رشوت اور اس کےنقصانات

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رشوت کے لیے ایک خاص لفظ "السحت" کا استعمال کرکے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ السحت کے لفظی معنی کسی چیز کو اس کی جڑ سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ رشوت کو سحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف رشوت لینے اور دینے والوں کو برباد نہیں کرتی بلکہ پورے ملک وملت کی بنیاد اور وہاں کے امن وامان کو تباہ کردیتی ہے۔ جس ملک یا جس محکمے میں رشوت کا بازار گرم ہوجائے تو وہاں کا قانون معطل ہوکر رہ جاتا ہے اور اگر قانون معطل ہوجائے تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ،نہ آبرو اور نہ ہی مال۔
رشوت اور اس کے نقصانات
رشوت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جس چیز کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو اس کا معاوضہ لیا جائے۔ مثلاً: جو کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہے اور اس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم ہے، اس پر کسی شخص سے معاوضہ لینا۔ جیسے: حکومت کے افسر اور کلرک جو سرکاری ملازمت کی رو سے اپنے فرائض ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ صاحبِ معاملہ سے کچھ لیں تو یہ رشوت ہے۔ (معارف القرآن، جلد سوم)
جس سفارش پر کوئی معاوضہ لیا جائے وہ رشوت ہے، اس میں ہر طرح کی رشوت داخل ہے، خواہ وہ مالی ہو یا یہ کہ اس کا کام کرنے کے عوض اپنا کوئی کام اس سے لیا جائے۔ (معارف القرآن جلد دوم)
اسی طرح کوئی کسی سےمعاوضہ لے کر اس کے مطابق اس کا کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے حق پر ہونے والے شخص کا نقصان ہوتا ہے تو یہ بھی رشوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ مال اس شخص کے لیے حرام ہے اور جہنم میں لے جانے کا باعث ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" الراشي والمرتشي کلاھما في النار "
ترجمہ:
" رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں"۔
ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ رشوت حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ شاید یہ بات اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی یا یوں کہنا درست ہے کہ کبھی اس کی گہرائی تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
جس طرح قران میں رشوت کو اکل بالباطل (باطل /حرام طریقے سے مال حاصل کرنا) ، برا اور حرام کہا گیا ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس کے خلاف سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت کرتے ہیں اور اس شخص پر بھی جو ان دونوں کے درمیان معاملات طئے کرے۔"(الجصاص)
رشوت دینے اور لینے والے اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتے ہیں۔
رشوت چوں کہ ایک ظلم بھی ہے کیوں کہ اس کے ذریعے دوسروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔
"جب مؤمنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر (جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگا)روک لیا جائے گا اور وہیں پر ان کے مظالم کا بدلہ دیا جائے گا"۔ (بخاری شریف)
مزید فرمایا:
"خبردار ہوجاؤ! ظالموں پراللہ کی پھٹکار ہوگی"۔(صحیح بخاری) "
مزید فرمایا:
"الظلم ظلمات یوم القيامة"
"ظلم قیامت کے دن اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہوگا۔"( بخاری ومسلم)
ہمارے نبی نے بھی ہمیں ظلم سے بچنے کی تاکید کی ہے اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:
"اتقو دعوة المظلوم، فانه ليس بينه وبین الله حجاب"(متفق علیہ)
"یعنی مظلوم کی بددعا سے بچو ،کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔"
ايک اور جگہ پر آپﷺ نے فرمایا :
من كانت له مظلمة لاخيه من عرضه او شيء۔ الخ (بخاری شریف)
اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے پر ہو تو وہ آج ہی (اس دن کے آنے سے پہلے) معاف کرالے، جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم . بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا، تو وہ اس کے ظلم کے بدلے میں وہ ہی لے لیا جائے گا۔ اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہوگا، تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
کیا ہوگا اس دن؟ جب کوئی کسی کی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ انسان اپنے کیے ہوئے اعمال پر شرمسار ہوگا۔ بھاگے گا، اپنے بھا ئی سے، اپنے تمام رشتے داروں سے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں اس لمحے کو کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے:
يوم يفر المرء من اخيه وامه وابيه وصاحبته وبنيه (سورۃ العبس)
ترجمہ: 
"اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے, اپنی ماں سے اپنے باپ سے, اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے "
اور تمنا کرے گا اس وقت جب تمام جانوروں کو ان کا بدلہ دے کر مٹی کردیا جائے گا کہ کاش میں بھی مٹی ہوجاتا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يليتني كنت ترابا (سورۃ النبا)
ترجمہ:
"اے کاش کہ میں مٹی ہوجاتا! "
جب اتنی شاندار تعلیم ہمیں دی گئی ہے تو ہم کس راستے پر رواں دواں ہیں؟ کبھی سوچتے نہیں کہ کیا کریں گے؟ جب ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا، جب کوئی رشوت قبول نہیں کی جائے گی، اس دنیا اور آسمان کے درمیان تمام چیزیں اس کے عوض دینے کی کوشش کی جائے گی، تب بھی یہ سب قبول نہ کیا جائے گا۔ کیوں کہ اس دن فیصلہ کرنے والی ذات اللہ رب العالمین کی ہوگی۔
قرآن کریم نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے:
فلن یقبل من احدھم ملء الارض ذھبا ولوافتدی به (سورۃ آل عمران)
ترجمہ:
"ان میں سے کسی سے پوری زمین بھر کر سونا بھی قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کی پیشکش ہی کیوں نہ کرے۔"
اس تحریر کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں، بلکہ یہ صرف اسلیے ہے کہ شاید اس تحریر کی وجہ سے کسی کو اللہ رب العالمین کی طرف سے ہدایت مل جائے اور یہ تحریر کسی کی نجات کا سبب بن جائے۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو بد بختی، آزمائش کی مشقت اور برے خاتمے سے بچائے۔(آمین)
آخر میں ایک مختصر حدیث بیان کرنا چاہوں گی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
تعوذوا من جهد البلاء،ودرك الشقاء، وسوء القضاء وشماتة الاعداء(صحیح بخاری)
اللہ سے پناہ مانگا کرو آزمائش کی مشقت سے، بد بختی کی پستی سے، برے خاتمےسے اور دشمن کے ہنسنے سے۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے،
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!
(علامہ اقبال)
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین
١۹ اکتوبر ۲۰١۹
٢٠ صفر المظفر ١٤٤١

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی