واقعہ کربلا سے اسباق

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

واقعہ کربلا کے اسباق
اسلام ایک ایسا دین ہے، جو امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔ دنیا کے تمام ادیان میں دین اسلام اور دنیا کی تمام اقوام کی تاریخ میں اسلامی تاریخ ہی شان دار حیثیت رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ "جب کسی قوم کو پہچاننا ہو تو اس کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لو۔" اسلامی تاریخ کے بے شمار واقعات ہیں، جو ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں لیکن واقعہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے، جو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ جس کا درد آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔

قارئین کرام! کربلا میں جو ظلم ڈھائے گئے یہ باتیں ایک طرف ہیں، جن پر مختلف افراد نظر ثانی کرچکے ہیں، ہزاروں لاکھوں اوراق اس پر لکھے جاچکے ہیں۔ بہت ہی کم ہیں، جنہوں نے اس سے حاصل ہونے والے اسباق پر روشنی ڈالی ہے۔ آئیے روشنی ڈالتے ہیں ان چند اسباق کی طرف جو ہمیں واقعہ کربلا سے حاصل ہوتے ہیں۔

قارئین کرام ! یہاں میرا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم حسینیت کو بیان تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے اپنانا نہیں چاہتے۔ آج صرف اسے بیان کرنا اور سننے کا ہی دور دورہ ہے۔ اس پر عمل کرنا تو کوسوں دور ہے۔

اگرچہ واقعہ کربلا کی پیشین گوئی کی جاچکی تھی، نبی اکرم ﷺ کو علم تھا کہ لخت جگر نواسۂ رسولﷺ فلاں سر زمین پر شہید ہوگا۔ چاہتے تو کیا اللہ سے دعا کرکے اس کو ٹال نہ دیتے؟ کیا ان کی بات رد کردی جاتی؟ نہیں! انہیں معلوم تھا کہ یہ قربانی دین اسلام کی خاطر دی جائے گی۔

شاعر کیا خوب کہتا ہے:
نانا کو کیوں ناز نہ ہو اپنے نواسے پر،
ہر قول مصطفی ﷺ نبھایا ہے حسین نے
امام حسین شہید کربلا رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: "عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے"۔ اس قول کو آپ نے ثابت کرکے دکھایا۔ آپ نے فرمایا: "ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے لیکن میں ذلت کو قبول کرنے والا نہیں ہوں"۔ آپ کا مقصد اور اصل ہدف خالصتا اللہ اور رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنا تھی۔
واقعہ کربلا ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ دین اسلام کی خاطر سر کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔ دین اسلام پر ثابت قدم رہو، جبر اور مخالف طاقت کی بنیاد پر بھی باطل قوتوں کا ساتھ مت دو۔ دین اسلام کی شان و شوکت پر ایک آنچ بھی نہ آنے دو۔
شاعر نے اس کو قلمبند کیا:
سجدے میں سر کٹا کہ محمد کے لعل نے،
زندگی بخش دی بندگی کو، آبرو دین حق کی بچالی
شہیدان کربلا نے اپنے عمل سے ثبوت اور پیغام دیا کہ ظلم و استبداد کو سر نگوں کرنا کرۂ ارض پر بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے۔ انہوں نے نبی ﷺ کے اس وعدے کی پاسداری کا ثبوت دیا کہ ایمان کی ایک نشانی وعدہ کا پاس رکھنا ہے۔ جب امام حسین نے اپنے حامیوں سے کہا: "تم سب لوٹ جاؤ وہ میرے منتظر ہیں، جب مجھے پالیں گے تو تمہارا پیچھا نہیں کریں گے"۔ حامیوں نے کہا: اے گوشۂ رسول ﷺ! "ہم مرتے دم تک آپ کے ساتھ رہیں گے"۔
واقعہ کربلا اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہمیں رضائے الٰہی کی خاطر اپنا جان و مال بلکہ اپنا خاندان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ حق و سچائی دین ملت کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ لٹانے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔ کیوں کہ اس وقت دین ملت کی حفاظت جان سے زیادہ اہم ہے۔ کیسے وہ باطل قوتوں کا ساتھ دیتے؟ جو نواسۂ رسولﷺ ہوں، جن کی تربیت رسول ﷺ کی گود میں ہوئی ہو؟
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ابھی اٹھ کر جنگ کرنا شروع کردیں، نہیں! بلکہ جنگ کو تو ٹالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے آخری وقت تک کوشش کی کہ جنگ نہ ہونے پائے اسی لیے تو آپ نے کہا " یہ میرے منتظر ہیں، تم سب لوٹ جاؤ "۔
آپ نے یہ سب اس طرز حکومت اور مزاج حکمرانی کو باقی رکھنے کے لیے کیا، جس کی بنیاد خلفاء راشدین کے دور حکومت میں مضبوط ہوچکی تھی۔ اس دین اسلام کو بچانے کی خاطر آپ نے اپنا سر تن سے جدا کروالیا۔ وہ اللہ اور رسول ﷺ سے مخلص تھے، کیوں کہ اللہ مخلصین کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا۔ اس سے ہمیں اخلاص کا درس ملا۔
ایک مقصد آپ کا یہ بھی تھا کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مثال بن کر اس کا سبق دینا۔ کیوں کہ آپ نے فرمایا: "میں دیکھ رہا ہوں کہ اچھی باتوں پر عمل نہیں کیا جارہا بری باتوں سے روکا نہیں جارہا"۔
واقعہ کربلا کا ایک اور سبق یہ بھی تھا کہ نواسہ رسول ﷺ اللہ پر توکل کرکے آگے بڑھ چلے تھے کہ اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اللہ پر توکل، اللہ سے رجوع اس قدر تھا کہ آخری وقت بھی آپ نے دنیا نہ مانگی، دو نفل ادا کرنے کی مہلت مانگی تھی۔ آہ! سر تن سے جدا ہوا لیکن تلاوت قرآن جاری رہی۔
قارئین کرام! میں اپنی تحریر کا پھیلاؤ نہیں چاہتی، اس لیے اس سب کو چند الفاظ میں بطور خلاصہ پیش کرتی ہوں کہ واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والے اسباق کیا ہیں:
* کتاب و سنت کے احکامات کو صحیح طور پر رواج دینا۔
*اسلام کے نظام عدل کو ازسر نو تعمیر کرنا۔
*خلافت و نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلے میں مخلصانہ جہاد کرنا۔
*حق کے مقابلے میں مال و زر سے مرعوب نہ ہونا۔
*حق کے مقابلے میں جان و مال کو قربان کرنے سے نہ گھبرانا۔
*مصیبت و مشقت میں توکل علی اللہ کرنا۔ اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا۔
قارئین کرام! صبر و رضا اور تسلیم حق کا دعوی کرلینا آسان ہے، صابر اور تسلیم کہہ دینا بھی بہت آسان ہے لیکن اس کا ثبوت پیش کرنا اور درجۂ کمال تک پہنچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہر ایک اپنا خاندان یوں نہیں لٹا سکتا۔ اس لیے ہمیں اس سے حاصل ہونے والے اسباق کو گراں قدر اہمیت دینی چاہیئے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کلام لکھا ہے:

نبیﷺ کے دل کا چین ہے شہیدِ حق حسینؓ ہے

کہ حق پہ سب لٹا دیا کہ سر بھی ہے کٹا دیا

شہادتِ حسینؓ نے ہے کفر کو ہلا دیا

وہ کفر کا زوال تھا وہ حق کی اک مثال تھا

جو ظلم کا نشان تھا حسینؓ نے مٹا دیا

(اشعار: میاں محمد زین العابدین)

قارئین کرام! اب ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہم نے اپنے دین کے لیے کیا قربانی دی؟ اب تک ہم نے اپنے دین کے لیے کیا کیا؟

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ 

ترجمہ:

تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ (سورۃ آل عمران: 92)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والے قیمتی موتی چننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

۲۹_اگست_۲۰۲۰

١۰_محرم الحرام_١٤٤۲

4 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

  1. ماشاءاللّه بہت خوب واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والے سبق پر روشنی ڈالی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت عمدہ کاوش ❤️
    اللہ تعالیٰ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی