سیرت شاعرِ رسول حضرت عبد اللہ ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
عنوان: سیرت شاعرِ رسول حضرت عبد اللہ ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ
عبد اللہ بن رواحہؓ صحابئ رسولﷺ تھے، جو انصار میں سے تھے۔ آپؓ ان بارہ نقیبوں میں شامل تھے، جنہوں نے آپ ﷺ سے بیعت عقبہ ثانیہ کی۔ آپ شاعر بھی تھے۔ ذیل میں آپ کا مختصر تعارف بیان کیا جارہا ہے۔
اسم گرامی: 
آپؓ کا مکمل نام عبد اللہ بن رواحہؓ ہے۔ 
لقب: 
آپؓ کا لقب شاعر رسول ﷺ ہے۔ 
کنیت: 
آپؓ کی کنیت ابو محمد ہے، بعض نے ابو رواحہ اور ابو عمر بیان کی ہے۔
تعلق اور قبیلہ: 
آپؓ کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنی حارث سے تھا۔
نسب: 
ابن ثعلبہ بن امرئ القیس نبن عمرو بن امرئ القیس بن مالک الاغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج الانصاری خزرجی
والدین: 
آپؓ کے والد کا نام ثعلبہ تھا اور آپؓ کی والدہ کا نام کبشہ بنت واقد بن عمرو بن الاطابہ خزرجیہ ہے۔ 
اولاد: 
تاریخ کی کتب میں آپؓ کی اولاد سے متعلق ذکر نہیں ملتا۔ بعض جگہ بیان ہوا ہے کہ آپؓ صاحب اولاد نہ تھے۔ آپ کی نسل آگے نہیں چلی۔
سیرت شاعرِ رسول حضرت عبد اللہ ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ
قبول اسلام:
آپؓ ان بارہ نقیبوں میں شامل تھے، جنہوں نے مصعب بن عمیرؓ کی دعوت پر لیلۃ العقبہ میں آنحضرتﷺ سے بیعت کی اور اسلام قبول کیا۔
آپؓ کا مقام و مرتبہ: 
آپؓ قبیلے کے سردار تھے۔ آپ ﷺ نے ان کو قبیلہ بنی حارث ہی کی طرف بیعت کے بعد اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔
زمانہ جاہلیت میں آپؓ کا مرتبہ:
آپؓ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چند لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آپ اکثر وحی کی کتابت بھی کیا کرتے تھے۔
آپﷺ کا مدینہ میں استقبال:
آپ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؓ نے بھی ان کا استقبال کیا اور قیام کے لیے اپنے گھر پر مدعو کیا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شرف حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے حصے میں آیا۔
مواخات:
آپؓ انصار میں سے تھے، نبی اکرمﷺ نے آپؓ کے ساتھ مقداد بن اسود کو مواخات کے رشتے میں باندھا۔
غزوات میں شرکت:
آپؓ نے تمام غزوات میں شرکت کی لیکن فتح مکہ کے موقع پر آپؓ شرکت نہ کرسکے۔
غزوہ بدر کے موقع پر آپؓ نے ہی فتح کی خبر سنائی تھی۔
آپؓ کا جذبہ و شجاعت:
آپؓ جہاد کے لیے ہمہ وقت ہمہ پرجوش رہتے تھے۔ ایک راویت میں ہے کہ:
‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏قَالَ: حَضَرْتُ حَرْبًا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: يَا نَفْسِ أَلَا أَرَاكِ تَكْرَهِينَ الْجَنَّهْ أَحْلِفُ بِاللَّهِ لَتَنْزِلِنَّهْ طَائِعَةً أَوْ لَتُكْرَهِنَّهْ.
ترجمہ:
"انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ  میں ایک لڑائی میں حاضر ہوا، تو عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا : اے میرے نفس ! میرا خیال ہے کہ تجھے جنت میں جانا ناپسند ہے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تجھے جنت میں خوشی یا ناخوشی سے جانا ہی پڑے گا"۔ (سنن ابن ماجہ: 2793 ) 
جہاد کا طرز عمل:
آپؓ جنگوں میں جانے کے لیے گھر سے سب سے پہلے نکلتے اور واپسی سب سے آخر میں لوٹتے تھے۔
آپؓ کی بہن کا گریہ وزاری:
ایک موقع پر آپ کی بہن آپؓ کی علالت کی وجہ سے گریہ وزاری کررہی تھیں اس بات کو نعمان بن بشیر نے یوں بیان کیا کہ:
عبداللہ بن رواحہؓ پر  (ایک مرتبہ کسی مرض میں)  بےہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ والدہ نعمان بن بشیر یہ سمجھ کر کہ کوئی حادثہ آگیا ‘ عبداللہ بن رواحہؓ کے لیے پکار کر رونے لگیں۔ ہائے میرے بھائی ہائے ‘ میرے ایسے اور ویسے۔ ان کے محاسن اس طرح ایک ایک کر کے گنانے لگیں لیکن جب عبداللہ ؓ کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ تم جب میری کسی خوبی کا بیان کرتی تھیں تو مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا تم واقعی ایسے ہی تھے۔ (صحیح بخاری4267 )
آپؓ کے جنگ میں اشعار:
آپؓ جنگ میں دشمنوں پر تیر  برسانے کے ساتھ ساتھ اشعار بھی پڑھا کرتے تھے روایت میں ہے کہ:
ترجمہ: براء بن عازبؓ نے بیان کیا کہ  میں نے دیکھا کہ غزوہ احزاب میں  (خندق کھودتے ہوئے)  رسول اللہ  ﷺ  خود مٹی اٹھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ سینہ مبارک کے بال مٹی سے اٹ گئے تھے۔ آپ  ﷺ  کے  (جسم مبارک پر)  بال بہت گھنے تھے۔ اس وقت آپ  ﷺ  عبداللہ بن رواحہ (رض) کا یہ شعر پڑھ رہے تھے   اے اللہ ! اگر تیری ہدایت نہ ہوتی تو ہم کبھی سیدھا راستہ نہ پاتے ‘ نہ صدقہ کرسکتے اور نہ نماز پڑھتے۔ اب تو، یا اللہ ! ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان عطا فرما ‘ اور اگر  (دشمنوں سے مڈبھیڑ ہوجائے تو ہمیں ثابت قدم رکھ ‘ دشمنوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی ہے۔ جب بھی وہ ہم کو فتنہ فساد میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں۔   آپؓ یہ شعر بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔ (بخاری: 3034)
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ: 
ترجمہ:
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہؓ  آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے : خلوا بني الکفار عن سبيله اليوم نضربکم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله  اے کافروں کی اولاد ! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ  (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو) ، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خواب گاہوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو اپنے دوست سے غافل کر دے گی، تو عمرؓ  نے ان سے کہا : ابن رواحہ ! رسول اللہ  ﷺ  کے سامنے اور اللہ عزوجل کے حرم میں تم شعر پڑھتے ہو ؟ نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا :  چھوڑو ان کو  (پڑھنے دو )  کیونکہ یہ ان پر تیر سے زیادہ اثرانداز ہیں ۔ (سنن  نسائی 2876)
شعر و شاعری میں مہارت، شاعروں کے متعلق قرآن کی آیات اور آپؓ کی پریشانی:
اللہ تعالی نے جن سورۃ الشعراء کی آیات نازل ہوئیں تو آپؓ بہت پریشان ہوئے۔ حاضر خدمت ہوئے اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو آپﷺ نے ان کو تسلی دی کہ ایمان والے اس سے مستثنی ہیں۔ وہ آیات یہ تھیں.
وَالشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الۡغَاوٗنَؕ ۞ اَلَمۡ تَرَ اَنَّهُمۡ فِىۡ كُلِّ وَادٍ يَّهِيۡمُوۡنَۙ ۞ وَاَنَّهُمۡ يَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا يَفۡعَلُوۡنَۙ ۞ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّانْتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا‌ ؕ وَسَيَـعۡلَمُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَىَّ مُنۡقَلَبٍ يَّـنۡقَلِبُوۡنَ  ۞ 
ترجمہ:
رہے شاعر لوگ، تو ان کے پیچھے تو بےراہ لوگ چلتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں؟ اور یہ کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں. ہاں مگر وہ لوگ مستثنی ہیں جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کیے، اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا، اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا بدلہ لیا۔  اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ وہ کس انجام کی طرف پلٹ رہے ہیں۔  (سورۃ الشعراء:224 تا 227)
امام بخاری اس متعلق روایت نقل کرتے ہیں کہ:
راوی نے ابوہریرہؓ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر کر رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ  تمہارے بھائی نے  (اپنے نعتیہ اشعار میں)  یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبداللہ بن رواحہؓ  اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے :  ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ  ﷺ  نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جا کر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ  ﷺ  رات بستر سے اپنے کو الگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں۔ (صحیح بخاری:1155)
آپﷺ کا بطور مثال عبد اللہ بن رواحؓہ کا شعر پیش کرنا:
نبی اکرم ﷺ مثال کے لیے عبد اللہ بن رواحہؓ کے اشعار بھی پیش کیا کرتے تھے۔ روایت میں ہے کہ:
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ  ان سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ  ﷺ  کبھی کوئی شعر بطور مثال اور نمونہ پیش کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، رسول اللہ  ﷺ  ابن رواحہ ؓ کا شعر بطور مثال پیش کرتے تھے، آپ کہتے تھے : «ويأتيك بالأخبار من لم تزود» (جامع ترمذی 2848)
امام ترمذی اس کی وضاحت بھی پیش کرتے ہیں کہ:
پورا شعر اس طرح ہے : «ستبدی لک الأيام ماکنت جاهلا ويأتيك بالأخبار من لم تزود»  زمانہ تمہارے سامنے وہ چیزیں ظاہر اور پیش کرے گا جن سے تم ناواقف اور بیخبر ہو گے ، اور تمہارے پاس وہ آدمی خبریں اور اطلاعات لے کر آئے گا جس کو تم نے خرچہ دے کر اس کام کے لیے بھیجا بھی نہ ہوگا۔   
آپ ﷺ کی دعا کی برکت:
ایک مرتبہ آپؓ اشعار پڑھ رہے تھے۔ نبیﷺ نے اشعار سن کر فرمایا کہ "اے ابن رواحہ! اللہ تم کو ثابت قدم رکھے۔ ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی اس دعا کی برکت سے اللہ نے ان کو ثابت قدم رکھا حتی کہ شہادت پائی اور ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے گئے۔
آپؓ کے متعلق نبی ﷺ کے کلمات:
امام ابن حجر عسقلانی الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں نقل کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"عبد اللہ بن رواحہ بہترین آدمی ہے"۔
رسول اللہ ﷺ کی عزت وفرمانبرداری:
ایک مرتبہ آپؓ نماز کے لیے گھر سے نکلے مسجد کے دروازے پر پہنچے تھے کہ آپ ﷺ نے سب کو بیٹھنے کا حکم دیا۔ آپؓ نے سنا تو فورا جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے کسی نے بعد میں اس بات کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ نے عبد اللہ بن رواحہؓ کو دعا دی۔
پرہیزگاری:
آپؓ کا زہدو تقوی انتہائی اعلی درجے کا تھا۔ اس متعلق امام بخاری ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ آپؓ سفر میں بھی روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔
ترجمہ:
ابودرداءؓ نے کہا ہم نبی کریم  ﷺ  کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے۔ دن انتہائی گرم تھا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ لیتے تھے، نبی کریم  ﷺ  اور ابن رواحہ ؓ کے سوا کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔(صحیح بخاری 1945)
اسی طرح آپؓ جب کسی ساتھی سے ملتے تو کہتے: "آؤ گھڑی بھر اپنے رب پر ایمان لانے کی یاد تازہ کرلیں۔ اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا:
"اللہ تعالی ابن رواحہ پر رحم فرمائے، اسے ایسی مجالس سے محبت ہے جن پر فرشتے فخر کرتے ہیں"۔
عمرۃ القضاء کے موقع پر آپؓ کا شرف:
عمرۃ القضاء کے موقع پر آپ نے نبی اکرم ﷺ کی ناقہ کی مہار پکڑی ہوئی تھی۔ آپؓ آگے آگے چل رہے تھے اور اشعار پڑھتے جارہے تھے۔
کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لیے معمور:
آپؓ کھجوروں کے پک کر تیار ہوجانے کا اندازہ بخوبی لگایا کرتے تھے۔ آپﷺ  اکثر اس کام کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ روایت میں ہے کہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ خیبر کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  عبداللہ بن رواحہ (رض) کو یہودیوں کے پاس بھیجتے تو وہ کھجور کو اس وقت اندازہ لگاتے جب وہ پکنے کے قریب ہوجاتی قبل اس کے کہ وہ کھائی جاسکے۔ (سنن ابوداؤد1606)
اسلامی لشکر کی سربراہی:
نبی ﷺ نے آپؓ کو کئی بار جنگ کے لشکر کی سربراہی عطا فرمائی۔ جنگ موتہ میں آپﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں زید بن حارثہؓ کو سرابراہ بناتا ہوں۔ اگر یہ شہید کردیے گئے تو جعفر بن ابی طالبؓ سربراہ ہوں گے۔ اگر یہ بھی شہید کردیے گئے تو عبد اللہ بن رواحہؓ کو سربراہ منتخب کیا جائے. اگر یہ بھی شہید کردیے جائیں تو مسلمان سربراہ خود منتخب کرلیں۔
عبد اللہ بن رواحہؓ کی گریہ وزاری: 
جب جنگ موتہ کے لیے لشکر تیار ہوگیا تو آپﷺ لشکر کو الوداع کہنے آئے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ رونے لگے۔ لوگوں کے پوچھا! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: خدا کی قسم! دنیا کی محبت یا تمہارے ساتھ میرا تعلق خاطر نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہﷺ  کو کتاب اللہ کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا ہے۔
وَاِنۡ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ‌ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتۡمًا مَّقۡضِيًّا‌ ۞ 
ترجمہ:
اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جس کا اس (دوزخ) پر گزر نہ ہو۔  اس بات کا تمہارے پروردگار نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔ (سورۃ المریم:71)

میں نہیں جانتا جہنم پر وارد ہونے کے بعد کیسے پلٹ سکوں گا؟ مسلمانوں نے کہا! اللہ سلامتی کے ساتھ آپ لوگوں کا ساتھی ہو اور آپ کا دفاع کرے اور آپ کو نیکی اور غنیمت کے ساتھ واپس لائے۔
اس کے بعد آپ نے چند اشعار کہے اور لشکر روانہ ہوا۔
وفات:
آپؓ نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش فرمایا، جو جمادی الاول سن آٹھ ہجری میں ہوئی۔ 
ترجمہ:
انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ زید نے جھنڈا سنبھالا لیکن وہ شہید ہوگئے۔ پھر جعفر نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت رسول اللہ  ﷺ  کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے۔  (آپ  ﷺ  نے فرمایا)  اور پھر خالد بن ولید نے خود اپنے طور پر جھنڈا اٹھا لیا اور ان کو فتح حاصل ہوئی۔ (صحیح بخاری  1246)
آخری کلمات: 
آپؓ نے شہادت کے وقت خون کو چہرے پر ملا اور آپؓ کی زبان پر یہ کلمات تھے۔: "اے مسلمانوں! اپنے بھائیوں کی جان کی حفاظت کرو۔
آخری وقت تک نبی کریمﷺ آپؓ سے راضی تھے، اللہ ان کو اپنے جوار رحمت جگہ فرمائے اور ان کے وسیلے سے ہم سب کی مغفرت فرمائے، آمین
حوالہ جات:
سنن ابن ماجہ، کتاب: جہاد کا بیان، باب: اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں قتال کرنا۔حدیث نمبر: 2793
صحیح بخاری، کتاب: جہاد اور سیرت رسول اللہ  ﷺ، باب: باب: جنگ میں شعر پڑھنا اور کھائی کھودتے وقت آواز بلند کرنا۔حدیث نمبر: 3034
صحیح بخاری، کتاب: غزوات کا بیان، باب: باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔ حدیث نمبر: 4106
صحیح بخاری، کتاب: غزوات کا بیان، باب: باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔حدیث نمبر: 4106
صحیح بخاری، کتاب: نماز قصر کا بیان، باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔حدیث نمبر: 1155
صحیح بخاری، کتاب: روزے کا بیان، باب: رمضان کے چند روزے رکھ کر سفر کرنے کا بیان۔حدیث نمبر: 1945
صحیح بخاری، کتاب: جنازوں کا بیان، باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر میت کے وارثوں کو سنا سکتا ہے۔حدیث نمبر: 1246
سنن نسائی، کتاب: میقاتوں سے متعلق احادیث، باب: حرم میں اشعار پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کے متعلق، حدیث نمبر: 2876
سنن ابوداؤد، کتاب: کتاب الزکوٰة، باب: کھجور کا اندازہ کب لگایا جائے؟ حدیث نمبر: 1606
جامع ترمذی، کتاب: آداب اور اجازت لینے کا بیان، باب: شعر پڑھنے کے بارے میں، حدیث نمبر: 2848
کتب:
الرحیق المختوم۔ صفی الرحمن مبارکپوری
اسد الغابة فی معرفة الصحابة- مؤلف ابن اثیر، مترجم مولانا محمد عبد الشکور فاروقی
الاصابة فی تمیز الصحابة- مؤلف امام ابن حجر عسقلانی، مترجم مولانا محمر عامر شہزاد علوی
واللہ اعلم بالصواب
٣_جنوری_۲۰۲١
١۸_جمادی الاول_١٤٤۲

8 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

  1. کافی عمدہ مواد ، عبداللہ بن رواحہ کو قریب سے دیکھا ، ہدایت یافتگی کے لیے شاعروں کی اتباع کرنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن ادب کی شعریات میں جو خیال بندی اور معنی آفرینی ہیں ، انہیں بھی تسلیم کرنی چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی