ناموس رسالت ﷺ اور ہماری ذمہ داری

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
تحفظ ناموسِ رسالتﷺ
اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء دو جہاں کے مصطفی ﷺ کے لیے رحمت اللعالمین کا لقب دے کر قرآن میں ارشاد فرمایا:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا رَحۡمَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ
ترجمہ:
"اور تجھ کو ہم نے بھیجا مہربانی کر کر جہان کے لوگوں پر"۔(سورۃ الانبیاء:107)
وہ نبی ﷺ جو دو جہاں کے کونین، سرور دو عالم رحمت جودوسخا کے پیکر تھے، وہ جن کے آنے سے دو جہاں منور ہوئے، وہ جن کو درخت اور پہاڑ جھک کر سلام کیا کرتے تھے، جن پر صحابہ اپنی جانوں کو قربان کیا کرتے تھے۔ دیکھا جارہا ہے کہ آج ان ہی کی گستاخی کی جاتی ہے۔ میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑا، میرا ذہن بند ہوا چاہتا ہے کہ کیسے یہ گستاخ لوگ مسلمانوں کی عزت نفس کو مجروح کرسکتے ہیں؟
کیا یہ ہم مسلمانوں کو زوال پذیر سمجھ کر یوں جو چاہیں کرتے پھریں گے اور ہم مسلمان ان کی بدبختی کو دیکھتے رہیں گے؟ آج مجھے قرآن کی ایک آیت کا مفہوم سمجھ آگیا کہ رب تعالی فرماتا ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡض
ترجمہ:
"اے ایمان والو مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست وہ آپس میں دوست ہیں"۔(سورۃ المائدۃ:51)
اللہ رب العالمین جانتا تھا کہ یہ مسلمانوں کے ساتھ کبھی مخلص نہیں ہوسکتے۔ یہ گستاخانہ سلسلے تو 1400 سال پہلے سے چلے آرہے ہیں، مزید بڑھتے ہی جارہے ہیں، اس لیے رب تعالی نے فرمادیا تھا کہ ان سے دوستی نہ کرنا یہ کبھی تمھارے دوست نہیں بن سکتے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا،
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا(حالی)
رحمت دو عالم جودوسخا ﷺ نے تشریف لاکر انسانوں کو ان کے حقوق دلوائے، عورتوں کی عزتوں کو پامال ہونے سے بچایا، ایک نظم وضبط قائم کیا، عدل وانصاف اور اسلام کا پرچار کیا  لیکن اس وقت بھی کئی گستاخ سامنے آئے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے خود حکم دے کر ان کی گردنیں اڑانے کا حکم دیا۔ اسود عنسی ہو یا مسیلمہ بن کذاب ہر ایک اپنے انجام کو پہنچا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی ہر شخص کو معاف کردیا گیا اور امان دی لیکن گستاخوں کے نام لے کر فرمایا کہ فلاں بن فلاں اگر کعبے کے ساتھ لپٹا ہوا بھی نظر آئے تو اسے قتل کیا جائے کیوں کہ گستاخ رسول کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ہے سر تن سے جدا۔
خاتم النبیین کے حقوق میں سے چند ایک حقوق ہیں کہ سب سے پہلے انہیں اللہ کا نبی و رسول اور خاتم النبیین ﷺ مانا جائے کہ اس کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔
انا خاتم النببین لا نبی بعدی ( الحدیث)
میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اس کے بعد ایک حق یہ بھی ہے کہ انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا جائے یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ کیا ہم نے ان کو عزیز تر رکھا ہے یا ہم غیروں کے رحم وکرم پر چلتے ہیں؟
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
ترجمہ:
" تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہوگا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہوجائے"۔(صحیح بخاری : 15)
کچھ عرصہ پہلے فرانس اپنی حدود سے باہر نکل کر محمد عربی ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کر بیٹھا اور اسے بڑے اطمینان سے سیاسی عمارت پر شائع کیا گیا۔ اس میں ملعون صدر فرانس بھی پیش پیش رہا، اس وقت اس کے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے۔ کیا وہ لوگ ہم سے امن وامان کی اپیل کرسکتے ہیں؟ جب کہ وہ ہمارے رسول ﷺ کی یوں بے حرمتی کرتے پھریں۔ کیا ہم گستاخ رسول کو اچھی نگاہ سے دیکھتےسکتے ہیں؟ گستاخ رسول کا انجام ہمیشہ ہی دردناک ہوا ہے۔ صحابہ تو اپنی جانے لٹانے کو تیار تھے کہ ہم ہر موڑ پر نبوت کا دفاع کریں۔ کیا ہم نے دفاع کے لیے ایک قدم بھی آگے بڑھایا؟ صحابہ تو اپنی جانیں لٹانے کو تیار تھے ہم تو بس نام کے عاشق ہیں۔
فرانس کے لوگوں کی یہ جسارت مسلم امت کی طرف اعلان جنگ ہے۔ مغربی ممالک تو ایک طرف اب ایشیائی ممالک میں بھی خاتم الرسل کی گستاخی کے واقعات پیش آنے لگے ہیں۔ ایک عام انسان کی اس میں یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ گستاخ رسول کی تمام تر مصنوعات کا زندگی بھر بائیکاٹ کرے۔ کیا ہم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ جس رسول ﷺ نے راتوں کو جاگ کر ہمارے لیے دعائیں کیں، ہم ان کے گستاخوں کی مصنوعات کو چھوڑ دیں۔ ہم اپنی پسندیدہ اشیاء کو چھوڑدیں گے تو کیا بھوکے مرجائیں گے؟ ان کے علاوہ بھی اور اشیاء ہیں۔ ہم اپنی اشیاء خود بھی تو بناسکتے ہیں۔ ہم ان شہداء کے لہو کا قرض تو نہیں چکا سکتے، جو دین اسلام کو بچانے کی خاطر مر مٹے لیکن کیا اس کے بدلے ہم دکانوں پر سجی گستاخوں کے ملک کی اشیاء کو ہٹا نہیں سکتے؟ کیا ان ہی کی وجہ سے ہمیں کاروبار میں منافع ہوتا ہے؟ ہم کیا منہ دکھائیں گے اپنے نبی کو روز آخرت، کیا ہم شفاعت کے مستحق ہوں گے؟ اس روز جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہم سے پوچھیں گے بتاؤ! میرے اور میرے اصحاب کے رستے پر چلے؟ بتاؤ تو سہی کیا کیا میرے لیے، تو ہم کیا جواب دیں گے؟
امام مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
"حضور ﷺ کی عزت پر بات ہو اور حضور ﷺ کی امت خاموش رہے تو وہ امت اجتماعی طور پر مرجائے اسے جینے کا کوئی حق نہیں"۔
ہم تمام مسلم امت مل کر کیا کچھ نہیں کرسکتے اس معاملے پر تو فرقہ واریت میں بٹے مسلمان ایک ہوکر یک زبان ہوجاتے ہیں۔ تمام مسلمان ایک امت ہی تو ہیں۔ کیوں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا
ترجمہ:
"ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے"۔ (صحیح بخاری:481)
اب بھارتی بی جے پی رہنما کی جانب سے رسول اللہ کی شان میں گستاخی کی جتنی مذمت کی جائے۔ انہوں نے ہر مسلم کو للکارا تو کیا ہم نے اپنا حصہ ڈالا ہے یک زباں ہوکر گستاخ کو سبق دلوانے میں؟ یا پھر ہم نے ان سے بھی دوستی کر رکھی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ  بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ
ترجمہ:
"اے ایمان والو مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے، اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو"۔ (سورۃ المائدۃ:51)
اگر ہم ہدایت کے طلب گار ہیں تو ہمیں اپنے طور پر مکمل طور پر ناموس رسالت کے دشمن عناصر کا بائیکاٹ بھی کرنا پڑے گا کیوں کہ سرمایہ دار کو سب سے زیادہ تکلیف مالی نقصان سے ہوتی ہے۔ لعنتیں بھیجنے سے ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ مسلم حکومت کو چاہیئے سے ہر تعلق بند کردیا جائے، ہر لین دین کو روک دیا جائے۔
ہمیں اپنے طور پر ذمہ داری ادا کرنی ہوگی کہ ہم مختلف مقامات پر ناموسِ رسالت سے متعلق آگاہی پروگرام کا انعقاد کرکے لوگوں کو آگاہ کریں کہ ہم مسلمان ایک ہیں ہم اپنے رسول ﷺ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ نئے آنے والی نسلوں کو سنتِ رسول، ختم نبوت، اور ناموس رسالت ﷺ کی باقاعدہ تربیت کریں اور اس پر خود بھی عمل پیرا ہوں ان کو بھی عمل پیرا ہونے کی تلقین کریں۔
آئیے! ہم عزم کرتے ہیں حرمت رسول ﷺ پر جو بھی غلط قدم اٹھائے گا ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ ہم سے جو بن پڑا ہم کریں گے ہمیں اپنی من پسند چیز چھوڑنی پڑی چھوڑیں گے، ہمیں کاروبار کا نقصان اٹھانا پڑا اٹھائیں گے، کیوں کہ آخرت کا نقصان اس سے کئی گنا زیادہ بڑا ہے۔ ہم اپنے رسول ﷺ کی ناموس کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کریں گے۔ کیوں کہ کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کو اپنی جان، اپنے والدین، اپنی اولاد، اپنے مال اور اپنی ہر چیز سے بھی زیادہ محبوب نہ سمجھ لے۔
میں جیتی ہوں بس اسی امید پر،
مجھے عشق اس کے محبوبﷺ سے ہے! (سیدہ حفظہ احمد)
حرمت رسولﷺپر ہمارا تن من دھن قربان
فداک امی وابی یا رسول اللہﷺ
اللہ پاک ہمیں محمد ﷺ سے سچی محبت عطا فرمائے۔ آمین
بروز پیر
٥_نومبر_۲۰۲۰
١۹_ربیع الاول_١٤٤۲

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی