میرا تعلیمی سفر

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

عنوان: میرا تعلیمی سفر


"سوچ رہی ہوں اس تحریر کو عنوان "حوصلہ افزائی" دوں۔ میں تقریبا ڈیڑھ سال سے اس عنوان پر لکھنے کا سوچ رہی ہوں۔ لیکن الفاظ موقع محل اور حالات کی مناسبت سے عطا ہوتے ہیں۔ شاید آج وہ موقع ہے کہ میں اس عنوان کو تعلیمی سفر کے عنوان میں ہی ضمنا تحریر کرسکتی ہوں۔ کیوں کہ دونوں کا ایک خاص تعلق بھی ہے۔


بچے کی پیدائش کے بعد اہم چیز نام رکھنا ہوتا ہے۔ میرے دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی والدہ نے نام سوچ لیا تھا۔ نام کے ساتھ یہ بھی سوچ لیا تھا کہ حفظ کروانا ہے۔ اس کے بعد اہم چیز تعلیمی ادارے کا چناؤ ہوتا ہے۔ مجھے ایسے اسکول میں داخلہ دلوایا گیا، جہاں حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی اور کچھ عصری علوم کا ذائقہ ضروری حد تک چکھا دیا جاتا۔ خصوصی توجہ، جو زیادہ اہم تھا یعنی حفظ قرآن اسی پر دی جاتی تھی۔


جب میں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو پہلی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی، اس بنا پر مجھے ایک چھوٹی سی شیلڈ سے نوازا گیا، جو میرے لیے اب تک بہت اہم ہے۔ یہ حوصلہ افزائی کا پہلا درجہ ثابت ہوا۔

میرا تعلیمی سفر
میں نے حفظ شروع کیا تو تین، چار سپارے حفظ کرنے کے بعد منزل یاد نہ ہونے کی بنا پر کئی ہفتوں سبق بند رہا اور جب یاد نہ ہونا معمول بن گیا۔ استاذہ کی طرف سے دو چار تھپڑوں کی صورت میں ہلکی پھلکی مار اور کئی گھنٹوں کھڑا رہنے کی سزا بھگتنی پڑتی۔ پھر ایک روزاستاذہ نے دوبارہ منزل شروع کردی اور اگلے دن مجھے منزل بالکل پکی یاد تھی۔

تب مجھ سےاستاذہ نے پوچھا کہ: کس نے یاد کروائی منزل؟

میں نے کہا: "خود یاد کی ہے"۔ (جب کہ اس دن بھی میں نے یاد نہیں کی تھی۔)

اس پر بہت تعریف کی اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ اسی دن آگے سبق بھی کھل گیا۔ یہ ایک بہترین حوصلہ افزائی ثابت ہوئی۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ سبق سبقی یا منزل یاد نہ ہونے پر مجھے کھڑے ہونے کی سزا ملی ہو۔

اس کے بعد ساتھ ساتھ پنجم جماعت تک اچھی کارکردگی رہی مگر اول جماعت کی طرح حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ پرنسپل تبدیل ہوگئے تھے جو شاید اس طرح کی حوصلہ افزائی کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ 2008 میں حفظ مکمل کیا اور 2009 وفاق المدارس کا امتحان دے کر سو فیصد نمبر حاصل کیے۔ اس وقت بھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔

اس کے بعد آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے گورنمنٹ اسکول میں داخلہ دلوایا گیا۔ میری مضامین سے جان پہچان نہیں تھی سوائے اردو انگریزی اور ریاضی کے، وہ بھی برائے نام۔ اب جو آٹھ دس مضامین کا پہاڑ سر پر ٹوٹا تو ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ اس دوران نیا تعلیمی سال مارچ میں شروع ہوتا تھا۔ لیکن اگست میں داخلہ ہوا اس بناء پر پچھلا سارا کام بھی کور کرنا تھا۔ اور ریاضی تو انتہا کا مشکل لگا اس وجہ سے کئی بار مار بھی کھائی، سزا بھی ملی۔ مضامین کی سمجھ بوجھ نہ ہونے اور اسکول تبدیل ہونے پر اس سال تعلیمی کارکردگی بہت خراب رہی۔ جہاں اول تا پنجم جماعت تک اول دوم سے صرف ایک بار "سوم" آنے پر رزلٹ خراب ہوا اور فورا والدین کو اس طرف یاددہانی کروائی گئی تھی۔ وہاں اب ساتویں جماعت میں میری کارکردگی دسویں نمبر پر بھی نہیں تھی۔

آٹھویں نویں میں بھی مناسب کارگردگی رہی۔ بقیہ مضامین سے اب اچھی خاصی جان پہچان ہوگئی تھی ریاضی بھی آٹھویں میں اچھا ہوگیا تھا۔

نویں جماعت کے بعد دسویں جماعت میں پہنچنے پر بیالوجی اور کیمسٹری پڑھانے والی ٹیچر (مس رومانہ) اب پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوچکی تھیں۔ گورنمنٹ اسکول ہونے کے باوجود اب اسکول میں مزید بہتری آچکی تھی۔ پرنسپل جب دورے پر نکلیں اور ہماری کلاس کے دورے پر آئیں تو اس وقت فزکس کا پیریڈ تھا۔ فزکس کی ٹیچر (مس عرفانہ) اور مس رومانہ گہری دوستیں بھی تھیں۔ مس رومانہ نے میری طرف اشارہ کرکے مس عرفانہ کے کان میں سرگوشی کی۔ پرنسپل (مس رومانہ)، مس عرفانہ اور کلاس میں موجود ہر طالبہ کی نظر اب مجھ پر تھی۔ میں خود حیرت کے سمندر میں غرق تھی کہ اللہ! ایسا کیا ہوگیا مجھ سے؟ میں نے کچھ غلط تو کیا ہی نہیں۔ پتہ نہیں کیا کہا ہوگا؟ جیسے سوالات کی بوچھاڑ میرے ذہن پر ہوئی۔

کئی دن گزر گئے وہ بات بھی میرے دماغ سے نکل چکی تھی۔ ایک دن فزکس کا پیریڈ تھا باب اول مکمل ہوا تو جو کلاس میں اول اور دوم (اقصی اور منیبہ) آنے والی طالبات تھیں انہوں نے ایڈوانس میں پرابلمس (مشقیں) حل کرکے مس عرفانہ کو چیک کروائی۔ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ اس میں پرابلمس بھی حل کرنی ہوتی ہیں۔ مس عرفانہ نے اس وقت مجھ سے کہا کہ تم کیوں نہیں کرکے لے کر آئیں؟ مس رومانہ نے تو تمہاری بہت تعریف کی تھی کہ تم بہت ہوشیار ہو۔ گویا مس عرفانہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ مس رومانہ نے جو کچھ کہا اس پر تم بالکل بھی نہیں اترتیں۔ اب مجھے سمجھ آگیا تھا کہ مس رومانہ نے اس وقت مس عرفانہ کے کان میں کیا سرگوشی کی تھی۔ یہ سرگوشی اب میری حوصلہ افزائی میں تبدیل ہوچکی تھی۔ مجھے سمجھ آگیا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے۔ اس کے بعد الحمدللہ میں نے اپنی کارکردگی بہتر کرلی اور محنت صبر و شکر کو تھامے رہی۔ ہر مضمون میں Grip حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسکول کے آخری امتحانات میں رزلٹ اناؤنس ہوا اور فیئر ویل پارٹی میں میری اول جماعت والی پہلی پوزیشن واپس مل گئی۔ اس سب میں نویں جماعت میں ملنے والی دوست اریبہ کا بھی اہم کردار ہے، جس کا ساتھ تعلیم میں تو صرف دو سال کا ہی تھا۔ مگر نویں جماعت سے اب تک وہ ہر خوشی اور پریشانی میں ضرور ساتھ ہوتی ہے۔

اب آگے ایک بہت بڑی تبدیلی آنی تھی کیوں کہ کالج بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ بس منہ اٹھا کر Pre medical میں داخلہ لے لیا تھا۔ یہاں منیبہ اور اقصی بھی اتفاق سے میرے ساتھ تھیں۔ یہاں میری تعلیمی کارکردگی مناسب رہی۔ زیادہ اچھی نہیں تھی نہ ہی کوئی اپنی پہچان تھی۔ بس اردو اور اسلامیات میں گہری دلچسپی تھی۔

انٹر کے بعد کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب آگے کیا کرنا ہے کیا نہیں؟ والد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹری کے لیے انٹری ٹیسٹ دے دو۔ بڑی بہن پہلے ہی ڈاکٹری پڑھ رہی تھی۔ ایک ساتھ دو دو کے لیے انتظامات کرنا کافی مشکل تھا۔ حالات پہلے جیسے اچھے بھی نہیں تھے۔ میری عدم دلچسپی کے باعث میں نے انکار کردیا اور بنا سوچے سمجھے B.Sc (یعنی Bachelor of Science) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پرانی دوستیں تقریبا اب نہیں تھیں۔ سب نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا اور کچھ نے پڑھائی ہی چھوڑ دی تھی۔ بیچلر میں بھی تعلیمی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی البتہ مناسب تھی۔ آگے پڑھنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا اور یہ ارادہ اب پختہ ہوگیا تھا۔

بیچلر میں اکثر پریزینٹیشنس دینی پڑتیں۔ میں اس چیز سے دور بھاگتی تھی۔ مگر منیبہ مجھے کہتی تھی: جا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ لیکن میں پھر بھی گھبراتی تھی اور ایسے وقت میں پریزینٹیشن دیتی، جب مس اپنی جگہ Internship والی لڑکی کو بھیجتیں۔ میں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی، پرچہ آگے رکھ کر ریڈنگ والے انداز میں بول کر آجاتی بس جان چھڑانی ہوتی تھی۔

البتہ بیچلر میں ایک کام میں نے اچھا کرلیا وہ یہ کہ منتخب کرنے والے مضامین میں Chemistry، Psychology میں سے کیمسٹری ہٹا کر سائیکولوجی رکھ لیا۔ یہ میرے لیے ایک نیا انقلاب لے کر آیا۔ اس مضمون نے میرے لیے ایک نئی راہ ہموار کردی تھی۔

مس فاطمہ Psychology کی ٹیچر Educational Psychology کا پورشن پڑھا رہی تھیں، جو بہت دلچسپ بھی تھا۔ ایک دن انہوں Aptitude کے بارے میں پڑھایا۔ میں نے اس دن گھر آکر اپنے سارے تعلیمی ریکارڈ نکالے اور دیکھا کہ میرے حاصل شدہ نمبر سب سے زیادہ کس مضمون میں ہیں؟ یہ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گئی۔ جہاں بورڈ کسی کو بھی تقریبا پورے مارکس نہیں دیتا، وہیں میرے ساتھ بھی یہ ہی ہوا تھا البتہ میں نے ہر بار اس مضمون میں ٹوٹل نمبر میں سے دو نمبر یا پانچ کم حاصل کیے۔ ایک دو نمبر کٹنا تو اصولی بات ہے۔ (ایسا صرف ریاضی میں ہی ہوتا ہے کہ کوئی پورے نمبر حاصل کرے۔) اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ مضمون اسلامیات کا تھا۔ اسلامیات میرا پسندیدہ بھی تھا، دلچسپی بھی تھی۔ اس دن مجھے اپنا Aptitude مل گیا۔ میں جان گئی کہ مجھے اب آگے کیا کرنا ہے۔ بس ٹھان لی تھی کہ اب اسلامیات میں ہی ماسٹرز کرنا ہے۔

حفظ کے بعد قرآن بس طوطے کی طرح رٹا ہوا تھا۔ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ اللہ کہہ کیا رہا ہے؟ کیا اسے بس یوں ہی پڑھتے جانا ہے؟ بیچلر کے بعد تقریبا ایک سال کا وقفہ آنا تھا، اس کے بعد ماسٹرز کے ایڈمیشن ہونے تھے۔ مگر ابو رضامند نہیں تھے کہ جامعہ سندھ میں داخلہ لوں۔ البتہ پرائیوٹ پڑھنے پر رضامند تھے۔ مگر میرا ایسا ذہن نہیں تھا کہ ایڈمیشن لے کر گھر بیٹھو اور بس امتحان دو۔ یہ ڈگری کے ساتھ کہاں کا انصاف ہے؟


اس ایک سال کے دوران میں نے مدرسے میں عربی سیکھنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ عربی کے ساتھ ساتھ باجی نے فقہ بھی پڑھایا۔ عربی سے کچھ معمولی وافقیت ہوئی تفسیر کا شوق دل میں پیدا ہوگیا۔ وہیں تفسیر بھی شروع کردی۔


ماسٹرز میں داخلے کا وقت آیا تو ابو بالکل رضامند نہیں تھے۔ میں نے لڑ بھڑ کر ابو کو منایا۔ ابو نے فیس کا بہانا کیا کہ اتنی فیس کیسے ادا ہوگی؟ میں نے کہا ٹھیک ہے فیس کا مسئلہ فیس میں خود بھرلوں گی الحمدللہ نویں جماعت سے ٹیوشن پڑھارہی تھی پچھلی بار بھی کئی مرتبہ میں نے امتحانات کی فیس بھردی تھی۔ اس بار بھی مسئلہ نہیں تھا۔ بہرحال ایموشنل بلیک میل کرکے ابو کو منالیا۔


ایڈمیشن کے لیے مجھے کسی نے کہا، جو ڈپارٹمنٹ پہلی چوائس پر رکھو گی، وہ نہیں ملے گا۔ اس لیے پہلی چوائس پر وہ رکھنا جو نہیں چاہیئے ہو۔ دوسری پر اصل چوائس رکھنا۔ میں نے پہلی چوائس انگلش رکھ دی دوسری پر اسلامیات۔ ایڈمیشن ہوا تو انگلش میں نام آگیا۔ میرے لیے مشکل کھڑی ہوگئی اور ڈپارٹمنٹ تبدیل ہونا مشکل ہوگیا۔ ہر ایک یہ کہہ رہا تھا انگلش اتنی آسانی سے مل گیا اسے ہاتھ سے مت جانے دو، مگر میرا جنون انگلش پڑھنا تھا ہی نہیں۔ ابو نے کہہ دیا تھا کہ اگر تبدیل ہوا تو ٹھیک ہے اگر نہ ہوا تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابو ویسے بھی یونیورسٹی کے لیے اب تک دل سے حق میں نہیں تھے۔ پھر بڑی مشکل اور جدوجہد کے بعد ڈپارٹمنٹ تبدیل ہوگیا اور میرا نام آخری لسٹ میں اسلامک اسٹڈیز میں آگیا۔


اسکول کے بعد کالج اور اب یونیورسٹی کا بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ اسکول اور کالج میں اتنی اچھی کارکردگی نہ ہونے پر، اپنی پہچان نہ ہونے پر مجھے محسوس ہوتا تھا مجھے کچھ بھی نہیں آتا۔ میں کچھ نہیں کرسکتی۔ کلاسیں شروع ہوئیں تو کلاس کی بہنیں تو خاموش رہتی تھیں جب کہ بھائی میں ایک دو بھائی سوالوں پر جواب دیتے اور سوالات بھی بہت کرتے۔ (خصوصا دو بھائیوں کو تو ہم نے بعد میں افلاطون اور ارسطو کا نام دے دیا تھا۔) میں سوچتی تھی یہ کتنے ذہین ہیں مجھے کچھ نہیں آتا۔ کسی نے مدارس سے درس نظامی کیا ہوا ہے تو کوئی تاریخ میں ماہر ہے۔ مجھے تو تاریخ کا "ت" بھی نہیں آتا اور نہ تاریخ یاد رہتی ہے۔


بیچلر کے بعد درمیان میں ایک سال کے وقفے میں عربی، تفسیر اور فقہ نے یہاں کام کیا کہ کلاس میں اکثر باتیں بائیولوجی، کیمسٹری، فزکس اور ریاضی کی طرح باتیں میرے سر سے نہیں گزرتی تھیں۔ مدرسہ اب بھی جاری تھا، مگر صرف ہفتے میں دو دن۔


یونیورسٹی کے پہلے مڈٹرم کے امتحانات ہوئے تو سر مختیار نے اصول فقہ کا رزلٹ سب سے پہلے بنالیا اور کلاس میں سب کے نتائج کا اعلان کیا۔ اعلان کے دوران مجھے لگ رہا تھا کہ میں تو تیس میں سے بمشکل دس نمبر ہی حاصل کر پائی ہوں گی۔ دل کی دھڑکنیں لمحے لمحے بڑھتی جارہی تھیں۔ جب میرا نام آیا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا، میں نے کل تیس میں سے 26 نمبر حاصل کیے تھے۔ سر نے کہا: "شاید یہ ہی highest نمبر ہیں"۔

میرا تعلیمی سفر
سر نے آخر میں کہا اپنی اپنی کاپیاں جسے تسلی کے لیے دیکھنی ہوں آکر دیکھ لیں جب میں اور فاطمہ دیکھنے گئے تو میری کاپی میں ایک بھی غلطی نہیں تھی۔ سر مختیار نے دوبارہ کاپی دیکھی اور مجھ سے میرا تعارف لیا۔ کیا پڑھا ہے کہاں سے پڑھا ہے عربی کتنی آتی ہے وغیرہ؟ عربی میں تو میں زیرو تھی قواعد بالکل بھی نہیں آتے تھے۔ البتہ ترجمہ سے کچھ سمجھ بوجھ ہوگئی تھی۔ تفسیر اور بالکل ابتدائی عربی پڑھ کر۔ سر کی حوصلہ افزائی نے مجھے احساس دلایا کہ میں بھی کچھ کرسکتی ہوں۔ سر نے تاکید سے کہا:"بیٹا آپ کو عربی سیکھنی چاہیئے تب ہی آپ اس فیلڈ میں آگے نکل پائیں گی"۔ اس دن کے بعد میں مدرسہ اور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ایک آن لائن عربی گرامر کورس بھی شروع کرلیا۔ سر نے اس کے بعد بھی وقتا فوقتا کئی موڑ پر حوصلہ افزائی کی۔ کئی گر کی باتیں بھی بتائیں۔

جب بات آئی دعوت وتبلیغ کے موضوع پر پریزینٹیشن دینے کی تو یہ سب میرے لیے بہت مشکل تھا۔ ویسے بھی Co education میں پہلا تجربہ تھا۔ لڑکیوں کے سامنے پریزینٹیشن دینا اتنا مشکل لگتا تھا پھر یہاں تو لڑکے بھی تھے۔ ان میں سے بھی سر نے چار پانچ بھائیوں کو (اور چار پانچ بہنوں کو بھی) ججز بنا کر بٹھادیا تھا کہ غلطیاں نوٹ کریں۔ ایسے میں میری تو ہوائیاں ہی اڑ چکی تھیں۔

یہاں بریرہ کے الفاظ کام آئے "حفظہ جائیں آپ کرلیں گی، آپ کرسکتی ہیں، کچھ بھی نہیں ہوگا"۔

میں سوچ رہی تھی اتنا یقین کیسے؟ میں نے اپنی بھرپور کوشش کرکے مکمل تیاری کی۔ مگر پہلا تحربہ تھا سو فیصد کامیاب نہیں ہوئی مگر یہ الفاظ مجھے اسٹیج پر کھڑے ہو کر بولنے کا ہنر سکھا گئے تھے۔

بریرہ کے ساتھ فاطمہ کا بھی وقتا فوقتا حوصلہ ساتھ رہا۔ جیسے اسکول میں اور اس کے بعد بھی اریبہ کا رہا۔ یونیورسٹی میں کلاس کی تمام بہنیں بہت اچھی ملیں ہر ایک ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرتی۔

یہ یونیورسٹی کا پہلا قدم جو بہت مشکل لگ رہا تھا اس میں کامیابی کے بعد اخیر تک ایک ایک کرکے کامیابی ملتی گئی اور یہاں تک کہ میں اس مقام پر پہنچ گئی کہ مجھے اب یونیورسٹی میں بھی پہلی پوزیشن ملی۔

My Big Achievement

یونیورسٹی کے پہلے سال کے اخیر میں میں نے اپنی تحریر لکھی تو صرف بریرہ، فاطمہ، بینش اور سر مختیار کو دکھائی تو سب کی طرف سے حوصلہ ملا۔ مگر اس فیلڈ میں مجھے کوئی راستہ نہیں مل سکا تو میں تھک ہار کر بیٹھ گئی۔

لاک ڈاؤن کے دوران جب میں نے سائبان اکیڈمی صحافت کورس کے لیے جوائن کی تو یہاں بھی میں صرف حوصلہ افزائی کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکی۔ اب یہاں مختلف آن لائن کورسز، یونیورسٹی اور لکھنے لکھانے کا کام ساتھ چلتا رہا۔

لاک ڈاؤن کی بدولت کئی بہترین اساتذہ ملے، جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مدرسے کی معلمہ (حنا باجی) سے پہلے مجھے کوئی بھی ایسے ٹیچر، معلمہ یا معلم یا معلمہ نہیں ملے، جو میرے کئے گئے سوالات سمجھ سکیں۔ جواب مل جاتا مگر میں مطمئن نہیں ہوپاتی تھی ذہن میں الجھن ہمیشہ باقی رہ جاتی۔ اسی لیے میں اکثر مقامات پر سوالات ہی نہیں کرتی تھی کہ مزید الجھن کا شکار ہوجاؤں گی۔ مگر حنا باجی سے میں ہر سوال کرتی وہ مجھے مطمئن کردیتیں۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس بھی بند ہوگئے تو باجی سے ملاقات تو دور کی بات رابطہ بھی کافی مشکل ہوگیا۔ ایسے میں نئے اساتذہ ملے تھے ان میں محترم استاذ ابرار حسین کو میں نے ایسا پایا کہ وہ ہر سوال کے جواب پر مطمئن کردیتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے پڑھائی کے معاملے میں کہیں کسی بات پر الجھن کا شکار ہوئی تو فورا سوال استاذ ابرار کو لکھ کر بھیج دیتی، جب تک تسلی و تشفی نہ ہوجاتی تب تک سوالات کرتی استاذ انتہائی مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر جواب دیتے اور جب تک الجھن ختم نہ ہوجاتی تب تک پر سکون ہو کر جواب دیتے۔

اسی طرح عربی کے معاملے میں جہاں مشکل کا شکار ہوئی وہیں فورا استاذ عابد کو سوال لکھ بھیجا انہوں نے بھی مستقل رہنمائی کی۔ ایک بار تو میرے غلط سوال سوال پر استاذ مشکل کا شکار ہوگئے اور چار لغات دیکھ ڈالیں۔

ایسے بہترین اساتذہ جو اپنا قیمتی وقت خالصتا اللہ کی رضا کے لیے اپنے شاگردوں کو دیتے ہیں، مجھے حقیقی زندگی میں تو بہت کم میسر آئے (جن سب کا ذکر میں کر بھی چکی ہوں)مگر اس کا ازالہ آن لائن سسٹم سے پورا ہوگیا۔ (اللہ بہترین اجر دے)

لکھنے کے دوران ایک بار ایک شخص سے میں نے اصلاح مانگی۔ (الحمدللہ سائبان اکیڈمی اور اس کے علاوہ بھی میری تحریر کئی جگہ مقبول ہوئی تھیں۔) انہوں نے ایک دن کچھ نہ کہا۔ اگلے دن کہا کہ آپ کی تحریر بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے اور کچھ منفی باتیں کی۔ مگر میں نے کہا آپ میری غلطیاں بتادیں مجھے اچھا لگے گا کہ کچھ اپنے بڑوں سے سیکھ سکوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے انتظار کریں۔ میں نے کئی دن تک انتظار کیا کہ اصلاح ہوجائے گی کچھ سیکھنے کو مل جائے گا، مگر کچھ دن کے بعد انہوں نے مجھے اپنا کالم بھیج دیا کالم کا عنوان تھا "دو ٹکے کا کالم" اس کالم کو پڑھ کر مجھے بہت افسوس ہوا خود پر کہ میں نے کس شخص کو اصلاح کے لیے کہہ دیا، جسے اصلاح کرنے کے اصول تک نہیں معلوم یہ کیا اصلاح کرے گا۔ میں نے کتنے دن انتظار کیا درمیان میں پوچھا بھی کہ غلطیاں بتادیں تاکہ میں تحریر آگے بھیج سکوں۔ مگر آسرے میں رکھ کر دو ٹکے کا کالم لکھا جارہا تھا۔ اگر وہ شخص میری غلطیاں بتاتے میری اصلاح کرکے تو میں ان کی عزت کرتی کہ ہاں مجھے کچھ سکھایا۔ مگر میں نے اس طرح کے behaviour پر ان کو اپنے واٹس ایپ کی جہنم (Block list) میں بھیجنا مناسب سمجھا۔ کیوں کہ اس طرح کے لوگ جو خود کو بہت اعلی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کم تر ان کی میری Contact list میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیئے۔

اس طرح کے منفی لوگوں کو میں اپنی زندگی سے بھی بہت دور رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ منفی لوگ آکر آپ کو گرائیں گے بھی مگر آپ کو ڈٹ کر مقابلہ کرنا بھی آنا چاہیئے۔ ان کی باتوں پر کان نہ دھرنا چاہیئے اگر وہ حقیقی زندگی کا حصہ نہ ہو تو واقعی ان کو بھاڑ میں ضرور بھیج دینا چاہیئے تاکہ اس طرح کے لوگ آپ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ کوشش کریں کہ ایسے لوگوں سے دور ہی رہیں۔

یونیورسٹی کے دوسرے سال میں دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے ایک ورکشاپ ہوئی اس میں کراچی یونیورسٹی کے Mass and media communication کے ایک استاذ بھی آئے۔ انہوں نے بھی یہ بیان کیا کہ ہماری زندگی میں حوصلہ افزائی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ بتارہے تھے کہ پہلے کے دور میں اسکول میں نئے سال کے آغاز میں مختلف مقابلے ہوتے تھے اور سب بچوں کو تاکید کی جاتی کہ کسی نہ کسی مقابلے میں ضرور حصہ لیں۔ اس میں جن بچوں کی پوزیشن آتی ان کو اسکول کا یونیفارم،  کتابیں، کاپیاں وغیرہ انعام میں دی جاتیں۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا تاکہ غریب بچوں کی مدد کی جاسکے اور پوزیشن بھی ان کو ہی دی جاتی جو مستحق وتے۔ اس طرح مدد بھی ہوجاتی حوصلہ افزائی بھی اور غریب بچوں کے ماں باپ کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے آگے بیان کیا کہ ان بچوں میں میرا شمار بھی ہوا کرتا تھا اور مقابلوں میں حصہ لے کر ہم کچھ نہ بھی کرتے تو بھی ہماری پوزیشن آجاتی تھی تو بہت حیرت ہوا کرتی تھی۔ اس حوصلہ افزائی نے مجھے اس مقام تک پہنچا دیا کہ میں آج یہاں کھڑا ہوکر آپ سب سے بات کررہا ہوں۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک بچے کے اسکول سے والدہ کو خط بھیجاگیا۔ والدہ نے بچے کو پڑھ کر سنایا کہ اس میں لکھا ہے آپ اپنے بچے کو کسی بڑے اسکول میں لگائیں ہمارا اسکول اس کی ذہنیت کے مطابق نہیں ہے۔

بچہ بڑا ہوکر سائنسدان بن گیا، وہ خط اسے جب ملا تو اس میں لکھا تھا کہ آپ کا بچہ کچھ نہیں پڑھ سکتا۔ کل سے اپنے بچے کو اسکول مت بھیجیے گا۔

یہ بچہ آج تھامس ایڈیسن Thomas Edison کے نام سے مشہور ہے۔ جی ہاں یہ وہ ہی شخص ہے جس نے بلب ایجاد کرکے سائنس کو ترقی دی۔

اگر اس کی والدہ اس کو سچ بتادیتی تو شاید وہ آج اتنا بڑا آدمی نہ بن پاتا۔

مجھے یقین نہیں آرہا۔ میں جو کچھ بھی ہوں،میرا اس میں کوئی کمال نہیں۔ بے شک اللہ ہی کامیابی دینے والا ہے اور یہ کامیابی تو کچھ بھی نہیں اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔

بس میں نے یہ دیکھا کہ اللہ محنت کو رائیگاں جانے نہیں دیتے۔ صبر و شکر کرنے والے کو مایوس نہیں ہونے دیتے۔ ہاں اس کے ساتھ اگر آپ کے ارد گرد کے لوگ آپ کو حوصلہ دیں تو آپ کی محنت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ پھر آپ محنت کرنے سے نہ جی چراتے ہیں، نہ گھبراتے ہیں۔ بس! آپ کچھ بھی کام کرسکتے ہیں پھر آپ کو یہ سمجھ آجاتا ہے۔ آپ جہاں گرتے ہیں وہاں اگر کچھ لوگ حوصلہ دے دیں تو آپ فورا کھڑے ہوجاتے ہیں اگر نہ دیں تو آپ میں اتنی ہمت ہونی چاہیئے کہ دیر سے ہی صحیح آپ نے کھڑا ضرور ہونا ہے تھک کر بیٹھ نہیں جانا۔

یہ سب حوصلہ افزائی کا بھی اثر تھا۔ آپ کی زندگی میں دو بول کسی کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ کسی کے بھی کہے ہوئے چند مثبت الفاظ کسی کو اونچا مقام دلواسکتے ہیں۔ اس لیے کسی کے بھی اچھے کام کو سراہنے میں دیر مت کیجیے۔ زیادہ نہیں ایک دو لفظ ہی کہہ دیں۔ ہوسکتا ہے آپ کے کہے ہوئے الفاظ کسی کو اعلی مقام پر پہنچا دیں اور وہ شخص آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کرے۔

دعا کیجیے کہ میں اسی طرح آگے اپنی زندگی کے مقاصد کو پورا کرسکوں۔ اسی طرح مجھے آپ سب کی حوصلہ افزائی کی ضرورت پڑے گی۔

میں اپنے رب کی شکر گزار ہوں کہ مجھے اس نے اتنی کامیابیوں سے نوازا میں اس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہوگا۔ دعا ہے اللہ ہم سب کو اپنے جائز مقاصد میں کامیابی عطا نہ کرے۔ دنیا کے ساتھ آخرت کی کامیابی بھی عطا کرے۔ آمین

جزاک اللہ خیرا

27_ جون _ 2021

١٦_ ذو القعدہ _ ١٤٤۲

13 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

  1. ماشاءاللہ۔
    اللہ پاک نظر بد سے بچائے اور ہر قدم پر کامیابی عطا فرمائیں۔
    آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت خوب لکھتے ہیں
    اللہ رب العالمین زندگی کے ہر موڑ پر کامیابیوں سے ہم کنار فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  3. MashaAllah bah na
    Allah pak mazeed qamyab key.Ameen

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءالله ماشاءالله بہت اچھا لگا بلکہ پڑھ کر میری حوصلہ افزائی ہو گئی
    😂😍😍😍😻😻
    میرے اندر بھی لکھنے کے جذبات ابھر رہے ہیں ❤❤
    اس مقالے کی خاصیت یہ ہے اس نے میرا ربط نہیں ٹوٹنے دیا۔
    بہت بہت شاباش 😂💕💕💕💕😍😍😍😍

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ
      یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
      جزاک اللہ خیرا😍
      ویسے یہ مقالہ نہیں کہلائے گا کیوں کہ تحقیق شامل نہیں اس میں۔ کہانی یا آپ بیتی کہہ سکتے ہیں اسے۔😊

      حذف کریں
  5. ماشاءاللہ بہت عمدہ لکھا ہے۔ اللہ آپ کے خیالات میں مزید وسعت اور قلم میں مزید طاقت دے۔ اللہ آپکو مزید کامیابیوں سے نوازے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. اللہ آپ کو حاسدین کے شر سے محفوظ فرما کر ترقی کی راہوں پر گامزن رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی