حج کی فرضیت اور فضیلت و اہمیت

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
حج کی تعریف:

حج کے لغوی معنی قصد، ارادے یا زیارت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے ایام حج میں بیت اللہ کو جانے اور مناسک حج (ارکان حج) ادا کرنے کا نام حج ہے۔

حج اسلام کا بنیادی رکن:

حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اس کی حیثیت حدیث میں بقیہ ارکان کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔

بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، ‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، ‏وَصَوْمِ رَمَضَانَ

ترجمہ:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (صحیح بخاری: 8)

حج کی فرضیت:

حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن اور چوتھا فریضہ ہے۔ حج زندگی میں ایک بار ہر آزاد عاقل، بالغ، اور صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔

حضرت مفتی شفیع عثمانی رح اپنی تفسیر معارف القرآن میں صاحب استطاعت کی تشریح اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:

"اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر بیت اللہ کا حج کرنا لازم واجب قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت و استطاعت رکھتے ہوں، اس مقدرت و استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے فاضل اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کرسکے، اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے، نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکان حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی"۔

حج ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال فرض ہوا۔ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اکرم ﷺ نے عمرہ ادا کیا اور فتح مکہ (آٹھ ہجری) کے بعد مسلمان حج کے لیے آزاد تھے۔ دس ہجری میں نبی اکرم ﷺ نے حج کیا۔ یہ حج حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ اور خطبہ حجۃ الوداع بھی ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ اسی خطبے میں ارشاد فرمایا حج کے ارکان مجھ سے سیکھو۔

حج کی فرضیت قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا ‌ؕ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ

ترجمہ:

اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بےنیاز ہے۔ (سورۃ آل عمران: 97)

حدیث رسولﷺ ہے کہ:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْکُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسَکَتَ حَتَّی قَالَهَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا ہے پس تم حج کرو تو ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے آپ ﷺ نے تین مرتبہ عرض کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں کہتا ہاں تو ہر سال حج واجب ہوجاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ (صحیح مسلم: 3257)

جامعیت:

حج "جامع العبادات" ہے۔

نماز بدنی عبادت ہے اور زکوۃ مالی عبادت، جہاد جانی عبادت ہے۔ مگر حج جامع عبادت ہے۔ یعنی حج بیک وقت بدنی مالی اور جانی عبادت ہے۔

حج میں قدم قدم پر اذکار اور دعائیں نماز کی طرح ہے۔

حج کے لیے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔

نفسانی خواہشات اور دیگر برائیوں سے پرہیز روزے کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ گھر سے دوری اور سفر کی مشقت جہاد کا رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَلَهُ نِسَاؤُهُ عَنِ الْجِهَادِ، ‏‏فَقَالَ: نِعْمَ الْجِهَادُ الْحَجُّ
ترجمہ:
نبی کریم ﷺ سے آپ کی ازواج مطہرات نے جہاد کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج بہت ہی عمدہ جہاد ہے۔(صحیح بخاری: 2876 )
حج/رکن/دین/ارکانِ اسلام

فضائل حج:

حج رضائے الہی کی خاطر جان و مال، آرام اور اقارب کی قربانی کا عملی نمونہ ہے۔ جس میں نسل، قوم، مرتبہ اور دولت کی بنیادوں پر صف بندی اور مناسک کی ادائیکی نہیں ہوتی۔ بلکہ مساوات، برابری، عاجزی و انکساری، عقیدت اور عشق الہی کا عام مظاہرہ ہوتا ہے۔ 

افضل عمل کون سا ہے؟

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ حَجٌّ مَبْرُورٌ وَفِي رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ

ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اعمال میں سب سے افضل عمل کونسا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا پھر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا عرض کیا گیا پھر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حج مبرور (نیکیوں والا حج)۔ (صحیح مسلم: 248)

حج مبرور کا بدلہ جنت:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَائٌ إِلَّا الْجَنَّةُ
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور یعنی نیکیوں والے حج کا بدلہ تو صرف جنت ہے۔ (صحیح مسلم: 3289)
حج سے واپسی پچھلے گناہوں کا کفارہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَتَی هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی بیت اللہ آئے اور پھر نہ تو وہ بےہودہ گفتگو کرے اور نہ ہی وہ گناہ کے کام کرے تو وہ بیت اللہ سے واپس اس حال میں لوٹے گا جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہے۔ (صحیح مسلم: 3291)

سارے گناہ معاف:

راوی فرماتے ہیں کہ ہم عمرو بن العاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیرلیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ ﷺ کو یہ بشارت نہیں سنائی ؟ حضرت عمرو بن العاص (رض) ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ ﷺ پر قابو پا کر آپ ﷺ کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ؟ اور رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ ﷺ کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ ﷺ کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ ﷺ کی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں آپ ﷺ کو بوجہ عظمت و جلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کردو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ (صحیح مسلم: 321)

اس حدیث میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ حج سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

حاجی کی دعا:
‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، ‏دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، ‏وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا۔ (سنن ابن ماجہ: 2893)
عورتوں کا جہاد:
‏‏عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏قَالَتْ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجِهَادِ، ‏فَقَالَ: جِهَادُكُنَّ الْحَجُّ
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے۔ (صحیح بخاری: 2875 )

عورتوں کو جہاد میں شرکت کرکے جنگ کی اجازت نہیں۔ مگر اس کے بدلے میں حج ان کے لیے جہاد سے کم نہیں ہے۔

حضرت عمر فرمایا کرتے: "حج کا سامان تیار رکھو کہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔"

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر وعید:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا
ترجمہ:
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر. (جامع ترمذی: 812 )

حضرت عمر کا مشہور قول ہے کہ جو لوگ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں۔ (جزیہ غیر مسلموں پر ٹیکس لگانے کا نام ہے۔ استطاعت کے باجود حج کے لیے کوشش نہ کرنا غیر مسلموں کے طرز عمل جیسا ہے۔)

خلاصہ یہ ہے کہ حج دین اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے۔ صاحب استطاعت ہونے پر حج فرض ہے۔ بیت اللہ کا حج کرنا دنیاوی نام و نمود کے لیے نہ ہو بلکہ خالصتا اللہ کی رضا کے لیے ہو تو اس میں بے شمار فضائل ہیں، جن کا ذکر احادیث کے ذریعے بیان ہوا۔ یہاں تک کہ اس کے تمام وہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں جو حقوق اللہ ہوں البتہ حقوق العباد کی تلافی کرنا ہوگی۔ سفرِ حج سے قریب الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ تقوی و ایثار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ مناسک حج ادا کرتے ہوئے اس کی کیفیت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اس کی روح پرسکون اور پر مسرت ہوتی ہے۔ قوت ایمانی میں اضافی ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کے درمیان رنگ، نسل اور قوم کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے۔ ہر ایک لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ عربی و عجمی، امیر و غریب کا فرق کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

اقبال نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز (علامہ اقبال)

اگر کوئی استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو اس کے لیے وعید سنائی گئی ہے۔ حج کا انکار کرنے والا دین اسلام کا منکر ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حج مبرور کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

حوالہ جاتی کتب:

1- طریقۂ حج اور دعائیں_ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رح

2- مناسکِ حج (کتاب و سنت اور تاریخ کی روشنی میں) تالیف شیخ محمد صغیر دہلوی حفظہ اللہ

3- فضائل حج_ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رح

4- اسلام اور ہماری زندگی _ پروفیسر سید محمد سعید

5- اسلامیات لازمی _ پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن

٦_ جولائی_ ۲۰۲١

۲٥_ذو القعدہ _١٤٤۲

4 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی