غزوہ احد

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

تعارف اور پس منظر:

احد مدینہ کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے۔ یہ جنگ اس پہاڑ کے دامن کوہ میں لڑی گئی، اسی لیے اس غزوہ کو غزوہ احد کا نام دیا گیا۔ یہ غزوہ شوال 3 ہجری 625ع میں ہوا البتہ تاریخ میں مختلف اقوال ہیں جن میں 7,8,9,10 شوال سر فہرست ہیں۔

یہ وہ ہی پہاڑ ہے جس کے متعلق نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے۔

غزوہ احد
غزوہ احد
جیسا کہ روایت میں ہے کہ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ

ترجمہ:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (حدیث نمبر: 4083)

یہ پہاڑ مدینے سے تقریبا پونے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے۔ یہ جنوب مشرق سے شمال مشرق کو اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ لمبائی پانچ میل (آٹھ کلو میٹر) اور چوڑائی دو میل (سوا تین کلو میٹر) تک ہے۔

پس منظر:

مشرکین کا ہدف غزوہ بدر کے مقتولین کا انتقام تھا۔ کیوں کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، مشرکین مکہ کو شکست ہوئی۔ قریش کے ستر آدمی مارے گئے (جن میں بڑے بڑے سردار بھی تھے) اور اسی قدر قید بھی ہوئے۔ اس ذلت پر مشرکین مکہ نہایت غصے میں آگئے، انتقام کا جوش جاگ اٹھا اور یہ عہد کیا کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لیں گے سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس جنگ کے لیے تقریبا ایک سال تک تیاری کی گئی اور اپیل کی گئی کہ تجارتی منافع بھی اسی تیاری کے لیے وقف کیا جائے۔ منافع میں پچاس ہزار مثقال سونا اور ایک ہزار اونٹ تھے۔ اس جنگ کے لیے شعلے بھڑکانے میں ابو سفیان اور ہندہ کا اہم کردار تھا۔

پیش قدمی:

مشرکین کا لشکر مدینے کی طرف پیش قدمی کررہا تھا کہ حضرت عباسؓ ، جو آپﷺ کے چچا تھے اور اسلام لاچکے تھے مگر مکہ میں ہی مقیم تھے۔ انہوں نے بنو غفار کے ایک شخص کے ذریعے نبی اکرم ﷺ کو مشرکین مکہ کی اطلاع بھجوادی۔ اس طرح لشکر سے کئی دن قبل مشرکین کی پیش قدمی کی اطلاع مل گئی۔

صحابہ کرامؓ سے مشورہ:

اطلاع ملتے ہی نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ جنگ مدینہ میں محصور رہ کر لڑی جائے یا مدینے سے باہر؟

خود نبی اکرم ﷺ چاہتے تھے کہ جنگ مدینے میں محصور رہ کر لڑی جائے مگر صحابہ کرام ؓ میں اکثریت کی رائے یہ تھی کہ مدینے سے باہر رہ کر جنگ لڑی جائے۔ اس وقت عبد اللہ بن ابی (جو منافقین کا سردارتھا) اس کی رائے بھی وہ ہی تھی، جو نبی اکرمﷺ کی تھی۔ مگر وہ شخص اپنے منافق ہونے کی وجہ سے ایسا کہہ رہا تھا۔ جب کہ صحابہؓ کا جوش اور ولولہ فکری تھا۔ دین اسلام کو بچانے اور اس کی خاطر جانیں قربان کرنے کا جذبہ تھا۔ کئی صحابہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے وہ یہ موقع اب ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔

نبی کریم ﷺ محصور رہ کر اس لیے جنگ کرنا چاہتے تھے کہ ان کو اندازہ تھا کہ اگر کھلے میدان میں جنگ کی جاۓ تو نفری کم رہنے سے مسلمانوں کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔

روایت میں ہے کہ:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو ہلایا اور اس سے اس کی دھار ٹوٹ گئی۔ اس کی تعبیر مسلمانوں کے اس نقصان کی شکل میں ظاہر ہوئی جو غزوہ احد میں انہیں اٹھانا پڑا تھا۔ پھر میں نے دوبارہ اس تلوار کو ہلایا، تو پھر وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ ہوگئی جیسی پہلے تھی۔ اس کی تعبیر اللہ تعالیٰ نے فتح اور مسلمانوں کے پھر از سر نو اجتماع کی صورت میں ظاہر کی۔ میں نے اسی خواب میں ایک گائے دیکھی تھی (جو ذبح ہو رہی تھی) اور اللہ تعالیٰ کے تمام کام خیر و برکت لیے ہوتے ہیں۔ اس کی تعبیر وہ مسلمان تھے (جو) احد کی لڑائی میں (شہید ہوئے) ۔ (صحیح بخاری: 4081)

اکثریت کی رائے پر نبی اکرمﷺ نے تیاری شروع کی اور جنگی لباس زیب تن کرلیا یعنی زرہ پہن کر ہتھیار باندھ لیے۔

مگر جب صحابہ کرامؓ کو پتا چلا کہ نبی اکرمﷺ محصور رہ کر جنگ لڑنا چاہتے ہیں تو انہوں نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا کہ ہم آپ کے حکم کے مطابق جنگ لڑیں گے۔ مگر نبی اکرمﷺ نے فرمایا: "جب نبی ہتھیار پہن لے تو اسے زیب نہیں دیتا کہ لڑے بغیر انہیں اتاردے"۔

نبی اکرمﷺ اپنے پیچھے عبد اللہ ابن مکتومؓ کو اپنا نائب مقرر کرگئے۔ امامت اور انتظام درست رکھنے کے لیے کے لیے ایک صحابی ابن ام کلثومؓ کو مقرر کیا۔

جنگی تیاری اور بچوں کا جذبہ بہادری:

صحابہ کرامؓ کو معلوم تھا کہ دشمن کس قدر طاقت کے ساتھ حملہ کرنے آرہا ہے مگر ایمان، توکل، عزیمت اور شجاعت کا جذبہ لیے ہوئے جنگ کے لیے تیار ہوچکے تھے۔

عبد اللہ بن عمر ؓ، اسامہ بن زیدؓ، زید بن ارقمؓ، براء بن عازب ؓ، زید بن ثابتؓ، ابو سعید خدریؓ یہ تمام صحابہ کرام چودہ سال کے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو جنگ ساتھ چلنے سے روک دیا۔ اسی طرح رافع بن خدیج ؓ اور سمرہ بن جندبؓ یہ دونوں پندرہ سال کے تھے۔ ان کو بھی لے جانے سے انکار کیا۔ مگر رافع بن خدیج، جو بہترین تیرانداز بھی تھے اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تاکہ بڑے نظر آئیں۔ نبی اکرمﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر سمرہ بن جندبؓ نے عرض کیا کہ میں تو رافع کو پچھاڑ سکتا ہوں تو نبی اکرم ﷺ نے دونوں کے درمیان مقابلہ کروایا تو سمرہ بن جندبؓ جیت گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو بھی شرکت کی اجازت دے دی۔

منافق عبد اللہ بن ابی کی واپسی:

عبد اللہ بن ابی کی رائے محصور رہ کر جنگ کرنے کی تھی، مگر دل میں چور پہلے ہی موجود تھا۔ جب فیصلہ کھلے میدان میں جنگ لڑنے کا ہوا تو عبد اللہ بن ابی راستے سے اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپسی کی طرف لوٹ گیا۔ اس نے اس بات کا بہانہ بنایا کہ ہماری رائے کو مقدم نہ رکھا گیا تو ہم کیوں اپنی جان کو گنوائیں۔ اس سے مسلمان مشرکین کے مقابلے میں پہلے ہی کم تعداد میں تھے ان کے حوصلے کچھ کم ہوگئے مگر اللہ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھے۔

منافقین یہاں کھل کر سامنے آگئے ان کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَلِيَعۡلَمَ الَّذِيۡنَ نَافَقُوۡا  ۖۚ وَقِيۡلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا قَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَوِ ادۡفَعُوۡا ‌ۚ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰكُمۡ‌ؕ هُمۡ لِلۡكُفۡرِ يَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡهُمۡ لِلۡاِيۡمَانِ‌ۚ يَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاهِهِمۡ مَّا لَيۡسَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا يَكۡتُمُوۡنَ‌ۚ

ترجمہ:

اور منافقین کو بھی دیکھ لے۔ اور ان (منافقوں) سے کہا گیا تھا کہ "آؤ اللہ کے راستے میں جنگ کرو یا دفاع کرو" تو انہوں نے کہا تھا کہ: "اگر ہم دیکھتے کہ (جنگ کی طرح) جنگ ہوگی تو ہم ضرور آپ کے پیچھے چلتے۔" اس دن (جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے) وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (سورۃآل عمران:167)

سپاہیوں اور اسلحے کی تعداد:

شوال3 ہجری میں لڑی جانے والی اس جنگ میں کفار کی طرف سے تین ہزار (3000 کی تعداد) تھی، اور ان کے پاس سات سو (700) زرہیں، تین سو (300) اونٹ اور 14 عورتیں بھی شامل تھیں۔

جبکہ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار (1000) مسلمان تھے، مگر منافقین کا سردار اپنے ساتھ تین سو (300) آدمیوں کو لے کر واپس لوٹ گیا اور سات سو (700) باقی رہ گئے تھے اور ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔

قریش کے لشکر کے نمایاں افراد:

اس لشکر میں خالد بن ولیدؓ اورعکرمہ بن ابی جہل بھی تھے۔ یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوۓ تھے وہ دونوں اس جنگ میں سو سو گھڑ سواروں کی سربراہی کررہے تھے۔

ابو عامر راہب نامی ایک درویش تھا، جو اسلام سے قبل جعلی روحانیت کا پرچار کرتا تھا۔ اسلام آتے ہی اس کی روحانیت کا پردہ فاش ہوگیا اور وہ طیش میں آگیا۔ بدلے کی غرض سے وہ شخص قریش کے ساتھ تھا۔ مگر اس کے بیٹے حضرت حنظلہؓ اسلام قبول کرچکے تھے اور مسلمانوں کی صف میں دشمنانِ اسلام کے سر قلم کرنے کے لیے جنگ میں شریک تھے۔

جبیر بن مطعم بھی شریک تھا۔ حضرت حمزہؓ نے جنگ بدر میں عتبہ کو قتل کیا تھا جبیر بن مطعم بدلے کی آگ میں جھلس رہا تھا اسی لیے اس نے اپنے غلام وحشی بن حرب کو منتخب کیا تھا، جو نیزہ پھینک کر مارنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے وحشی سے وعدہ کیا کہ اگر حضرت حمزہؓ کو ختم کیا تو بدلے میں وہ اسے آزاد کردے گا۔

جنگی ترتیب اور صف آرائی:

نبی اکرم ﷺ نے صف آرائی کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ احد پہاڑ پشت کی جانب رہے۔ مدینہ بائیں ہاتھ کی جانب تھا اور دشمن سامنے کی جانب۔ دوسرے انتظامات اس طرح کئے کہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو علم یعنی جھنڈا عطا کیا، حضرت زبیر بن عوام ؓ کو ایک دستے کا افسر مقرر کیا، حضرت حمزہ ؓ کو اس فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، احتمال تھا کہ دشمن پشت کی جانب سے حملہ کرے گا اس لیے پچاس تیراندازوں کا دستہ متعین کرکے حضرت عبد اللہ بن جبیر ؓ کو اس دستے کا افسر مقرر کیا اور پشت کی جانب حفاظت پر مامور کیا اور کسی بھی صورت وہاں سے نہ ہٹنے کا حکم دیا۔

ابو دجانہؓ اور نبی اکرم ﷺ کی تلوار:

نبی اکرم ﷺ نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا: "کون ہے جو اس کا حق ادا کرے"؟ حضرت ابو دجانہؓ آگے بڑھے اور پوچھا کہ اس کا حق کیا ہے؟ نبی اکرمﷺ نے عرض کیا: "اسے اتنا چلاؤ کہ خون سے رنگین ہوجائے"۔ حضرت ابو دجانہؓ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ میں اس کا حق پورا کرنے کی ضمانت دیتا ہوں۔ پھر اس تلوار سے حضرت ابو دجانہؓ کا جس سے بھی مقابلہ ہوا اسے واصل جہنم کیے بغیر نہ چھوڑا۔

جنگ کا آغاز اور انفرادی مقابلہ:

جنگ کا آغاز ہوا تو صحابہ کرام نے اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمن کو زمین بوس کیا۔

ان میں سب سے پہلے گھوڑے پر موجود پہلوان شخص طلحہ بن ابی طلحہ آگے بڑھا۔ اس کے مقابلے میں زبیر بن عوامؓ تھے انہوں نے اس جواں مردی سے مقابلہ کیا کہ پیدل ہوتے ہوئے بھی اسے خاک میں ملادیا۔ اس کے بعد مقتول کا بھائی ابو سعد بڑھا اس کے مقابلے میں سعد بن ابی وقاصؓ تھے انہوں نے اسے تلوار کا نشانہ بنا ڈالا۔ پھر مقتول جے دو بھتیجے مسافع اور جُلاس کے مقابلے میں عاصم بن ثابتؓ تھے انہوں نے اپنے تیر سے ان دونوں کو ختم کیا۔

حضرت حمزہؓ کے مقابلے میں جو مشرک آتا وہ ان کی تلوار کا لقمہ اجل بن جاتا۔

حضرت علیؓ نے مشرکین کے علمبردار طلحہ بن عثمان کو زخمی کیا وہ علم سمیت زمین پر گر پڑا۔ یہ سب دیکھ کر قریش کے گھڑسوار اور پیادے میدان چھوڑ کر بھگ نکلے۔

خالد بن ولید کا حملہ:

جب مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگے اور مسلمان مشرکین کے خیموں میں گھس کر مال غنیمت حاصل کرنے لگے تو ان پچاس تیرانداز جن کی سربراہی حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ کو دی گئی تھی، اوپر سے دیکھا تو یہ سمجھا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے تو واپسی کا سوچا مگر عبد اللہ بن جبیرؓ اور کچھ ساتھیوں کو نبی اکرمﷺ کی بات یاد تھی کہ کچھ بھی ہوجائے اس جگہ سے نہ ہٹنا۔ عبد اللہ بن جبیرؓ کے ساتھ صرف چودہ پندرہ ساتھی اس جگہ سے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوئے باقی سب نے یہ سوچا کہ حکم صرف جنگ تک تھا اب جنگ ختم ہوچکی ہے تو حکم بھی مکمل ہوگیا اور اس جگہ سے ہٹ گئے۔

خالد بن ولید جو اس وقت قریش کی جانب سے لڑ رہے تھے انہوں نے اس صورت حال کو دیکھ کر پلٹ کر حملہ کیا۔ وہاں موجود چودہ پندرہ سپاہیوں نے اپنی جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔

اس کے بعد خالد بن ولید نے مسلمانوں پر دھاوا بول دیا۔

جنت میں کون رفیق ہوگا؟

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ سات انصاریوں اور قریش کے دو آدمیوں کے ہمراہ اکیلے رہ گئے جب آپ ﷺ کو گھیر لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو انہیں ہم سے ہٹائے گا اس کے لئے جنت ہے یا وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا تو انصار میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگیا پھر بھی کافروں نے آپ ﷺ کو گھیرے رکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو انہیں ہم سے دور کرے گا اس کے لئے جنت ہوگی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا پس انصار میں سے ایک آدمی آگے بڑھ کر لڑا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگیا یہ سلسلہ برابر اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے (قریشی) ساتھیوں سے فرمایا ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ (صحیح مسلم: 4641)

افواہ:

خالد بن ولید کے اس حملے کے بعد حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہوئے تو وہاں یہ خبر پھیل گئی کہ نبی اکرم ﷺ شہید ہوچکے ہیں کیوں کہ مصعب بن عمیرؓ نبی اکرمﷺ سے مشابہت رکھتے تھے۔ اس افواہ سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی بکھر گئی۔ مسلمان اضطراب اور رنج کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔

اس واقعے کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ  ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا‌ ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ

ترجمہ:

اور محمد ﷺ ایک رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔ بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤے گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔ (سورۃ آل عمران:144)

حضرت حمزہؓ کی شہادت:

اس موقع کا فائدہ اٹھا کر وحشی بن حرب جسے جبیر بن مطعم نے بھیجا تھا اور وہ نیزہ پھینک کر مارنے کی مہارت رکھتا تھا اب حضرت حمزہؓ کی تلاش میں تھا ان کا تعاقب کرتا رہا۔ حضرت حمزہؓ کو لڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور خوف سے لرز رہا تھا۔ حضرت حمزہؓ بہادری سے لڑ رہے تھے، اسی وقت ارطاۃ بن عبد شرحبیل اور سباع بن عبد العزی کو زمین بوس کیا تھا۔ اس خوف کی وجہ سے سامنے سے وار کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ حضرت حمزہؓ ابھی اسی جانب متوجہ تھے تھے کہ اچانک پیچھے کی جانب سے وحشی حملہ کیا اور نیزہ سے اس طرح وار کیا کہ نیزہ آر پار ہوگیا۔

حضرت حمزہؓ نے اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر وہ زمین پر گر پڑے اور جام شہادت نوش کیا۔

ابو سفیان کی بیوی ہندہ:

جنگ احد میں کچھ عورتیں بھی شامل تھیں۔ ابو سفیان (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی بیوی ہندہ جو سردار کی حیثیت سے جنگ میں پیش پیش تھی۔ غزوہ بدر کے موقع پر اس کا باپ عتبہ، چچا شیبہ بن ربیعہ اور بھائی ولید بن عتبہ مکے کے بڑے سردار جو حضرت حمزہ کی تلوار کا لقمہ بنے تھے۔ اسی وجہ ہندہ کے دل و دماغ پر جنون سوار تھا اور اس حملے کے بعد وہ بڑی شان سے یہاں وہاں پھر رہی تھی۔ اس نے جب حضرت حمزہؓ کو دیکھا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اس نے مکروہ ترین کام شروع کیا اور انتہائی سفاکی و بے دردی سے حضرت حمزہؓ کے جسم کے اعضاء نوچ نوچ کر کاٹنے لگی، اس کے بعد بھی اس کا جنون نہ اترا تو اس نے سینہ چاک کرکے کلیجہ نکال کر چبایا۔

نبی اکرم ﷺ کا دفاع:

جنگ کی شیرازہ بندی بکھری تو ارد گرد جو صحابہ موجود تھے، جن میں حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ ، حارث بن الصمہؓ اور چند انصاری اصحاب نے آپ کا دفاع کرتے ہوئے آپ ﷺ کے گرد گھیرا بنالیا تاکہ کفار ان کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں۔ یہ ہی وجہ تھی ہر شخص نبی اکرمﷺ کو دیکھ نہیں پارہا تھا اور یہ بات عام نہیں ہوئی تھی کہ اللہ کے نبی ﷺ سلامت ہیں۔

دفاع میں ام عمارہؓ بھی شامل تھیں جو ہر ہونے والے حملے کو روکتی تھیں۔ ان کے خاوند زید بن عاصم ؓ اور ان کے دو بیٹے حبیب اور عبد اللہ ؓبھی شریک تھے۔

مسلمان ایک بار پھر مستحکم:

ثابت بن دحداحؓ نے اعلان کیا کہ مسلمانوں ہمیں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے. جس مقصد کے لیے اللہ کے نبیﷺ شہید ہوگئے، تم بھی اپنے دین کو بچانے کے لیے میدان جنگ میں کود پڑو۔ اس کے بعد مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی، جس میں یہ گروہ شہید ہوگیا۔

اس کے بعد انس بن نضرؓ آگے بڑھے اور فرمایا کہ جس مقصد کے لیے اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی جان دی ہے اس لیے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور بہادری سے مقابلہ کیا۔

ایک روایت میں ہے کہ:

انس بن نضرؓ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے، پھر انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر نبی کریم ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بےجگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے اللہ ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں سعد بن معاذؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا، سعد ! کہاں جا رہے ہو؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ (صحیح بخاری: 4048)

نبی اکرمﷺ کا زخمی ہونا:

اس صورت حال میں ابن شہاب اور قمیہ نے اللہ کے نبی ﷺ پر حملہ کیا۔ ابن شہاب کی تلوار سے پیشانی پر زخم آیا اور ابن قمیہ کی تلوار خود یعنی ہیلمٹ پر پڑی، اس سے سر مبارک محفوظ رہا مگر خود کی آہنی کڑیاں رخساروں میں کھب گئیں اور دندان مبارک بھی شہید ہوگیا۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ آگے بڑھے کہ کڑیوں کو نکالیں، مگر حضرت امین الامت حضرت ابو عبیدہ نے روکا اور گزارش کی کہ یہ خدمت میں انجام دوں گا۔ حضرت ابو بکرؓ نے گزارش قبول کی حضرت ابو عبیدہ نے اپنے دانت سے کھینچ کر ایک کڑی نکالی، جس سے خود ان کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔ پھر دوسری کڑی نکالنے کے لہے حضرت ابو بکر آگے بڑھے حضرت ابو عبیدہؓ نے پھر گزارش کی اور دوسری کڑی بھی نکالی تو ان کا دوسرا دانت بھی شہید ہوگیا۔

عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جس نے (یعنی عبداللہ بن قمیہ نے لعنتہ اللہ علیہ) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کو خون آلود کیا تھا۔ (صحیح بخاری: 4076)

حضرت علیؓ کا خوف و اضمحلال:

حضرت علیؓ نبی اکرمﷺ کو تلاش کررہے تھے افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ نبی اکرمﷺ شہید ہوچکے ہیں، تب ان کو شہداء میں تلاش کیا۔ ان کو نہ پایا تو حضرت علیؓ نے سوچا کہ شاید ان کو اللہ نے آسمان پر زندہ اٹھا لیا ہے کیوں کہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ نعوذ باللہ اللہ کے نبی میدان جنگ چھوڑ جائیں۔ مگر جب ان کی نظر آنحضرت پر پڑی اور خود (ہیلمٹ) میں سے نظر آتی آنکھوں کی چمک اور روشنی کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ اللہ کے نبی سلامت ہیں۔

اتنے میں ایک گروہ نے حملہ کیا حضرت علیؓ ان سے جواں مردی سے مقابلہ کرکے مار بھگایا۔ پھر دوسرا گروہ بھی جھپٹا تو نبی اکرمﷺ کے حکم سے اس گروہ کو بھی مار بھگایا۔

مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کے بعد اسلامی علم حضرت علیؓ کے سپرد کیا گیا۔

نبی اکرم ﷺ کی شناخت:

کعب بن مالکؓ جن سے نبی اکرمﷺ نے جنگ سے قبل اپنی زرہ تبدیل کی تھی، وہ اپنی زرہ کو پہچانتے تھے. زرہ دیکھ کر پہچان گئے کہ رسول اللہ  ﷺ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں تو سب کو آگاہ کرنے کی کوشش کی۔

اِذۡ تُصۡعِدُوۡنَ وَلَا تَلۡوٗنَ عَلٰٓى اَحَدٍ وَّالرَّسُوۡلُ يَدۡعُوۡكُمۡ فِىۡۤ اُخۡرٰٮكُمۡ فَاَثَابَكُمۡ غَمًّا ۢ بِغَمٍّ لِّـكَيۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏

ترجمہ:

(وہ وقت یاد کرو) جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اور رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے، چناں چہ اللہ نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا، تاکہ آئندہ تم زیادہ صدمہ نہ کیا کرو، نہ اس چیز پر جو تہمارے ہاتھ سے رہ جاتی ہے، اور نہ کسی اور مصیبت پر جو تمہیں پہنچ جائے اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔ (سورۃ آل عمران:153)

نبی اکرمﷺ اور ابی بن خلف:

آنحضرت ﷺ اب محفوظ جگہ پر تھے۔ دشمن کے نرغے میں سے نکل آئے تھے۔ ابی بن خلف نبی اکرمﷺ کو تلاش کررہا تھا اور ان پر وار کرنا چاپتا تھا، مگر اس سے پہلے کہ وہ وار کرتا اللہ کے نبی ﷺ نے نیزہ لیا اور اس کی گردن پر دے مارا وہ تڑپتا ہوا واصل جہنم ہوا۔

ایک روایت میں ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم پر انتہائی سخت ہوا جس نے اس کے نبی کے ساتھ یہ کیا۔ آپ ﷺ کا اشارہ آگے کے دندان مبارک (کے ٹوٹ جانے) کی طرف تھا۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس شخص (ابی بن خلف) پر انتہائی سخت ہوا۔ جسے اس کے نبی نے اللہ کے راستے میں قتل کیا۔(صحیح بخاری:4073)

نبی اکرمﷺ اور صحابہ کی جان نثاری:

صحابہ کرام مل کر نبی اکرم ﷺ کو احد پہاڑ کی بلندی پر لے آئے تھے۔ صحابہ کرام اب بلندی پر سے دشمن پر وار کررہے تھے ابو طلحہ ڈھال بن کر دشمن پر تیر چلاتے، جو بہترین تیرانداز تھے۔

روایت میں ملتا ہے کہ:

غزوہ احد میں جب مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس سے منتشر ہو کر پسپا ہوگئے تو طلحہؓ نبی کریم ﷺ کی اپنے چمڑے کی ڈھال سے حفاظت کر رہے تھے۔ ابوطلحہؓ بڑے تیرانداز تھے اور کمان خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے۔ اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑ دی تھیں۔ مسلمانوں میں سے کوئی اگر تیر کا ترکش لیے گزرتا تو نبی کریم ﷺ ان سے فرماتے یہ تیر ابوطلحہ کے لیے یہیں رکھتے جاؤ۔ انسؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ مشرکین کو دیکھنے کے لیے سر اٹھا کر جھانکتے تو ابوطلحہؓ عرض کرتے : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، سر مبارک اوپر نہ اٹھایئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ادھر سے کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میری گردن آپ سے پہلے ہے۔ (صحیح بخاری:4064)

سعد بن ابی وقاص بھی بہترین تیراندازی کررہے تھے ان کے بارے میں نبی اکرم نے فرمایا میرے باپ تجھ پر فدا ہوں۔

فرماتے ہیں:

غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ترکش کے تیر مجھے نکال کردیئے اور فرمایا کہ خوب تیر برسائے جا۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ (صحیح بخاری:4055)

مشرکین کا ریلا تھما تو صحابہ کرام نبی اکرمﷺ کے ساتھ احد پہاڑ کی بلندی پر چڑھنے لگے۔ جن میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو دجانہؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حارث بن الصمہؓ پیش پیش تھے۔

مشرکین تعاقب میں آنے لگے تو حضرت عمر اور چند صحابہ نے مل کر ان کا کام تمام کیا۔

اب پہاڑ پر ایک چٹان آئی، جس پر چڑھنے میں رسول اکرم ﷺ کو دشواری پیش آئی۔ حضرت طلحہؓ فورا جھک گئے۔ نبی اکرمﷺ حضرت طلحہؓ کی پشت پر سہارا لے کر چڑھائی پر چڑھ گئے اور فرمایا: طلحہ نے اپنے لیے جنت واجب کرلی۔

زخمیوں کی دیکھ بھال:

زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے خواتین موجود تھیں، جن میں ابو طلحہؓ کی بیوی حضرت ام سُلیمؓ، حضرت عائشہؓ حضرت فاطمہؓ موجود تھیں۔ اس کے علاوہ حضرت انسؓ بھی تھے، جو اس وقت صرف تیرہ سال کے تھے۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ:

نبی کریم ﷺ کے (غزوہ احد کے موقع پر ہونے والے) زخموں کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زخموں کو کس نے دھویا تھا اور کون ان پر پانی ڈال رہا تھا اور جس دوا سے آپ کا علاج کیا گیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فاطمہؓ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی خون کو دھو رہی تھیں۔ علیؓ ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون اور زیادہ نکلا آ رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا اور پھر اسے زخم پر چپکا دیا جس سے خون کا آنا بند ہوگیا۔ اسی دن نبی کریم ﷺ کے آگے کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا تھا اور خود (ہیلمٹ) سر مبارک پر ٹوٹ گئی تھی۔(صحیح بخاری:4075)

اللہ تعالی کا انعام ، اونگھ کی کیفیت کا طاری ہونا:

اس وقت صحابہ کرام پر بار بار اونگھ کی کیفیت طاری ہورہی تھی جو اس وقت کی صورت حال میں ٹھیک نہیں تھی مگر اس اونگھ کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں ایک بار پھر نئی قوت عطا کی۔ اس متعلق سورۃ آل عمران میں ہے کہ:

ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغۡشٰى طَآئِفَةً مِّنۡكُمۡ

ترجمہ:

پھر اس غم کے بعد اللہ نے تم طمانینت نازل کی، ایک اونگھ جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھارہی تھی۔ (سورۃ آل عمران:154)

جنگ میں عائشہ بنت ابی بکرؓ اور (انس ؓ کی والدہ) ام سلیمؓ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں کہ ان کی پنڈلیاں نظر آرہی تھیں اور مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لیے دوڑ رہی ہیں اور اس کا پانی زخمی مسلمانوں کو پلا رہی ہیں پھر (جب اس کا پانی ختم ہوجاتا ہے) تو واپس آتی ہیں اور مشک بھر کر پھر لے جاتی ہیں اور مسلمانوں کو پلاتی ہیں۔ اس دن ابوطلحہ ؓ کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گرگئی تھی۔ (صحیح بخاری: 4064)

حضرت علیؓ کا مشرکین کا تعاقب کرنا:

حضرت علیؓ ایک دستہ لے کے مشرکین کے پیچھے تعاقب کے لیے گئے کہ مشرکین مدینہ کی طرف جارہے ہیں یا مکے کی طرف۔ خدشہ تھا کہ وہ مدینے پر حملہ نہ کردیں۔جب یقین ہوگیا کہ وہ مکے کی طرف جارہے ہیں تو مکمل اطمینان کے بعد آپ واپس پلٹ آئے۔

احد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کو جو کچھ تکلیف پہنچنی تھی جب وہ پہنچی اور مشرکین واپس جانے لگے تو نبی کریم ﷺ کو اس کا خطرہ ہوا کہ کہیں وہ پھر لوٹ کر حملہ نہ کریں۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائیں گے۔ اسی وقت ستر صحابہ رضی اللہ عنہم تیار ہوگئے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوبکرؓ اور زبیرؓ بھی انہیں میں سے تھے۔(صحیح بخاری: 4077)

نبی اکرم ﷺ کا اپنی قوم کے لیے دعائے مغفرت:

قریش بد بخت بے رحمی سے آپﷺ پر تیر اور تلواریں برسا ریے تھے مگر آپ ﷺ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے۔

رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون

اے میرے پروردگار میری قوم کی بخشش فرمانا وہ جانتے نہیں۔

چہرہ انور سے خون جاری تھا، آپ ﷺ کسی کپڑے سے پونچھتے جاتے تھے اور فرمایا کہ اگر اس خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرجاتا تو سب پر عذاب خداوندی نازل ہوجاتا۔

حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی کا قصہ بیان فرما رہے تھے کہ انہیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرہ سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور فرماتے تھے اے میرے پروردگار میری قوم کی بخشش فرمانا وہ جانتے نہیں۔ (صحیح مسلم: 4646)

شہدائے احد:

ہر طرف شہداء کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ اب رسول اللہ ﷺ شہداء کی تجہیز و تکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔

رسول اللہ ﷺ نے احد کے شہداء کو ایک ہی کپڑے میں دو دو کو کفن دیا اور آپ ﷺ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کا عالم سب سے زیادہ کون ہے ؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ کو بتایا جاتا تو لحد میں آپ ﷺ انہی کو آگے فرماتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں ان سب پر گواہ رہوں گا۔ پھر آپ نے تمام شہداء کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرما دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔ (صحیح بخاری: 4079)

انس بن نضرؓ، اسی کے لگ بھگ زخم:

غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہوگئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں سعد بن معاذؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا، سعد ! کہاں جا رہے ہو؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا ان کی انگلیوں کے پور سے ان کی لاش کو پہچانا۔ انکو اسّی (80) سے زیادہ زخم تھے جو تلوار اور تیروں کے لگے تھے۔ (صحیح بخاری: 4048)

حضرت اصیرمؓ:

حضرت اصیرمؓ اسی دن ایمان لائے تھے اور جنگ میں شریک ہوکر شہید ہوگئے تھے۔ یعنی جنگ میں شرکت کے علاوہ انہوں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔ مگر پختہ ایمان کی بدولت اور جنگ میں شہادت سے انہوں نے جنت کو پالیا۔

عمرو بن الجموحؓ:

عمرو بن الجموحؓ ایک پاؤں سے معذور تھے۔ معذوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ان کے چاروں بیٹے میں جنگ میں شرکت سے روکا مگر ان کا جذبہ دیکھ ایسا تھا کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے اجازت طلب کرلی تھی۔

حضرت حنظلہؓ غسیل الملائکہ:

حضرت حنظلہؓ بھی شہداء میں شامل تھے۔ جو ابو عامر راہب نامی شخص کے بیٹے تھے اور حضرت حنظلہؓ کا نکاح گزشتہ رات عبد اللہ بن ابی منافق کی بیٹی جمیلہ سے ہوا تھا۔ آپؓ مسلمانوں کی شکست کی خبر سنی تو فورا دوڑتے ہوئے آئے۔ مسلمانوں کے لیے لڑے اور شہادت پائی۔ اس وقت ان کے جسم سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ بغیر غسل کیے جنگ میں شریک ہوگئے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "فرشتوں نے انہیں غسل دیا ہے"۔

مصعب بن عمیر کا ادھورا کفن:

روایت میں ہے کہ:

عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے پاس کھانا لایا گیا۔ اور وہ روزے سے تھے تو انہوں نے کہا، مصعب بن عمیرؓ(احد کی جنگ میں) شہید کردیئے گئے، وہ مجھ سے افضل اور بہتر تھے لیکن انہیں جس چادر کا کفن دیا گیا (وہ اتنی چھوٹی تھی کہ) اگر اس سے ان کا سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ (صحیح بخاری: 4045)

سعد بن ربیع انصاریؓ:

کئی صحابہ ایسے تھے، جن کی کوئی خبر نہیں تھی اور نبی اکرم ﷺکو خاص طور پر ان کی فکر ہورہی تھی۔ ایک صحابی سعد بن ربیع انصاریؓ کے بارے میں خصوصی طور پر دریافت کیا۔ انہیں تلاش کیا تو وہ آخری سانسیں لے رہے تھے اور نبی اکرم ﷺ کی سلامتی کی دعا کررہے تھے۔

حضرت حمزہؓ کی لاش اور نبی اکرم ﷺ کا صدمہ:

مشرکین نے کئی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی تھی۔ حضرت حمزہؓ جو آپ ﷺ کے چچا بھی تھے، رضاعی بھائی اور قریبی دوست بھی تھے۔ لاش دیکھ کر حضور اکرمﷺ کو صدمہ ہوا یہ دکھ اور صدمہ اتنا شدید تھا کہ فرمایا: اس جیسا دکھ پھر کبھی نہ پہنچے گا"۔

اس حادثے کی خبر سن کر حضرت صفیہؓ کفن کے لیے دو چادریں لے کر آئیں مگر وہاں آنے سے ان کو نبی اکرم نے روکا۔ انہوں نے التجا کی کہ کفن کی چادریں رکھ لیں۔ مگر ایک انصاری صحابی کی لاش کا برا حال دیکھا تو ایک چادر میں ان کو کفنایا گیا جبکہ ایک چادر میں حضرت حمزہؓ کو کفنایا گیا۔

شہداء کی تعداد:

اس غزوے میں مسلمانوں کی طرف سے شہید ہونے والوں کی تعداد ستر 70 تھی جن میں انصاری صحابی تھے اور مہاجر۔

جبکہ کفار کی طرف سے صرف ۲۲ یا ۲٣ آدمی مارے گئے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا تھا مگر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حوصلہ و ہمت دلا کر یہ آیت نازل فرمائی۔

اَوَلَمَّاۤ اَصَابَتۡكُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَيۡهَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰى هٰذَا‌ؕ قُلۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِكُمۡ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ وماۤ اَصَابَكُمۡ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِ فَبِاِذۡنِ اللّٰهِ وَلِيَعۡلَمَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ‏

ترجمہ:

جب تمہیں ایک ایسی مصیبت پہنچی جس سے دگنی تم دشمن کو پہنچاچکے تھے، تو کیا تم ایسے موقع پر یہ کہتے ہو کہ "یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟" کہہ دو کہ "یہ خود تمہاری طرف سے آئی ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تمہیں جو مصیبت اس دن پہنچی جب دونوں لشکر ٹکرائے تھے، وہ اللہ کے حکم سے پہنچی، تاکہ وی مؤمنوں کو بھی پرکھ کر دیکھ لے۔ (سورۃ آل عمران: 166,165)

انصار کے ایک قبیلے کی عزت:

عرب کے تمام قبائل میں کوئی قبیلہ انصار کے مقابلے میں اس عزت کو حاصل نہیں کرسکا کہ اس کے سب سے زیادہ آدمی شہید ہوئے اور وہ قبیلہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عزت کے ساتھ اٹھے گا۔ انس بن مالکؓ نے ہم سے بیان کیا کہ غزوہ احد میں قبیلہ انصار کے ستر آدمی شہید ہوئے اور بئرمعونہ کے حادثہ میں اس کے ستر آدمی شہید ہوئے اور یمامہ کی لڑائی میں اس کے ستر آدمی شہید ہوئے۔ (راوی نے بیان کیا کہ بئرمعونہ کا واقعہ رسول اللہ  ﷺ  کے وقت میں پیش آیا تھا اور یمامہ کی جنگ ابوبکر ؓ کے عہد خلافت میں ہوئی تھی جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی)۔ (صحیح بخاری: 4078)

اللہ تعالی کا مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دینا:

مسلمان افسردہ تھے، ٹوٹ چکے تھے مگر اللہ تعالی نے مسلانوں کو ان الفاظ کے ذریعے ان کو ہمت دلائی تاکہ ان کے حوصلے بلند ہوجائیں۔

وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ اِنۡ يَّمۡسَسۡكُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُهٗ ‌ؕ وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ وَلِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَيَتَّخِذَ مِنۡكُمۡ شُهَدَآءَ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَۙ

ترجمہ:

(مسلمانو!) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مؤمن رہو تو تم ہی سر بلند ہو گے۔ اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔ یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوان کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قراردے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ آل عمران: 139، 140)

اس طرح اس جنگ کا اختتام ہوا۔

واللہ اعلم بالصواب

حوالہ جاتی کتب:

1- اسلامی تاریخ- امتیاز پراچہ

2- تاریخ امت مسلمہ (حصہ اول) - مولانا محمد اسماعیل ریحان مدظلہ

3- سیرت خاتم الانبیاء-مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ

4- تاریخ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ جلد 4-

5-تاریخ اسلام (عہد رسالت تا خلافت راشدہ)- شاہ معین الدین احمد ندوی

6-تاریخ اسلام (جلد اول)- اکبر شاہ نجیب آبادی

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی