رب سے جڑنے کا سفر (پہلا حصہ: ضمیر سے گفتگو)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

ضمیر سے گفتگو: (پہلا حصہ)

رب سے جڑنے کا سفر(پہلا حصہ:ضمیر سے گفتگو)

ہادیہ ایک مصروف زندگی گزار رہی تھی، خوش یا ناخوش؟ زندگی بس چلتی جارہی تھی۔ وہ چند چند عرصہ پہلے ادبی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی، وہ خوش تھی یا ناخوش؟ بس چلتی جارہی تھی۔ اپنے آپ کو پرسکون اور خوش رکھنے کی کوشش میں وہ خود کو مصروف رکھنے لگی تھی۔

●●●●●●●●●●●●

شش ماہی امتحان قریب تھے، اب وہ اپنی ادبی دنیا سے باہر نکل کر امتحانی دنیا میں قدم رکھ کر امتحان کے لیے تگ و دو کررہی تھی۔ باقی تمام امتحان کی وہ کم تیاری کرکے بھی مطمئن تھی اور صرف ایک مضمون کی مکمل تیاری کرکے بھی وہ غیر مطمئن تھی۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔

●●●●●●●●●●●

امتحان شروع ہوچکے تھے، دو امتحان وہ خوش طبعی کے ساتھ گزار چکی تھی لیکن اب باری تھی اس غیر مطمئن امتحان کی۔ اس کا دل دہل رہا تھا کہ کچھ برا ہونے والا ہے، کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ اس کا دل اندر سے دستک دے رہا تھا۔۔۔

اب وہ وقت آگیا تھا کہ اس کا امتحان لیا جارہا تھا۔ وہ تمام سوالات کے جوابات فرفر دیتی جارہی تھی، آخر کو اس امتحان کی تیاری میں سمسٹر کے اول روز سے تگ و دو کررہی تھی، ایسا ہونا بھی چاہیئے تھا لیکن جب مضمون سے ہٹ کر دوسرے مضمون سے سوالات کیے گئے تو اس نے اسی طرح سے فر سے جواب دینا چاہا اور تکا لگایا کیوں کہ وہ بھی سرسری سا پڑھا تو تھا نا۔ لیکن آہ! تکا نشانے پر نہ لگا۔ گھوم پھر کر جواب تک پہنچ ہی گئی اور جواب دے دیا۔ مزید سوالات آتے گئے اس کو تکوں کی بنیاد پر جواب دینے پڑے لیکن نشانہ نہیں لگا بالآخر اسے کہنا پڑا کہ یہ نہیں پڑھا۔

اتنی محنت کے بعد بھی وہ غیر مطمئن امتحان، دل کی دستک کی وجہ بن گیا تھا اب نہ تو وہ اگلے امتحان کی تیاری کر پا رہی تھی نہ ہی کچھ دل کو بھا رہا تھا۔

اچانک ہی اس کا ضمیر اس سے مخاطب ہوا۔

ضمیر: کتنی پرواہ ہے نا امتحان کے نتیجے کی؟

ہادیہ: ہاں تو ہونی چاہیئے اتنی تیاری کی تھی۔ نتیجہ تو اچھا آنا چاہیئے ناں؟ تمام سوالات کے جوابات دیے۔ موضوع سے ہٹ کر سوالات کیوں کیے گئے؟ اگر ہٹ کر سوالات کرنے تھے تو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟

ضمیر: دنیا کا امتحان ہی تو ہے۔ چھوڑو تم آخرت کے امتحان کی تیاری کرو۔

ہادیہ: لیکن یہ امتحان بھی تو ہے اس کی محنت بھی تو کی ہے نتیجہ بھی اچھا آنا چاہیئے۔ پتہ نہیں سر کیسے مارکس دیں گے؟

ضمیر: جنت میں جانے کے لیے سلیبس بھی دیا گیا ہے اور اس آخرت کے امتحان میں کیے جانے والے سوالات بھی دے دیے گئے ہیں۔ اس کی تیاری کا کبھی سوچا؟

ہادیہ: ہاں وہ تھوڑی تھوڑی تیاری تو چلتی رہتی ہے کوشش رہتی ہے، اللہ راضی رہے۔

ضمیر: یہ تم اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے کہہ رہی ہو۔ اللہ کو راضی رکھنے اور منانے کی کوشش کب کرتی ہو؟ تمہیں تو اپنی پڑی ہے بس! کہ میں اعلی تعلیم حاصل کرلوں، میں کچھ بن جاؤں، میں ڈگری حاصل کرلوں، میں آگے بڑھ جاؤں۔

ہادیہ: نہیں! ایسا تو نہیں ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی تعلیم کو عام کرنا صدقہ جاریہ ہی تو ہے۔

ضمیر: اوہ اچھا! اچھے بہانے ہیں بھئی، لیکن تم اللہ کو بھول چکی ہو۔ کب تم اللہ کی عبادت کرتی ہو؟ کیا صرف دو چار سجدے کرلینے سے اللہ کاحق ادا ہوجائے گا؟ کیا اس سے اللہ راضی ہوجائے گا؟ اللہ تو کہتا ہے کہ:

"وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنۡسٰٮهُمۡ اَنۡفُسَهُمۡ "

ترجمہ:

اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ (سورۃ الحشر: 19)

ہادیہ: نن نہیں تو میں نے ایسا کب کہا؟

وہ سوچ رہی تھی کہ میں واقعی اللہ کو بھول چکی ہوں۔

ضمیر: تو پھر اتنے دن سے اللہ کو جو بھلائے بیٹھی ہو اس کا کیا؟

وہ خود سے مخاطب ہوئی۔ ہاں! واقعی میں اللہ کو بھلا چکی ہوں۔ تمام اذکار جو پہلے پڑھتی تھی، سب چھوڑ دیے میں نے، رمضان کے بعد کتنی بار قرآن کی تلاوت کی؟ سب کہاں چلا گیا؟ بس! نماز وہ بھی افضل وقت نکال کر آخری وقت میں۔۔۔

وہ پہلے ہی دل کی دستک کی وجہ سے بہت گھبرائی ہوئی تھی، اب ضمیر مزید ملامت کرنے لگا تھا۔۔۔

وہ اپنے ضمیر سے پِسی جارہی تھی، وہ واقعی اپنے آپ پر بہت شرمندہ تھی، وہ واقعی اپنے رب سے بہت دور ہوچکی تھی، وہ بھلا چکی تھی اپنے رب کو۔

یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی اپنے رب کو بھول جائے، وہ رب جب کوئی کسی مشکل میں کام نہ آئے وہ رب کام آئے، جب کوئی بھی بات نہ سنے وہ رب سنے اور وہ ہر مشکل کا حل نکالے ہر مشکل سے نجات دے، وہ یہ سب بھلا کر کیسے منحرف ہوسکتی تھی؟

ضمیر پھر مخاطب ہوا:

ضمیر: تمہیں وہ سب کچھ مل تو رہا ہے، جو تمہیں چاہیئے تھا۔ عزت، شہرت، کامیابی سب کچھ، تو اللہ کو کیوں یاد کرو گی اب؟

ضمیر اسے جھنجھوڑ چکا تھا، وہ ضمیر کے ہاتھوں کچلی جاچکی تھی۔ وہ خود سے مطمئن نہیں تھی کیوں کہ وہ خود سے مخلص بھی تو نہیں تھی۔

اسے ایک ایک کرکے اپنے تمام گناہ یاد آتے گئے، جو کھل کر کیے، جو چھپ کر کیے، جو صغیرہ تھے، جو کبیرہ تھے۔ وہ تمام گویا نظر کے سامنے سے گزرتے گئے۔

ضمیر پھر مخاطب ہوا:

ضمیر: تم نے فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا۔

وہ جانتی تھی اپنے تمام گناہوں کو۔۔۔ فورا ہی حامی بھرلی۔

ضمیر: یہ گناہ بھی تو کیے تھے فلاں دن۔

ایک ایک کرکے ضمیر گنواتا گیا، وہ حامی بھرتی گئی۔ وہ اپنے آپ سے ہی شرمندہ ہوکر شرم سے پانی پانی ہوتی گئی۔

اسے یاد آیا اللہ قرآن میں فرماتا:

وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ

ترجمہ: 

اور مت قتل کرو اپنے نفس (جان) کو۔ (الأنعام: 151)

وہ خود سے مخاطب ہوئی: میں اپنے نفس کے تابع ہوچکی ہوں تبھی مجھے کسی بات کا فرق نہیں پڑتا، تبھی میں خدا کو بھلا چکی ہوں۔

وہ ضمیر کے ہاتھوں شرمسار ہوکر اب نماز پڑھنے لگی خشوع و خضوع والی نماز۔ نماز کے بعد اسے اپنے رب سے بہت ساری باتیں کرنی تھیں۔ اپنی سنانی تھی۔ نماز کے بعد وہ اپنے اللہ سے مخاطب ہوئی۔

●●●●●●●●●●●

جاری ہے۔

دوسرا حصہ

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی