تحریر: سیدہ حفظہ احمد
صنف: مکالمہ
رمشاء اور عائشہ بہت گہری دوستیں تھیں۔ رمشاء عائشہ کے گھر آئی تو اس نے رمشاء کا استقبال کیا اور گرم جوشی سے اس کو گلے لگایا۔ علیک سلیک کے بعد ان کی گفتگو شروع ہوئی۔
عائشہ: السلام علیکم ورحمۃ اللہ
رمشاء: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ میری پیاری دوست،کیسی ہو تم؟
عائشہ: الحمدللہ میں تمھاری دعاؤں سے خیر و عافیت سے ہوں۔ تم بتاؤ کیسی ہو؟ اتنے دن غائب کہاں تھیں؟ عائشہ نے فکر مند ہوکر رمشاء سے سوال کیا۔
رمشاء: میرے بھائی کی شادی ہے تو تیاریوں میں مصروف تھی، اور ابھی تمھیں دعوت نامہ دینے آئی ہوں۔
عائشہ: ماشاءاللہ! بہت اچھی بات ہے، اللہ دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے۔ میں ضرور شرکت کروں گی۔
رمشاء: ہاں ضرور! کوئی بہانا نہیں چلے گا۔ رمشاء نے مسکرا کر کہا۔
عائشہ: اور سناؤ شادی کی تیاری مکمل ہوگئی، جہیز وغیرہ گھر آگیا؟
رمشاء: ہاں تیاری مکمل ہے، لیکن ہم نے بھابھی کے گھر والوں سے جہیز لینے سے انکار کردیا ہے، ان کی ضرورت کی ہر چیز ہم نے خود لے لی ہے اور خود ان کا کمرہ سیٹ کروایا ہے۔
عائشہ: انکار! لیکن کیوں؟
رمشاء: اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک لڑکی جس گھر میں شادی ہو کر آتی ہے وہ بھی تو گھر کا فرد ہوتی ہے، اب جب وہ گھر کا فرد بن رہی ہیں تو ان کی ضرورت کی ہر چیز انہیں فراہم کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم یہ سوچ مضبوط کرلیں تو اللہ تعالی ہمارے رزق و کاروبار میں برکت دیں گے۔
عائشہ: تم ٹھیک کہہ رہی ہو، مگر آج کل یہ سب تو عام ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ یوں خالی ہاتھ اپنی بیٹی کو گھر سے نکال دیا؟ اس طرح کی باتیں ان کے والدین کو کیسے برداشت ہوسکیں گی؟
رمشاء: ہاں! لوگوں کا اور کام کیا ہے؟ بہت سے لوگ تو خود اپنی ضرورت کی چیز بھی نہیں لیتے اور آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ بہو آئے گی، سامان لائے گی تو ہم استعمال کریں گے۔ ماں باپ اگر جہیز دیتے بھی ہیں تو کیا سسرال والوں کی ضرورت کے لیے دیتے ہیں؟ رمشاء نے سوال پر مزید سوال داغ دیا۔
رمشاء کی بات کا عائشہ پر گہرا اثر پڑا۔ اسے بات سمجھ آگئی تھی۔
عائشہ: عنقریب میرے بھائی کی بھی شادی ہے۔ تم لوگوں نے اس رسم کو ختم کرنے کا اچھا اقدام کیا۔ اس سے غریب بیٹیاں جو جہیز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ہیں، اسلام کے مطابق ان کی شادی آسان ہوجائے گی۔ میں بھی کوشش کروں گی کہ اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کروں۔ اللہ کرے یہ سبق تمام لوگ سیکھ جائیں۔ آمین
رمشاء: آمین۔ چلو پھر شادی میں ملاقات ہوگی۔ اب میں چلتی ہوں۔ اللہ حافظ
![]() |
مکالمہ جہیز |
bohut khoob
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
حذف کریںایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks