سیرت فاتحِ خیبر خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

سیرت فاتحِ خیبر خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ

خلیفہ چہارم، زندگی میں ہی جنت کی خوش خبری ملنے والے شخص، عشرہ مبشرہ میں شامل، شیرِ خدا، دامادِ رسول ،ابن عم النبی حضرت علی المرتضیؓ سادگی اور خلوص کا پیکر تھے۔ عبادت و ریاضت ان کی زندگی کا مشغلہ تھی۔ شجاعت و مردانگی میں نام ہمیشہ رہا۔ دینی علوم کے دریا تھے،صبر وتحمل کا پہلو آپ کی ذات میں منفرد تھا۔ آپ بے انتہا سخی اور فیاض تھے، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے کبھی نہ گھبراتے تھے۔ دشمنوں پر اللہ کی راہ میں سخت جبکہ باہمی طور پر رحم دل تھے، غرور و تکبر سے پاک تھے۔ تقریر و خطابت کے ماہر تھے۔ حضرت علیؓ کا تعارف اور ان کی زندگی کے حالات و واقعات مندرجہ ذیل ہیں؛
مختصر تعارف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ

اسم مبارک:

حضرت علیؓ کا مکمل نام علی بن ابو طالب تھا۔ آپؓ کی والدہ نے آپ کا نام حیدر رکھا۔ اس مناسبت سے آپؓ کا نام حیدر بھی ہے، حیدر دراصل حضرت علیؓ کے نانا اسد کا نام تھا، جب آپؓ پیدا ہوئے تو اس وقت آپؓ کی والدہ فاطمہؓ بنت اسد نے آپؓ کا نام اپنے باپ کے نام پر حیدر رکھا، پھر بعد میں ابوطالب نے اپنی طرف سے بیٹے کا نام علی رکھا۔

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

کنیت:

آپؓ کی کنیت ابوالحسن اور ابو تراب تھی۔

ابو تراب کی وجہ تسمیہ:

‏إِنْ كَانَتْ أَحَبَّ أَسْمَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَيْهِ لَأَبُو تُرَابٍ،‏وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ أَنْ يُدْعَى بِهَا، ‏وَمَا سَمَّاهُ أَبُو تُرَابٍ إِلَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَاضَبَ يَوْمًا فَاطِمَةَ، ‏فَخَرَجَ فَاضْطَجَعَ إِلَى الْجِدَارِ إِلَى الْمَسْجِدِ، ‏فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْبَعُهُ،‏فَقَالَ: هُوَ ذَا مُضْطَجِعٌ فِي الْجِدَارِ،‏فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَامْتَلَأَ ظَهْرُهُ تُرَابًا، ‏فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ وَيَقُولُ: اجْلِسْ يَا أَبَا تُرَابٍ

ترجمہ:

علیؓ کو ان کی کنیت ابوتراب سب سے زیادہ پیاری تھی اور اس کنیت سے انہیں پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ یہ کنیت ابوتراب خود رسول اللہ ﷺ نے رکھی تھی۔ ایک دن فاطمہؓ سے خفا ہو کر وہ باہر چلے آئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی کریم ﷺ ان کے پیچھے آئے اور فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو علیؓ کی پیٹھ مٹی سے بھر چکی تھی۔ نبی کریم ﷺ ان کی پیٹھ سے مٹی جھاڑتے ہوئے (پیار سے) فرمانے لگے ابوتراب اٹھ جاؤ۔ (صحیح بخاری: 6204)

والدین:

آپؓ کے والد کا نام عمران تھا۔ آپ کی کنیت ابو طالب تھی، جو نبی اکرمﷺ کے چچا تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھا۔ آپؓ کے والدین دونوں ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ دونوں حضرات وہ ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی والدہ اور پھر دادا کی وفات کے بعد نبی اکرم ﷺ کی پرورش کی تھی۔ حضرت ابو طالب مکے کے ذی اثر لوگوں میں سے تھے۔ ان ہی کے زیر حمایت آپﷺ نے کلمہ حق کو بلند کیا اور آخری دم تک آپ کا ساتھ دیا۔

حضرت علیؓ کی والدہ فاطمہ بنت اسد اسلام لے کر آئیں، ہجرت بھی کی اور نبی اکرمﷺ کو بھی کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہمیشہ شفقت سے پیش آئیں۔ یہ ہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ ان کی وفات کے موقع پر اپنے دست مبارک سے اپنا کرتا کفن کے طور پر پہنایا اور ان کو قبر میں خود اتارا۔

ولادت:

حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کی ولادت 13 رجب کو ہجرت سے 23 سال قبل یعنی بعثت نبوی سے دس سال قبل ہوئی۔ آپؓ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ مکہ مکرمہ میں حرمِ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ (اسلامی تاریخ_امتیاز پراچہ)

خاندان، قبیلہ اور نسب:

آپؓ مکی تھے۔ آپؓ قبیلہ قریش اور خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کا سلسلہ نسب دوسری پشت پر آنحضرتﷺ سے جاکر ملتا ہے۔ آپؓ نبی اکرم ﷺ کے سگے چچازاد بھائی تھے۔

آپؓ کا شجرہ نسب یوں ہے:

امیر المؤمنین حضرت علیؓ بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نظر بن کنانہ۔

حلیہ مبارک:

حضرت علیؓ گہرے گندمی رنگ کے تھے۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں، قد میانہ مائل بہ پستی تھا، پیٹ بڑا اور سر کے بال کسی قدر اڑے ہوئے تھے، داڑھی گھنی اور لمبی تھی، دہن کشادہ تھا اور پکی عمر میں سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے تھے۔ (مشکوۃ)

آپ ﷺ کی سر پرستی میں:

آپؓ تین سال کے تھے، جب نبی اکرم ﷺ نے آپؓ کو ان کے والد کے گھر کے حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے نبی اکرم ﷺ کا قدم بہ قدم ساتھ بھی دیا اور کبھی تنہا نہ چھوڑا۔

قبول اسلام:

آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ یعنی آپؓ نے بالکل ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کیا۔ آپؓ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے وقت آپؓ کی عمر مبارک دس سال تھی۔

دین اسلام کی معاونت:

جب اللہ رب العالمین نے نبی اکرمﷺ کو اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتے داروں کو دعوت اسلام دینے کا حکم فرمایا (وانذر عشیرتک الاقربین) تو نبی اکرم ﷺ نے چالیس لوگوں کو دعوت و ضیافت پر مدعو کیا، جس میں آپ ﷺ کے چچا وغیرہ شامل تھے۔ آپ ﷺ نے دعوت دی اور دعوت وتبلیغ میں معاون بننے کا کہا تو سب نے انکار کردیا۔ سوائے حضرت علیؓ (جو اس وقت مجلس میں سب سے چھوٹے تھے) کے کوئی بھی امادہ نہ ہوا۔

حضرت علیؓ نے فرمایا: میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں مگر آپ ﷺ کی ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔

حضرت علیؓ کے لیے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ہجرت کے موقع پر:

جب کفار مکہ نے آپﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور نبی اکرم ﷺ نے اس رات ہی ہجرت کا ارادہ کیا اور تمام امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کرکے انہیں اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا۔ اندازہ لگائیے! جس شخص کو معلوم ہو کہ اس جگہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے اور اس شخص کی جگہ پر رات گزارنی ہے، جس عظیم ہستی کے قتل کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اللہ اکبر! کیا ہی عظیم عقیدت کا اظہار ہے۔ آپؓ نے اس فریضہ کو بخوبی انجام دیا۔

نبی اکرمﷺ کی طرف سے امانتیں سپرد کرنے کا فریضہ ادا کرنے کے تین دن بعد آپؓ نے بھی مدینہ ہجرت کی۔

رشتہ مواخات:

نبی اکرمﷺ نے مدینہ میں مکے اور مدینے کے لوگوں کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا مگر حضرت علیؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ ان کا انصار میں سے کسی شخص کے ساتھ مواخات کا رشتہ قائم نہیں ہوا تھا۔ آپؓ نے اللہ کے نبی سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ آپ نے میرا بھائی چارہ کسی کے ساتھ قائم نہیں کیا؟ اللہ کے نبی نے فرمایا: تم میرے بھائی ہو۔ روایت میں ہے کہ:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، ‏فَقَالَ:‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ، ‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

ترجمہ:

عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علیؓ روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تم میرے بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں۔ (جامع ترمذی: 3720)

عقد نکاح اور حق مہر:

ہجرت کے دوسرے سال آنحضرتﷺ نے اپنی بیٹی لخت جگر خاتونِ جنت حضرت فاطمہؓ الزھرۃ کو حضرت علیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ یہ نکاح نبی اکرم ﷺ نے خود پڑھایا اور برکت کی دعا دی۔ آپ ؓ کے پاس مال کچھ بھی نہ تھا۔ آپؓ نے اپنی ذرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ کا حق مہر ادا کیا۔ یہ وہ ذرہ تھی جو غزوہ بدر کے بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی۔ ذرہ کی قیمت خاتون جنت کا حق مہر بنی اور ذرہ حضرت عثمان غنیؓ کے ذریعے فروخت کی گئی تھی۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ جب میں نے سیدہ فاطمہ رضي اﷲ عنہا سے شادی کی تو میں نے عرض کی یارسول اﷲ (صلی اﷲ علیک وسلم) کیا فروخت کروں؟ اپنا گھوڑا یا ذرّہ؟ فرمایا اپنی ذرّہ فروخت کر دے، میں نے وہ بارہ (12) اوقیہ چاندی کے عوض بیچ دی۔

اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایک الگ مکان کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ نے ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا تھا۔ اس سے پہلے آپؓ نبی اکرم کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔

متعدد ازواج:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مختلف اوقات میں آٹھ یا نو شادیاں کیں اور ان کے علاوہ آپؓ کی کئی باندیاں بھی تھیں۔ آپؓ کا پہلا نکاح جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوا۔ آپؓ کو حضرت فاطمۃ الزھرۃ سے بہت محبت تھی۔ جب تک کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بقید حیات رہیں آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے کسی اور سے نکاح نہ کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد مختلف اوقات میں آپ کے درج ذیل نکاح ہوئے۔

ام البنین بنت حزام عامریہؓ

لیلیٰ بنت مسعود تیمیہؓ

اسما بنت عمیس خثیمہؓ

ام حبیبہ بنت زمعہؓ

امامہ بنت ابوالعاصؓ

خولہ بنت جعفر حنفیہؓ

ام سعید بنت عروہؓ

اولاد:

آپؓ مختلف نکاح کے نتیجے میں چودہ صاحبزادے اور سات صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1_حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تین صاحبزادے پیدا ہوئے اور دو صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔

تین صاحبزادے:

امام حسن
امام حسین (امام حسن و حسین علیھما السلام جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں)
امام محسن علیہم السلام ( آپ کا بچپن میں ہی وصال ہوگیا تھا)

دو صاحبزادیاں:

زینب الکبریٰ اور

ام کلثوم کبریٰ رضی اللہ عنہما۔ (ان کا نکاح حضرت عمر ابن الخطابؓ سے ہوا)

2_ام البنین بنت حزام عامریہؓ سے چار فرزند پیدا ہوئے۔

حضرت عباس،

حضرت جعفر،

حضرت عبداللہ

حضرت عثمان علیھم السلام

3_لیلیٰ بنت مسعود تیمیہ رضی اللہ عنہا ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔

عبیداللہ اور

ابوبکر علیھما السلام

4_اسما بنت عمیس خثیمہؓ سے دو صاحبزادے پیدا ہوئے۔

یحییٰ اور

محمد اصغر رضی اللہ عنہما

5_ام حبیبہ بنت زمعہؓ سے ایک صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں۔

حضرت عمر اور

سیدہ رقیہ علیھم السلام

6_امامہ بنت ابوالعاصؓ سے ایک صاحبزادے محمد اوسط علیہ السلام پیدا ہوئے۔

7_خولہ بنت جعفرؓ حنفیہ سے محمد اکبر پیدا ہوئے، جو محمد حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں۔

8_ام سعید بنت عروہؓ سے دو صاحبزادیاں ام الحسین اور رملہ کبریٰ علیھما السلام پیدا ہوئیں۔

غزوات اور جنگ خیبر:

آپؓ شجاعت، سخاوت اور علم کے پیکر تھے. آپؓ ایک نڈر سپاہی اور مجاہد تھے۔ آپؓ فاتحِ خیبر ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے جنگ خیبر سے پہلے اعلان کیا کہ "میں کل اسلام کا عَلَم اس شخص کو دوں گا جو خدا اور رسول ﷺ کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور رسول ﷺ بھی اس کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ اسی کے ہاتھوں فتح عنایت فرمائے گا"۔ روانگی کے وقت آپؓ کو نصیحت بھی کی۔ روایت میں ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَی يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوکُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا قَالَ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ قَالَ فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ حَتَّی کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّی يَکُونُوا مِثْلَنَا فَقَالَ انْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ

ترجمہ:

حضرت سہل بن سعدؓ خبر دیتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں یہ جھنڈا ایک ایسے آدمی کو عطا کروں گا کہ جس کے ہاتھوں پر اللہ فتح عطا فرمائیں گے، وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں، راوی کہتے ہیں کہ لوگ ساری رات اسی بات کا تذکرہ کرتے رہے کہ جھنڈا کس (خوش نصیب) کو عطا کیا جائے گا؟ راوی کہتے ہیں جب صبح ہوئی اور سب لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور ان میں سے ہر ایک آدمی کی یہ آرزو تھی کہ یہ جھنڈا اسے ملے تو آپﷺ نے فرمایا علیؓ بن ابی طالب کہاں ہیں؟ تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا وہ ہیں، اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور ان کے لئے دعا فرمائی، حضرت علیؓ بالکل صحیح ہوگئے گویا کہ ان کو کوئی تکلیف ہی نہیں تھی، پھر آپ نے حضرت علیؓ کو جھنڈا عطا فرمایا تو حضرت علیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ ! میں ان سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لوگ ہماری طرح ہوجائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا آہستہ آہستہ چل یہاں تک کہ تو ان کے میدان میں اتر جائے پھر تو ان کو اسلام کی دعوت دے اور ان کو خبر دے کہ ان پر اللہ کا جو حق واجب ہے، اللہ کی قسم! اگر اللہ تیری وجہ سے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تیرے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔ (صحیح مسلم: 6223)

آپؓ نے تمام غزوات میں بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔

غزوہ بدر کے موقع پر تین اسلامی پرچم تھے، جس میں سے ایک حضرت علیؓ کے پاس تھا۔

غزوہ احد میں اسلام کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ کے پاس تھا مگر جب وہ شہید ہوئے تو حضرت علیؓ کے پاس رہا۔

غزوہ خندق میں جب چند کافر خندق پار کرکے آگے نکلنے لگے تو ایک پہلوان نے عمرو بن عبدِ ودّ جو بہادر اور شہسوار تھا اس نے للکار۔ حضرت علیؓ مقابلے کے لیے آگے بڑھے لیکن اس کافر نے حقارت سے منع کردیا کہ میرے مد مقابل کوئی شخص لے کر آؤ مگر حضرت علیؓ ڈٹے رہے اور کہا: مجھ سے ہی مقابلہ کرو پھر مقابلہ ہوا تو حضرت علیؓ نے اس شخص کو واصل جہنم کردیا یہ دیکھ کر باقی لوگ بھی الٹے پاؤں بھاگ پڑے۔

آپؓ نے ہی صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح نامہ کی شرائط لکھنے کی خدمت انجام دی۔

فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے آپؓ کو بت توڑنے کا حکم دیا مگر وہ زیادہ بلندی پر رکھے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ کو نبی اکرم نے اپنے کاندھوں پر کھڑا کرکے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔

صرف غزوہ تبوک میں آپ نے نبی اکرمﷺ کے حکم سے شرکت نہیں کی۔ غزؤہ تبوک کے لئے جاتے ہوئے آنحضرت ﷺ ان کو اپنے اہل و عیال پر حاکم مقرر کرکے مدینہ چھوڑ کر گئے تھے۔ امام مسلم صحیح مسلم میں روایت نقل کرتے ہیں کہ:

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوکَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

ترجمہ:

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ابن ابی طالبؓ کو (مدینہ منورہ پر) حاکم بنایا، جب آپ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا (اے علی ! ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون (علیہ السلام) کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: 6218)

غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد مکہ میں کچھ اعلانات کرنے تھے جو سب کو علی الاعلان حجۃ الوداع سے پہلے سنانے ضروری تھے اس اعلان کو عام کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو ہی حکم دیا گیا۔

آپؓ کی مشہور تلوار (ذوالفقار):

آپؓ کو غزوہ بدر کے موقع پر ایک تلوار انعام میں دی۔ یہ انعام بطور نفل تھا اور نفل اس انعام کو کہتے ہیں جو کسی مجاہد کو اس کی کارکردگی اور بہادری کے صلہ میں حصہ سے زیادہ دیا جاتا ہے، یہ تلوار پہلے عاص بن امیہ کی تھی جو بدر کے دن کام آیا، پھر یہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئی، آپ نے اسے علیؓ کو دے دیا، اور ان کے پاس یہ تلوار ان کی وفات تک رہی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:تَنَفَّلَ سَيْفَهُ ذَا الْفَقَارِ يَوْمَ بَدْرٍ

ترجمہ:

عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ بدر کے دن اپنی ذوالفقار نامی تلوار (علیؓ کو) انعام میں دی۔ (حدیث نمبر: 2808)

آیت مباہلہ کے نزول کے وقت حضرت علیؓ اور ان کے خاندان کو دعوت:

فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ

ترجمہ:

پھر جو کوئی جھگڑا کرے تجھ سے اس قصہ میں بعد اس کے کہ آچکی تیرے پاس خبر سچی تو تو کہہ دے آؤ بلاویں ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جان اور تمہاری جان پھر التجا کریں ہم سب اور لعنت کریں اللہ کی ان پر کہ جو جھوٹے ہیں۔ (سورۃ آل عمران: 61)

اس آیت کے پس منظر نزول کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ:

حضور اکرم ﷺ نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں۔

(١) اسلام قبول کرو (٢) یا جزیہ ادا کرو ( ٣) یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ نصاری نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، عبداللہ بن شرحبیل اور جبار بن قیص کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا، ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا، اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی، اس پر آپ ﷺ نے نصاری کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، امام حسن اور حسینؓ کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے تیار ہو کر تشریف لائے۔ شرحبیل نے یہ دیکھ کر اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کا نبی ہے، نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت ہے، بربادی یقینی ہے، اس لئے نجات کا کوئی دوسراراستہ تلاش کرو، ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے؟ اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے، چناچہ اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا، چناچہ نبی ﷺ نے ان پر جزیہ مقرر کر کے صلح کردی، جس کو انہوں نے بھی منظور کرلیا۔ (معارف القرآن جلد دوم)

حضور اکرم ﷺ کی حضرت علیؓ کو نصیحت:

نبی اکرمﷺ نے حضرت علی کو نصیحت کی کہ تین باتوں میں کبھی دیر نہ کرنا۔ روایت میں ہے کہ:

عَنْ عَلِیِّ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ یَا عَلِیُّ ثَلَاثُ لَّا تُؤَ خِّرْھَا اَلصَّلٰوۃُ اِذَاَتَتْ وَالْجَنَازَۃُ اِذَا حَضَرَتْ وَالْاَ یِّمُ اِذَا وَجَدْتَ لَھَا کُفُوًا

ترجمہ:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علی! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہوجائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہوجائے اور تیسری بےخاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔ (مشکوٰۃ شریف: 571)

نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے موقع پر:

نبی اکرمﷺ وصال سے قبل کئی دن علیل رہے۔ صدیق اکبرؓ کو امامت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چند روز نبی اکرمﷺ نے آخری خطبہ دیا۔ خطبے کے لیے آپ حضرت علیؓ اور حضرت فضلؓ کے کاندھوں پر ٹیک لگائے ہوئے تشریف لائے تھے۔ روایت میں ہے کہ:

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم جَآءَ بِلَالٌ ےُّؤْذِنُہُ بِالصَّلٰوۃِ فَقَالَ مُرُوْا اَبَا بَکْرٍ اَنْ ےُّصَلِّیَ بِالنَّاسِ فَصَلّٰی اَبُوْ بَکْرٍ تِلْکَ الْاَےَّامَ ثُمَّ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَجَدَ فِیْ نَفْسِہٖ خِفَّۃً فَقَامَ ےُھَادٰی بَےْنَ رَجُلَےْنِ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْاَرْضِ حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمَّا سَمِعَ اَبُوْ بَکْرٍ حِسَّہُ ذَھَبَ ےَتَاَخَّرُ فَاَوْمٰی اِلَےْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ لَّا ےَتَاَخَّرَ فَجَآءَ حَتّٰی جَلَسَ عَنْ ےَّسَارِ اَبِیْ بَکْرٍ فَکَانَ اَبُوْ بَکْرٍ ےُّصَلِّیْ قَآئِمًا وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ قَاعِدًا ےَّقْتَدِیْ اَبُوْ بَکْرٍ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّاسُ ےَقْتَدُوْنَ بِصَلٰوۃِ اَبِیْ بَکْرٍ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لَّھُمَا ےَسْمَعُ اَبُوْ بَکْرِ النَّاسَ التَّکْبِیْرَ۔

ترجمہ:

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ بیمار تھے تو (ایک دن) حضرت بلالؓ آپ ﷺ کو نماز کے لئے بلانے آئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چناچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کو ان دنوں میں سترہ نمازیں پڑھائیں پھر جب (ایک دن) رسول اللہ ﷺ نے اپنی طبیعت کچھ ہلکی محسوس فرمائی تو آپ ﷺ (نماز کے لئے مسجد میں) دو آدمیوں کا سہارا لے کر (اس طرح) آئے کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے صحابہ کے کندھوں پر ٹیک رکھے ہوئے تھے اور (ضعف و کمزوری کے سبب) آپ ﷺ کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے آپ ﷺ کی آمد کی آہٹ محسوس کی اور پیچھے ہٹنا شروع کیا (تاکہ رسول اللہ ﷺ ان کی جگہ کھڑے ہوجائیں اور امامت کریں) رسول اللہ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرف اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو پھر آپ ﷺ (آگے) بڑھے اور حضرت ابوبکرؓ کے بائیں طرف بیٹھ گئے چناچہ حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور رسول اللہ ﷺ ضعف و کمزوری کی بناء پر) بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی نماز کی اقتداء کرتے (مشکوٰۃ شریف: 1110)

وصال کے بعد غسل اور تجہیز و تکفین میں بھی حضرت علیؓ شریک تھے۔

حضرت علیؓ اور عشق رسول ﷺ (چند واقعات)

1- حضرت علیؓ کی نبی اکرمﷺ سے عشق کی کیفیت یہ تھی کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیدنا علیؓ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگ رسول اﷺللہ سے کیسی محبت کرتے ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! رحمت دو عالمﷺ ہمیں اپنے مال، اپنی اولاد، ماں باپ اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔

محمد ہے متاعِ عالمِ ایجاد سے پیارا

پدر، مادر، برادر، جان، مال، اولاد سے پیارا

2- غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا ہوا اس وقت مسلمان چاروں طرف سے کفار کے نرغے میں آگئے، جس کی وجہ سے بہت سے صحابہ کرامؓ شہید بھی ہوگئے تھے۔ نبی اکرمﷺ کو بھی کفار نے گھیر لیا اور یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ نبی اکرم شہید ہوگئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ اس خبر سے بہت پریشان ہوئے اور ادھر ادھر متفرق ہوگئے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں: جب کفار نے رسول اکرم کو گھیر لیا اور رسول اکرم ﷺ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے تو میں نے ان کو زندوں میں تلاش کیا، وہاں موجود نہ پایا تو شہدا میں تلاش کیا، جب وہاں بھی نہ پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ کہیں ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اکرم ﷺ لڑائی سے واپس پلٹ جائیں۔ بظاہر حق تعالی ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم ہر ناراض ہوا اس لیے اللہ نے اپنی نبیﷺ کو آسمان پر اٹھالیا، اس لیے اب اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ میں کفار کے جتھے تلوار لے کر گھس جاؤں یہاں تک کہ مارا جاؤں (یعنی جب تک دم ہے ان سے لڑتا رہوں)۔ میں نے تلوار لے کر حملہ کیا یہاں تک کہ کفار ہٹتے گئے جب میری نگاہ حضور اکرمﷺ پر پڑی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے اپنے محبوب کی حفاظت کی، میں حضور ﷺ کے پاس جاکر کھڑا ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: علی! ان کو روکو۔ فرماتے ہیں: میں نے تنہا اس جماعت سے مقابلہ کیا اس کے بعد ایک جماعت آگے بڑھی میں نے پھر ان سے مقابلہ کیا۔

اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت علیؓ کی اس بہادری اور مدد کی تعریف کی تو حضور اکرم نے فرمایا: "انه منی وانا منه" یعنی علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

یہ کمال اتحاد کی طرف اشارہ تھا پھر جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: "وانا منکما" اور میں تم دونوں میں سے ہوں۔

3- اللہ تعالی نے درمیانی نماز یعنی نمازِ عصر کی پابندی کا حکم فرمایا گیا ہے۔

حَافِظُوۡا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الۡوُسۡطٰى وَقُوۡمُوۡا لِلّٰهِ قٰنِتِيۡنَ

ترجمہ:

خبردار رہو سب نمازوں سے اور بیچ والی نماز سے اور کھڑے رہو اللہ کے آگے ادب سے۔ (سورۃ البقرۃ :238)

حضرت علیؓ نے ایک موقع پر رسول اﷺللہ کے ادب اور احترام کی خاطر نماز عصر چھوڑدی اور آپ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیا۔ یہ واقعہ غزوہ خیبر کے بعد کا ہے۔ جب حضور اکرمﷺ غزوہ خیبر سے تشریف لائے اور صحابہ کے ساتھ نماز ادا کرلی مگر حضرت علی ؓ پچھلے مجاہدوں کے ساتھ تھے انہوں نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب وہ پہنچے تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا: علی! مجھے آرام کرنا ہے۔ ایک طرف نماز عصر دوسری طرف اللہ کے محبوب کا احترام۔ آپ فورا مؤدب ہوکر بیٹھ گئے۔ حضور اکرمﷺ اپنا سر اقدس حضرت علیؓ کی گود میں رکھ کر آرام فرمانے لگے۔ ادھر سورج غروب ہونے لگا اور حضرت علیؓ کی نماز قضاء ہونے لگی۔ آپؓ پریشان ہونے لگے، غمگین ہونے لگے، چہرہ زرد ہونے لگا، زندگی کی پہلی نماز قضاء ہوئی ہے۔

حضور اکرمﷺ بیدار ہوئے تو حضرت علیؓ کا چہرہ زرد دیکھا اور اس پر پریشانی کے اثر دیکھے تو فرمایا: علی! کیا بات ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا نماز قضاء ہوگئی ہے۔ اللہ کے نبی نے سورج کی طرف انگلی سے اشارہ کیا سورج پلٹ آیا اور حضرت علیؓ نے نماز ادا کی پھر سورج غائب ہوگیا۔ یہ واقعہ صہباء کے مقام پر ہوا تھا۔

4- صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی سیدنا علی المرتضیؓ نے جس والہانہ انداز میں سرور دوعالمﷺ سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔ چناں چہ جب رسول اکرمﷺ اور قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو ؓ کے درمیان معاہدہ ہوا (جسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے) تو اس کی شرائط حضرت علیؓ نے لکھی۔ روایت میں آتا ہے کہ:

لَمَّا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، ‏‏فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ، ‏‏كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، ‏قَالُوا:‏ لَا نُقِرُّ لَكَ بِهَذَا، ‏لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا، ‏وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ‏فَقَالَ:‏ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏ امْحُ رَسُولَ اللَّهِ،‏‏قَالَ عَلِيٌّ:‏‏‏‏ لَا، ‏وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا،‏‏فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ، ‏وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، ‏‏فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَاب

ترجمہ:

نبی کریم ﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ والے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے مانع آئے۔ آخر معاہدہ اس پر ہوا کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن آپ قیام کرسکتے ہیں۔ معاہدہ یوں لکھا جانے لگا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں ‘ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر علی سے فرمایا کہ (رسول اللہ کا لفظ مٹا دو ) انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا۔ نبی کریم ﷺ نے وہ تحریر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے اس کے الفاظ اس طرح کردیئے یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے کیا کہ وہ ہتھیار لے کر مکہ میں نہیں آئیں گے۔ (صحیح بخاری: 4251)

حضرت علیؓ کے فضائل:

احادیث کی کتب میں آپؓ کے کئی فضائل و مناقب بیان کیے جاتے ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا دَارُ الحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا

ترجمہ:

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ (معارف الحدیث: 2062)

عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ،‏قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا عَلِيٌّ

ترجمہ:

حبشی بن جنادہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:علی مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، اور میری طرف سے اس پیغام کو سوائے علی کے کوئی اور پہنچا نہیں سکتا۔ (سنن ابن ماجہ: 119)

عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ، فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا،وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ:

علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسینؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جو مجھ سے محبت کرے، اور ان دونوں سے، اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت کرے، تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا ۔ ( جامع ترمذی: 3733)

وعن جميع بن عمير قال : دخلت مع عمتي على عائشة فسألت : أي الناس كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قالت : فاطمة . فقيل : من الرجال ؟ قالت : زوجها إن كان ما علمت صواما قواما

ترجمہ:

اور حضرت جمیع بن عمیر (تابعی) کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اپنی پھوپی کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا، رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا فاطمہؓ سے میں نے جواب دیا فاطمہؓ سے پھر میں نے پوچھا اور مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا فاطمہؓ کے شوہر (علی المرتضیٰ )سے۔(مشکوٰۃ شریف: 6133)

عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ

ترجمہ:

ابوسریحہ یا زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں۔ (جامع ترمذی: 3713)

امام ترمذی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ: آپ ﷺ کے اس فرمان: «من کنت مولاہ فعلی مولاہ» کا ایک خاص سبب ہے ، کہا جاتا ہے کہ اسامہؓ نے جب علیؓ سے یہ کہا:« لست مولای إنما مولای رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم»  یعنی میرے مولی تم نہیں ہو بلکہ رسول اللہ ﷺ ہیں تو اسی موقع پر آپ  ﷺ  نے  «من کنت مولاہ فعليّ مولاہ»  کہا، امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ یہاں ولی سے مراد «ولاء الإسلام» یعنی اسلامی دوستی اور بھائی چارگی ہے، اس لیے شیعہ حضرات کا اس جملہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ علیؓ نبی اکرم ﷺ کے بعد اصل خلافت کے حقدار تھے ، صحیح نہیں ہے۔

نبی اکرم ﷺ کے بعد عہد خلافت میں:

نبی اکرمﷺ کی زندگی کے بعد بھی آپؓ کا رتبہ ومقام بلند تھا۔ نبی اکرمﷺ کے بعد بھی آپؓ اسلام کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہے اور علم و فتوی کی مدد کے لیے بھی کوشاں رہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ کے عہد میں آپؓ مجلس مجلس شوری کے اہم رکن تھے۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں ہونے والے انقلاب پر قابو پانے کے لیے حضرت علیؓ ملت اسلامیہ کو انتشار سے بچانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور حضرت عثمانؓ کی حمایت بھی کرتے رہے۔ (اسلامی تاریخ)

خلافت:

آپؓ چوتھے خلیفہ تھے۔ آپؓ نے خلافت کا بار اس وقت اٹھایا جب امت کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت امت مسلمہ ایک آزمائش میں مبتلا تھی اور دشمن اور منافقین کے وار کامیاب ہورہے تھے۔ یہ دور اسلامی تاریخ کا انتہائی نازک اور اختلاف و انتشار کا دور تھا۔ آپؓ کے دور خلافت میں اسلامی مملکت میں تو اضافہ نہ ہوسکا لیکن آپؓ نے داخلی فتنوں کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آپؓ کے دور عہد میں تین بڑی جنگیں ہوئیں جن میں سے دو یعنی جنگ جمل اور جنگ صفین دور اسلامی میں مسلمانوں میں آپس کی جنگ تھی۔ جو بلوائیوں اور منافق عبد اللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کی سازش کا نتیجہ تھی۔ دونوں جانب کے مخالفین اپنی اپنی جگہ حق پر تھے البتہ اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی مالی نقصان بھی ہوا مگر جب جنگ ختم ہوئی تو ہر ایک پشیمان تھا۔ اس کے علاوہ جنگ نہروان بھی ہوئی جو خارجیوں کے خلاف تھی۔

حضرت علی کے کارنامے:

صیغہ مال میں آپ نے ملک کی آمدنی میں اضافے کے لے جنگلات کو قابل محصول قرار دیا۔

گھوڑوں پر زکوۃ منسوخ کی۔

عمال سے محاصل خراج کی آمدنی کی سختی سے نگرانی کرتے اور مقررہ وقت کے گزرجانے پر احکامات جاری کرتے۔

بیت المال کے نگران پر نظر رکھی۔

شام کی سرحد پر فوجی چوکیاں قائم کیں۔

ایران میں عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے مستحکم قلعے بنوائے۔

دریائے فرات کا پل تعمیر کروایا۔

شعبہ پولیس کو از سر نو تعمیر کرکے اس کا نام شرطہ رکھا۔ پولیس کا افسر صاحب شرطہ کہلاتا تھا۔ 

آپؓ کی خلافت کی مدت تقریبا 4 سال 9 ماہ تھی۔

آپؓ کے خلاف قتل کی سازش:

اس دور خلافت میں دین اسلام کے تین بڑے ستون تھے۔ ایک حضرت علیؓ دوسرے حضرت معاویہؓ اور تیسرے عمرو ابن العاصؓ تھے سبائیوں نے ان حضرات کے خلاف قتل کی سازش کا منصوبہ بنایا تاکہ دین اسلام کا قلع قمع کردیں۔ باقی دونوں حضرات کئی وجوہات سے بچ گئے مگر حضرت علیؓ کے خلاف قتل کی سازش کامیاب ہوگئی۔

شہادت:

آپؓ معمول کے مطابق الصلاۃ الصلاۃ کہتے فجر کی نماز پڑھانے جارہے تھے مسجد پر پہنچتے ہی آپؓ پر 19 رمضان المبارک کو فجر کی نماز کے وقت کوفہ میں عبد الرحمٰن ابن ملجم نے حملہ کیا۔ جعدہ بن ہبیرہ کو آپ ؓ نے امامت کروانے کا حکم دیا. دوسری طرف قاتل بھی پکڑا گیا۔ آپؓ سے اجازت طلب کی گئی کہ اسے کیا سزا دی جائے؟ آپؓ نے فرمایا اسے قید رکھ کر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے، اگر میں زندہ رہا تو جو بہتر سمجھوں گا اس کے ساتھ وہ سلوک کروں گا اگر میں وفات پا جاؤں تو ایک جان کا بدلہ ایک ہی جان سے لیا جائے وہ بھی مُثلہ (شکل و صورت بگاڑنا) کیے بغیر۔

آپؓ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دو دن تک زخمی حالت میں رہنے کے بعد21 رمضان المبارک 40 ہجری کو شہید ہوگئے۔ وصیت کے مطابق ابن ملجم کو قصاص میں قتل کردیا گیا۔

تجہیز و تکفین:

غسل دینے والوں میں دونوں صاحبزادوں حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کے علاوہ حضرت عبداللہ بن جعفر ؓبھی شامل تھے، حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور منہ اندھیرے تدفین عمل میں آئی۔

مرویات:

حضرت علی بن ابی طالب سے تقریبا کم و بیش پانچ سو احادیث منقول ہیں۔

حضرت علیؓ کے حکیمانہ اقوال:

آپؓ کے بعض وہ حکمت سے لبریز اقوال جو مختلف اوقات میں آپ کی زبان سے جاری ہوئے۔

1- بندوں کو چاہیئے کہ صرف اپنے پروردگار سے امید رکھیں اور اپنے گناہ کے سوا کسی چیز کا خوف نہ رکھیں۔

2- جو شخص کسی بات کو نہیں جانتا اس کو سیکھنے میں شرم نہیں کرنی چاہیئے اور جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کا علم اس کے پاس نہیں ہے تو واللہ اعلم کہہ دے۔

3- ایک دن آپؓ قبرستان میں تشریف فرما تھے، کسی نے پوچھا ابو الحسن یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ فرمایا: میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہمنشین پاتا ہوں جو کسی کی بدگوئی کرنے والے نہیں ہوتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔

4- ہر انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔

5-جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

6- لوگ سورہے ہیں جب مریں گے اس وقت بیدار ہوں گے۔

7- اس شخص کو نہ دیکھو جس کا کلام ہے بلکہ خود کلام کو دیکھو۔

8- علم ادنٰی کو اعلی کردیتا ہے اور جہل اعلی کو ادنی کردیتا ہے۔

9- ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں سچ بولنے سے نقصان کا اندیشہ ہو وہاں بھی سچ بولو۔

10- جب دشمن پر تم کو قابو حاصل ہو تو اس قابو پانے کا شکریہ یہ ہے کہ اس کا قصور معاف کردو۔ 

واللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:

آیات

1- سورۃ آل عمران آیت نمبر 61

2- سورۃ البقرۃ آیت نمبر 238

احادیث

1- صحیح بخاری، کتاب: ادب کا بیان، باب: ابو تراب کنیت رکھنے کا بیان اگرچہ اس کی دوسری کنیت بھی ہو، حدیث نمبر: 6204

2- جامع ترمذی، کتاب: مناقب کا بیان، حدیث نمبر: 3720

3- صحیح مسلم، کتاب: فضائل کا بیان، باب: حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں، حدیث نمبر: 6223

4- صحیح مسلم، كتاب: فضائل کا بیان، باب: حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں، حدیث نمبر: 6218

5- سنن ابن ماجہ، کتاب: جہاد کا بیان، باب: ہتھیار باندھنا، حدیث نمبر: 2808

6- مشکوٰۃ شریف، کتاب: نماز کا بیان، باب: جلدی نماز پڑھنے کا بیان، حدیث نمبر: 571

7- مشکوٰۃ شریف، کتاب: نماز کا بیان، باب: رسول اللہ کی علالت اور حضرت ابوبکر صدیق کی امامت کا واقعہ، حدیث نمبر: 1110

8-صحیح بخاری، کتاب: غزوات کا بیان، باب: عمرہ قضاء کا بیان، حدیث نمبر: 4251

9- معارف الحدیث، كتاب: کتاب المناقب والفضائل، باب: فضائل حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر: 2062

10- سنن ابن ماجہ، كتاب: سنت کی پیروی کا بیان، باب: سیدنا علی مرتضیٰ (رض) کی فضیلت، حدیث نمبر: 119 

11- جامع ترمذی، كتاب: مناقب کا بیان، حدیث نمبر: 3733

12- مشکوٰۃ شریف، کتاب: نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان، باب: علی و فاطمہ (رض) کی فضیلت، حدیث نمبر: 6133

13- جامع ترمذی، کتاب: مناقب کا بیان، باب: مناقب حضرت علی بن ابی طالب (رض) آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے، حدیث نمبر: 3713

کتب:

1• اسد الغابة فی معرفة الصحابة- مؤلف ابن اثیر، مترجم مولانا محمد عبد الشکور فاروقی جلد نمبر ۲

2• الاصابة فی تمیز الصحابة- مؤلف امام ابن حجر عسقلانی، مترجم مولانا محمر عامر شہزاد علوی جلد نمبر ٣

3 • اسلامی تاریخ۔ امتیاز پراچہ

4 • عشرہ مبشرہ۔ بیادگار حضرت مولانا احمد حسن بھام سملکی رح (کاوش طلبہ جامعہ ڈابھیل مقالہ برائے عبد الرحیم کشمیری)

5 • معارف القرآن مع آسان ترجمہ قرآن جلد دوم حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ

6• خلفاء راشدین اور عشق رسول از مصنفہ اہلیہ مولانا ارسلان بن اختر

7• سیرت خلفائے راشدین از حضرت مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی لکھنوی

١٤_اپریل_۲۰۲١

۲_رمضان المبارک_١٤٤۲

6 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی