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ نے اپنی سیرت وکردار سے بہترین کارنامے سرانجام دیے اور عظیم سپہ سالاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
آپؓ کا نام عامر بن عبد اللہ اور کنیت ابو عبیدہ تھی۔ دادا کی طرف منسوب کرکے عامر ابن الجراح کہلاتے ہیں۔ آپؓ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت (فہر) پر رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے۔ آپؓ کو بارگاہ رسالت سے امین الامت کا لقب عطا ہوا۔ ( ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، اس امت کے امین حضرت ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ صحیح مسلم: 6252)
آپؓ سابقون الاولون میں شامل تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام لائے۔ آپؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں بھی ہوتا ہے۔
حضرت ابو عبیدہؓ نے تمام غزوات میں شرکت کی اور دشمن کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن آپؓ کی فضیلت غزوہ بدر میں شریک ہونے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔
غزوہ بدر میں آپؓ کے والد عبد اللہ کفار مکہ کی جانب سے لڑ رہے تھے۔ آپؓ کے والد آپ کے سامنے آتے تو وہ درگزر فرماتے۔ مگر جب یہ صورتحال بار بار پیش آئی تو آپؓ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آپؓ نے حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے ایک ہی وار میں سرزمین بدر پر زمین بوس کردیا۔ کیوں کہ اسلام کے سامنے جب کفر سر چڑھ کر بولتا ہے تو ایک مسلمان غیرت ایمانی کا پاس رکھتا ہے اور کسی نسبی تعلق کو آڑے آنے نہیں دیتا۔
غزوہ احد میں جب قریش کے اچانک حملے کی وجہ سے افراتفری پھیلی اور عبد اللہ بن قمیہ نے اپنی تلوار سے رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی کردیا۔ زرہ کی دو کڑیاں آپ ﷺ کے رخسار مبارک میں پیوست ہوگئیں۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کڑیوں کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو دو دانت شہید ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد آپؓ کے چہرے کی خوب صورتی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
خندق میں بنو قریظہ کی سرکوبی میں اہم خدمت سرانجام دی۔ بیعت رضوان میں شرکت کی اور صلح حدیبیہ میں شہادت بھی دی۔ جنگ خیبر و ذات السلاسل میں بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ طائف، حنین اور فتح مکہ کے موقع آپ نبی اکرم ﷺ کے ہمرکاب تھے۔
نجران کے علاقے میں نبی اکرم ﷺ نے تعلیم اسلام کی اشاعت کے لیے حضرت ابو عبیدہؓ کو منتخب فرمایا۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے لشکر اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کا امیر آپؓ کو بنایا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپؓ  اس قدر قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے کہ کسی بھی لشکر کی سربراہی کرسکتے تھے۔
غرض یہ کہ آپؓ نے دین اسلام کی اشاعت کی خاطر مسلسل جدوجہد کی۔ آپؓ کے جہادی کارناموں پر کئی اوراق لکھے جا چکے ہیں۔
نبی ﷺ کی وفات کے بعد عہد صدیقی میں بھی آپؓ کا مقام و مرتبہ بلند تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا مسئلہ زیر بحث آیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ فورا وہاں پہنچے اور خطاب کیا۔ اس کے بعد خصوصی طور پر دو حضرات کا نام تجویز کیا اور فرمایا: "ان دونوں (عمر اور ابو عبیدہ) میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کرلو۔"
جب حضرت ابو بکرؓ نے شام کی سرحدوں پر مختلف دستے روانہ کیے تو ایک دستے کا سپہ سالار حضرت ابو عبیدہؓ کو منتخب کیا اور حمص کی جانب روانہ کیا۔ اس کے علاوہ آپؓ ان تمام لشکروں کے سپہ سالار اعظم بھی مقرر ہوئے۔ اس عرصے میں حمص شام آپؓ کی سربراہی میں فتح ہوگیا۔
حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہؓ کو فوج کا امیر مقرر کیا۔ اس وقت حضرت خالد بن ولیدؓ نے فرمایا: " لوگوں! تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ امین الامت تمہارا ولی ہے۔" 
آپؓ نے رواداری کی اعلی مثال قائم کی، جب شام میں عیسائیوں کو صلیب نکالنے کی اجازت نہ تھی۔ ایک مرتبہ عید کے موقع پر عیسائیوں نے صلیب نکالنے کی اجازت مانگی تو آپؓ نے اجازت دے دی۔ اس کا اثر شامیوں پر اس طرح ہوا کہ وہ اپنے ہم مذہب رومیوں کے دشمن ہوگئے اور اپنی خوشی سے جاسوسی اور خبر رسانی کا کام سر انجام دینے لگے۔
عہد فاروقی میں فاتح بیت المقدس اور شام جیسے اعزازات حضرت ابو عبیدہؓ کے نام ہوئے۔
عہد فاروقی میں آپؓ شام کے گورنر بھی تھے۔ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروقؓ دورے پر شام تشریف لائے تو آپؓ حضرت عمرؓ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ گھر کسی بھی سامان سے خالی تھا۔ گھر میں صرف ایک ٹاٹ کا بوریا، پیالہ اور مشکیزہ تھا۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے فرمایا:
"دنیا نے ہم سب کو بدل دیا مگر دنیا تمہیں نہ بدل سکی"۔
ایک مرتبہ ایک مجلس میں حضرت عمرؓ نے سب کو اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیزیں بیان کرنے کا کہا۔ اس دوران اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے فرمایا: "میری آرزو یہ ہے کہ میرے پاس ایک مکان ہوتا اور وہ ابو عبیدہ جیسے لوگوں سے بھرا ہوتا۔"
ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا: "میں اگر حضرت ابو عبیدہ کو پاتا تو انہیں خلیفہ بناتا اور کسی سے اس بارے میں مشورہ نہ کرتا اگر کوئی مجھ سے سوال کرتا تو میں کہتا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے امین کو خلیفہ بنادیا۔" مسند احمد: 103
فلسطین کے شہر عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی پورا ملک شام لپیٹ میں آگیا۔ حضرت عمرؓ نے فوج کو اردن کے علاقے جابیہ میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ لیکن وبا کا اثر شدید ہوگیا اور ہزاروں لوگ اس وبا کے لپیٹ میں آگئے، جن میں حضرت ابو عبیدہؓ بھی تھے۔ مرض شدت اختیار کرگیا تو ابو عبیدہؓ نے معاذ بن جبلؓ کو اپنا نمائندہ بنایا اور حالت مرض میں پر اثر تقریر کی۔
آپؓ نے 18ھ میں 58 برس کی عمر میں وفات پائی، تجہیز و تکفین کے امور معاذ بن جبلؓ نے سرانجام دیے۔
........
الہی! بو عبیدہ سا کوئی انسان پیدا کر
سراپا صالح نیک تابع فرمان پیدا کر

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی