عید قرباں کا مقصد

تحریر:سیدہ حفظہ احمد

عید قرباں کا مقصد/ عید الاضحی/ فلسفہ قربانی

ہم ہر سال بقر عید بڑے زور و شور سے مناتے ہیں قربانی کرتے ہیں۔ کیوں نہ منائیں؟ سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ لیکن! کیا ہم نے سوچا اس کے اسرار و رزموز کیا ہیں؟ کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ عید قرباں سے دراصل ہمارے لیے کیا اسباق ہیں؟ آج کل ہم تو شوق میں قربانی کرتے ہیں۔ ہر ایک عمدہ جانور کی تمنا کرتا ہے اور ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا دین اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے؟ کیا اصل مقصد کو ہم نے جان کر پورا کرنے کی کوشش کی؟

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ نے کیا خوب فرمایا ہے:

"دین شوق پورا کرنے کا نام نہیں بلکہ اطاعت کانام ہے یہ دیکھنا چاہیئے کہ دین ہم سے کیا تقاضا کررہا ہے؟"

عید قرباں کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں تین شخصیات رونما ہوتی ہیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت اسماعیل علیہ السلام

حضرت بی بی ہاجرہ علیھا السلام

ان تینوں شخصیات سے حج اور قربانی کے واقعات جڑے ہیں۔ اللہ نے ان کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا اور ان کے اعمال کو پسند فرما کر امت محمدیہ کے لیے فرض قرار دے دیا۔

لیکن آج تک ہم نے ان شخصیات کو سمجھ کر ان کی اتباع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا ذکر گزرا بھی تو بس ہم نے ان محض پڑھائی کی حیثیت سے پڑھ کر کتاب بند کردی۔

وہ جس نے دی ہے جان و مال کی بے حد ہی قربانی

قسم اللہ کی کوئی نہیں ہے اس ذات کا ثانی(محمد اسامہ سرسری)

قربانی کا لفظ دراصل "قرب" سے نکلا ہے۔ جس کے معنی کسی شے کے نزدیک ہونا ہے۔ قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ قربانی کے ذریعے ہم اللہ کا قرب اور رضا حاصل کرتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ "

ترجمہ:

"تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔  اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو، اللہ اسے خوب جانتا ہے"۔ (سورۃ ال عمران:92)

عید قرباں میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کی محبت گھر کر جائے۔ جب ایسا ہوجائے تو ان لوگوں کے لیے کوئی بھی کام کرنا مشکل نہیں ہوتا، وہ ہر قدم پر اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال دینےسے گریز نہیں کرتے، آزمائش آئے تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، اللہ پر توکل کرکے اس سے مدد مانگتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں۔ اپنا ہر معاملہ اللہ کے سپرد کردیتے ہیں تو اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ صبر برداشت کی قوت (جان مال خواہشات کی قربانی) انسان کی زندگی کو خوشگوار بناتی ہے۔ اسی طرح مقصد کے لیے کوشش کرنے اور اللہ کی مدد پہنچنے کا انتظار کرے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانا معقول بات نہیں ہوتی۔

"لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمۡ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ‌ؕ وَبَشِّرِ الۡمُحۡسِنِيۡنَ "

ترجمہ:

" اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری سنا دو"۔ (سورۃ الحج :37)

قربانی کے اس عمل میں ہمارے لیے یہ قیمتی موتی بھی ہیں کہ ہم اپنی کوئی بھی قیمتی چیز قربان کرتے ہوئے کترائیں نہیں۔ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کریں، بل کہ ایسے خرچ کریں کہ دایاں ہاتھ سے دیں تو بایاں ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو۔ اللہ کا قرب نصیب ہو، تقوی اور تزکیہ نفس حاصل ہو، ہماری امیدیں اللہ سے وابستہ ہوں، ہمارے حوصلہ بلند اور ارادے پختہ ہوں۔

اللہ تعالی نے پچھلی امتوں میں بھی قربانی کا حکم دیا تھا۔

" وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسۡلِمُوۡا‌ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُخۡبِتِيۡنَ "

ترجمہ:

"اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوشخبردی سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں"۔(سورۃ الحج:34)

پچھلی امتوں میں قربانی کا تصور تو تھا لیکن ان کو قربانی کے جانور کی باقیات اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کی قربانی کو ایک آگ آکر کھا جاتی تو یقین ہوجاتا کہ قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی۔ اگر ابھی ایسا ہوتا تو ہم ابھی اپنا محاسبہ کریں ہماری نیت کے مطابق کتنے لوگوں کی قربانی قبول کی جاتی؟ اللہ نے اس امت پر سے یہ روک ہٹائی اور قربانی کے بعد جانور کی ہر ہر چیز میں فائدہ رکھا گیا۔ کھال سے لے کر گوشت تک ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی۔ گوشت کو ضائع کرنے کے بجائے خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ کا حکم دیا گیا۔ قربانی کے اس گوشت کے تین حصے کرنے کا طریقہ بتایا تاکہ وہ لوگ جو پورا سال اس نعمت سے محروم رہے، وہ بھی خوشی کے دن اس نعمت سے فائدہ اٹھائیں۔

پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے۔ اس قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔(مشکوٰة)

اس سے ثابت ہوا کہ ہمارے ہر عمل میں اخلاص کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دکھاوا تمام اعمال کو تباہ کردیتا ہے۔ الغرض یہ کہ خالصتا اللہ کی رضا و خوشنودی اور غریبوں کے ساتھ تعاون ہی عید قرباں کا مقصد ہے۔ اللہ تعالی ہماری نیتوں کو درست فرماکر صحیح مقصد کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین

۲۸_جولائی_۲۰۲۰

٦_ذوالحجہ_١٤٤١

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی