تحریر: سیدہ حفظہ احمد
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپؓ نبیﷺ کے جان نثار ساتھی تھے۔ آپؓ کی قربانیاں، آپؓ کی صداقت، ہمہ وقت رسول اللہ ﷺاور دین کی خدمت کے لیے پیش پیش رہتے۔ تاریخ میں کئی اوراق آپ کی سیرت پر لکھے جاچکے ہیں۔ ذیل میں گفتگو زیر بحث ہے۔
اسم گرامی ونسب نامہ:
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپؓ نبیﷺ کے جان نثار ساتھی تھے۔ آپؓ کی قربانیاں، آپؓ کی صداقت، ہمہ وقت رسول اللہ ﷺاور دین کی خدمت کے لیے پیش پیش رہتے۔ تاریخ میں کئی اوراق آپ کی سیرت پر لکھے جاچکے ہیں۔ ذیل میں گفتگو زیر بحث ہے۔
سیرت یارِ غار خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ |
قبل از اسلام آپؓ کا نام عبد الکعبہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد آپؓ کا نام نبی کریمﷺ نے عبد اللہ رکھا۔
آپؓ کا سلسۂ نسب والد اور والدہ دونوں کی طرف سے چھٹی پشت (مرہ بن کعب) پر نبی کریمﷺ تک جاملتا ہے۔
والد کی جانب سے آپؓ کا نسب یہ ہے: عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لؤی قریشی تیمی
والدہ کی جانب سے سلسہ نسب یہ ہے۔ ام الخیر سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب
کنیت:
آپؓ کی کنیت ابو بکر تھی۔
لقب:
آپؓ کا لقب عتیق تھا۔ لیکن جب آپؓ نے واقعہ معراج کی تصدیق فرمائی تو آپؓ کا لقب نبی اکرمﷺ نے صدیق رکھا اور اس کے بعد آپؓ کا یہ ہی لقب زیادہ مشہور ہوا۔
عتیق کی وجہ تسمیہ: صاحب اسد اغابہ فی معرفۃ الصحابہ لکھتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپؓ کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ ان کو عتیق کہتے تھے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ عتیق اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپؓ کے نسب میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو قابل عیب ہو۔
اور ایک وجہ یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا تھا۔
أنتَ عَتِیْقُ اللّہِ مِنَ النَّارِ یعنی "آپ اللہ کی طرف سے آتش جہنم سے عتیق (آزاد کردہ) ہیں۔
ایک روایت مین ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا۔ (حدیث نمبر: 3679)
صدیق کی وجہ تسمیہ: آپؓ نے حضور اکرمﷺ کی سفر معراج کی تصدیق کی اس نسبت سے آپؓ کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کا حوالہ کچھ یوں ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺکو مسجد اقصی تک سیر کرائی گئی اور صبح کے وقت لوگوں نے اس موضوع پر بات چیت شروع کی تو کچھ لوگ، جو آپ ﷺ پر ایمان لا چکے تھے اور آپﷺ کی تصدیق کر چکے تھے، مرتد ہو گئے، وہ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا: یہ آپ کا ساتھی اس قسم کا دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، اب آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ سیدنا ابوبکرؓ نے پوچھا: آیا آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: اگر نے ایسی بات کی ہے تو آپﷺ نے سچ فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم تصدیق کرو گے کہ آپﷺ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے پہلے واپس بھی آ گئے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: ہاں، (غور کرو کہ) میں تو ان امور میں بھی آپ ﷺکی تصدیق کرتا ہوں جو (تمہاری سمجھ کے مطابق) اس (وقوعہ) سے بھی مشکل اور بعید ہیں۔ میں تو صبح کے وقت آسمانی خبر یعنی آپؓ پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں، وہ صبح کو موصول ہو یا شام کو۔ اسی وجہ سے ابوبکرؓ کو ”صدیق“ کہا گیا۔
والدین:
آپؓ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا، ان کی کنیت ابو قحافہ تھی۔ آپؓ کی والدہ کا نام سلمٰی بنت صخر بن عامر تھا اور ان کی کنیت ام الخیر تھی۔
قبیلہ اور خاندان:
آپؓ قبیلہ قریش کی شاخ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کا خاندان زمانہ جاہلیت میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور صداقت کی وجہ سے مشہور ومعروف تھا۔ قریش کے قبیلوں کو ایک ایک ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ بنو تیم کے سپرد خون بہا اکٹھا کرنا تھا۔
پیدائش:
آپؓ نبی کریمﷺ سے تقریبا ڈھائی تین سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کی ولادت 573 ع مکہ شہر میں ہوئی۔
حلیہ مبارک:
آپؓ سفید رنگ اور نحیف جسم کے مالک تھے، ہلکے رخسار اور سپاٹ چہرہ تھا۔ پیشانی قدرے ابھری ہوئی تھی، داڑھی پر خضاب لگاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؓ سفید رنگ والے تھے، سر کے بال قدرے گھنگریالے تھے اور کاندھے ابھرے ہوئے تھے۔ مناسب قدوقامت کے مالک تھے۔
اوصاف حمیدہ:
امام ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ آپؓ عرب کے سب سے بڑے نسب دان تھے، انسابِ قریش کے زبردست عالم تھے۔ قریش کی اچھائیوں اور برائیوں سے خوب واقف تھے، خوش اخلاق تاجر تھے اور مشہور ومعروف شخصیت کے مالک تھے۔ آپؓ اپنی قوم کے ہر دل محبوب شخص تھے۔ لوگ آپ کے علم اور تجربہ کاری کے سایہ تلے رہتے تھے۔ آپؓ حسنِ مجلس ہوتے تھے، جس پر آپؓ کا اعتماد ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے تھے، آپؓ کے ہاتھ پر بے شمار صحابہ نے اسلام قبول کیا۔
آپؓ کو شعر و سخن سے بھی ذوق تھا۔ آپؓ کا دل رحم اور ایثار کے جذبے سے سر شار تھا۔ آپؓ خطابت میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ تواضع اور سادگی بھی آپؓ کے کردار میں نمایاں تھی۔ زہد و تقوی بھی آپ کے اخلاق کا نمایاں پہلو تھا۔
پیشہ:
آپؓ کپڑوں کے تاجر تھے۔ اسی سے آپ کا گزربسر ہوتا تھا، اور خوش حال زندگی بسر کرتے تھے۔
ازواج:
آپؓ کی متعدد اوقات میں متعدد شادیوں کا ذکر ملتا ہے:
اسلام سے قبل آپ نے عامر بن لوی کے خاندان سے قتیلہ بنت عبد العزی سے شادی کی۔
آپؓ نے اسلام سے قبل ہی دوسری شادی کنانہ کے خاندان میں ام رومانؓ بنت عامر سے کی۔
اسلام کے بعد آپؓ نے خاندان خشعم میں اسماء بنت عمیسؓ سے شادی کی۔
اس کے بعد آپؓ نے خاندان خزرج میں حبیبہ بنت خارجہؓ سے نکاح کیا۔
اولاد:
آپ کی اولاد میں تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں شامل ہیں، جن کے نام یہ ہیں:
عبد اللہ، اسماء بنت ابی بکرؓ (قتیلہ بنت عبد العزی سے)
عبد الرحمٰنؓ، حضرت عائشہؓ (ام رومان سے)
محمد بن ابی بکرؓ (اسماء بنت عمیس سے)
ام کلثوم (حبیبہ بنت خارجہ سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد پیدائش ہوئیں)
قبول اسلام:
آپؓ وہ پہلے خوش نصیب مرد ہیں، جنہوں نےنبوت کی خبر سنتے ہی اسلام قبول کیا۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے، یعنی پہلے پہل اسلام قبول کرنے والے۔
عشرہ مبشرہ: آپؓ ان دس خوش نصیب صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کو دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری سنادی گئی تھی۔
قبول اسلام کے وقت اسلام کی خدمت:
آپؓ نے اسلام قبول کرتے ہی دین کی خدمت کے لیے نقد چالیس ہزار درہم خرچ کیے۔
دین کی نشرواشاعت میں آپؓ کا کردار:
آپؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد خود اپنے حلقہ احباب میں دین کی دعوت دینا شروع کی۔ آپؓ کی دعوت سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا جو مکے کے امراء میں شامل تھے۔ جن میں سر فہرست یہ ہیں:
حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، عبد الرحمٰن بن عوفؓ وغیرہ
نبی اکرمﷺ سے رشتہ داری:
آپؓ نبی اکرمﷺ کے بہترین دوست اور صحابی تھے، اس کے علاوہ آپ ؓ نبی اکرمﷺ کے سسر بھی تھے۔ آپ ؓ کی چھوٹی بیٹی حضرت عائشہ آپﷺ کے نکاح میں تھیں۔
سعادت اور شرف:
آپؓ کے خاندان کی چار نسلوں کو آپﷺ کی صحبت کا شرف نصیب ہوا، آپؓ کے والدین صحابی تھے، آپؓ خود صحابی تھے، آپؓ کی اولاد (صاحبزادے اور صاحبزادیاں) اصحاب میں شامل ہیں اور آپؓ کے نواسے عبد اللہ بن زبیرؓ کو بھی آپﷺ کی صحبت میسر آئی۔ اس طرح آپؓ کے خاندان کی مسلسل چار نسلیں آپ ﷺ کی صبحت سے مستفید ہوئیں۔
غلاموں کو آزاد کروانے کا جوش وجذبہ اور اللہ کی طرف سے رضامندی کی خوش خبری:
آپؓ غلاموں کو خرید کر آزاد کردیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی کو آپؓ کی یہ ادا بہت پسند آئی کہ معلوم ہوتا سورۃ اللیل کی آخری آیات آپ کے لیے ہی نازل ہوئی تھیں۔
وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ۞ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى۞ وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ۞ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰى۞ وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى۞
ترجمہ:
اور اس سے ایسے پرہیزگار شخص کو دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے (اللہ کے راستے میں) دیتا ہے۔ حالانکہ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں تھا جس کا بدلہ دیا جاتا۔البتہ وہ صرف اپنے اس پروردگار کی خوشنودی چاہتا ہے جس کی شان سب سے اونچی ہے۔ یقین رکھو ایسا شخص عنقریب خوش ہوجائے گا۔(سورۃ الليل :17تا 21)
یہ سورۃ اللیل کی آخری آیات ہیں اس کے شان نزول کے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت آپ ہی کی تعریف میں نازل ہوئیں۔
شیخ الہند حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی رح اپنی تفسیر معارف القرآن میں یوں بیان کرتے ہیں کہ:
الفاظ آیت کے تو عام ہیں جو شخص بھی ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اس کے لئے یہ بشارت ہے لیکن شان نزول کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مراد اس لفظ اتقیٰ سے حضرت صدیق اکبرؓ ہیں ابن ابی حاتم نے حضرت عروہؓ سے روایت کیا ہے کہ سات مسلمان ایسے تھے جن کو کفار مکہ نے اپنے غلام بنایا ہوا تھا جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنا بڑا مال خرچ کر کے ان کو کفار سے خرید کر آزاد کردیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
چند مشہور صحابی جن کو آپؓ نے آزاد کروایا تھا ان کے نام یہ ہیں:
حضرت بلالؓ، عامر بن فہیرہؓ، خباب بن ارت ؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ
مقام و مرتبہ آپ ﷺ کی نظر میں:
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِيلًا وَلَکِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي وَقَدْ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَکُمْ خَلِيلًا
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں (اللہ کے سوا) کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن حضرت ابوبکرؓ تو میرے بھائی اور میرے صحابی (ساتھی) ہیں اور تمہارے صاحب کو تو اللہ عزوجل نے خلیل بنا لیا ہے۔ (صحیح مسلم:6172)
آپ ﷺکی محبت صدیق اکبر کے لیے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَی جَيْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْکَ قَالَ عَائِشَةُ قُلْتُ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوهَا قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ عُمَرُ فَعَدَّ رِجَالًا
ترجمہ:
حضرت عمرو بن العاصؓ خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ذات السلام کے لشکر کے ساتھ بھیجا تو جب میں واپس آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ سے۔ میں نے عرض کیا مردوں میں سے کس سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ کے باپ (حضرت ابوبکرؓ) سے، میں نے عرض کیا پھر کس سے ؟ آپ نے فرمایا حضرت عمرؓ سے، پھر آپ نے بہت سے آدمیوں کا نام شمار کیا۔ صحیح مسلم 6177
یہ بھی پڑھیں
عشق رسولﷺ:
اسلام کے شروعاتی دنوں میں آپؓ بھی خطیب وداعی کی حیثیت سے لوگوں کو وعظ کرکے دین اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ وعظ دے رہے تھے مشرکین مکہ نے چاروں طرف سے حملہ کیا اور وہاں موجود تمام مسلمانوں کو زدوکوب کیا گیا۔ آپؓ کے چہرے پر اس قدرشدید ضرب لگائی کہ ناک اور منہ معلوم نہ ہوتا تھا، آپؓ شدید زخمی ہوئے اور بے ہوش ہوگئے۔ آپؓ کے قبیلے کے لوگوں نے آکر آپؓ کو بچایا اور گھر لے گئے۔ اس قدر بے ہوشی طاری تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپؓ زخموں کی تاب نہ لاسکیں گے اور اب زندہ نہ رہ سکیں گے۔ صبح سے شام ہوچکی تھی۔ مگر آپ پر بے ہوشی طاری تھی جیسے ہی آپؓ کو ہوش آیا تو سب سے پہلے آپؓ نے یہ بات معلوم کی کہ میرے آقا کیسے ہیں؟ آپؓ کی والدہ کھانے پر اصرار کرتی رہیں، مگر مسلسل آپؓ اسی سوال کا جواب مانگتے رہے حضور کا کیا حال ہے؟ والدہ کو کہا فورا ام جمیل سے معلوم کرکے آئیں۔ ام جمیل نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور آپ کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے آئیں اور چپکے سے نبی اکرم کی خبر آپؓ کو دے دی اور بتایا کہ آپ دار ارقم میں ہیں۔ رات کے اندھیرے میں آپؓ ام جمیل اور اپنی والدہ کے کاندھے پر ٹیک لگائے دار خدمت اقدس میں جاپہنچے جب آپ کو دیکھا تو حضرت ابو بکرؓ جھک پڑے اور آپ کی پیشانی مبارک کو چوم لیا اور زاروقطار رونے لگے اپنے دوست کی اس حالت زار کو دیکھ کر آپ بھی رو پڑے۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان! ان بدبختوں نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے مجھے اب اس کا کوئی دکھ نہیں (یعنی آپ کی زیارت اور آپ کی سلامتی کو دیکھ کر آپ کے دل کو چین آگیا)۔
ہجرت مدینہ:
جب قریش مکہ کی طرف مسلمانوں پر مظالم کی انتہا ہوگئی اور مدینہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہہ دیا تو آہستہ آہستہ تمام لوگوں نے مدینہ ہجرت کرنی شروع کی۔ آخر میں صرف مجبور اور لاچار مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے مگر تین لوگ ایسے تھے جو مجبور و لاچار نہ تھے مگر اب بھی ہجرت کرنے سے رکے ہوئے تھے۔ ایک خود نبی اکرمﷺ جو اللہ کی اجازت کے منتظر تھے، ایک حضرت علیؓ جن کو نبی اکرمﷺ نے روکا ہوا تھا اور ایک حضرت ابو بکر صدیقؓ جو آپ کی اجازت کے منتظر تھے۔ آپؓ نے کئی بار آپﷺ سے اجازت طلب کی مگر آپﷺ نے ان کو یہ کہا کہ "لا تجعل یا ابابکر! لعل اللہ یجعل لک صاحبا" یعنی اے ابو بکر! جلدی نہ کرو، شاید اللہ تمہارے لیے کسی ہمسفر کا انتظام فرمادے۔
اب وہ ہمسفر کون ہوگا؟ آپؓ کئی بار یہ بات سوچتے تھے، کئی بار اس بات کو سوچ کر خوش ہوتے کہ شاید رسول اللہ ﷺ ہی میرے ہمسفر ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دن نبی اکرم ﷺہمارے گھر تشریف لائے اور ہجرت کا حکم دیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ جو ان کے والد تھے ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ پڑے۔ حضرت عائشہ یہ سب دیکھ رہی تھیں اس وقت آپؓ پر یہ راز عیاں ہوا کہ غمی کے آنسو تو ہوتے ہیں مگر خوشی کے آنسو بھی ہوتے ہیں۔
سفر ہجرت:
آپؓ فرماتے ہیں کہ: میں نبی کریمﷺ کے ساتھ سفر کررہا تھا تو میں کبھی آگے چلتا، کبھی پیچھے چلتا، کبھی دائیں تو کبھی بائیں۔ حضور اکرم نے میری اس کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھ سے دریافت کیا تو میں نے کہا کہ: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچادے اس لیے میں اس کیفیت میں مبتلا ہوں۔ تو نبی اکرمﷺ نے ان کو اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں! اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
یارِ غار:
دونوں حضرات کی پہلی منزل غار ثور تھی۔ غار میں داخل ہونے سے آپؓ نے پہلے اندر کا جائزہ لیا کہ کہیں کوئی دشمن آپ جو نقصان پہنچانے کے لیے نہ چھپا بیٹھا ہو، جب خوب اطمینان ہوگیا تب آپؓ نے اندر تشریف لانے کی التجا کی۔ غار کے تمام سوراخوں کو بند کردیا کہ کہیں کوئی موذی جانور آپ کو نقصان نہ پہنچادے۔ آپﷺ اپنے رفیق انور کے زانوئے مبارک پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے کہ ایک سوراخ جسے آپؓ نے اپنے انگوٹھے سے بند کیا ہوا تھا (اور اس میں سانپ موجود تھا) اس سوراخ سے صدیق اکبر کو سانپ نے ڈس لیا۔ آپؓ نے ذرا بھی حرکت نہ کی کہ کہیں آپﷺ کے آرام میں کوئی خلل نہ پڑے۔ زہر اثر کرنے لگا دردوکرب کے باعث آپ کے آنسو کی لڑیاں بہہ پڑی اور اس کا ایک قطرہ آپﷺ کے چہرہ انور پر بھی گرپڑا، جس سے آپﷺ بیدار ہوگئے۔ اس کیفیت کی وجی پوچھی تو آپؓ نے بتایا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے تو اللہ کے نبیﷺ نے فورا اپنا لعب دہن لگایا تو اس سے زہر کا اثر جاتا رہا۔
ادھر قریش مکہ ڈھونڈتے ہوئے آئے اور غار کے باہر تک آپہنچے تھے تو آپؓ نے ابوبکر صدیق کو کہا: آپ غم نہ کیجیے اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا
ترجمہ:
اگر تم ان کی (یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) مدد نہیں کرو گے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ) اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت (مکہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ : غم نہ کرو اللہ ہمارا ساتھی ہے۔ (سورۃ التوبة 40)
یہ اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں:
أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيقَ حَدَّثَهُ قَالَ نَظَرْتُ إِلَی أَقْدَامِ الْمُشْرِکِينَ عَلَی رُئُوسِنَا وَنَحْنُ فِي الْغَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَی قَدَمَيْهِ أَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ فَقَالَ يَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا
ترجمہ:
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مشرکوں کے پاؤں اپنے سروں پر دیکھے جب کہ ہم غار میں تھے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ان مشرکوں میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابوبکر ! تیرا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ ہے۔ (صحیح مسلم : 6169)
مواخات:
نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد سب سے اہم کام سرانجام دیا جسے مواخات (بھائی چارہ) کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر ایک مہاجر صحابی کو انصاری صحابی کا بھائی بنادیا تاکہ وہ ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں اس سلسلے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی کو ایک صحابی حضرت خارجہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک کردیا۔
جنتی کون؟
ایک بار مجلس میں خطبہ دے رہے تھے. آپؓ نے پوچھا کہ کوئی ہے جس نے آج یہ اور یہ کام کیے ہیں، ہر بار صدیق اکبرؓ نے جواب دیا جی ہاں! تو نبی اکرمؓ نے جواب دیا کہ جس نے یہ سب کام کیے وہ جنتی ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ مِسْکِينًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے روزہ کی حالت میں صبح کی (یعنی روزہ رکھا ؟ ) حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے روزہ رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا آج کے دن تم میں سے کون کسی جنازے کے ساتھ گیا ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں گیا ہوں، آپ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے، آپ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے کسی بیمار کی تیمار داری کی ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے، آپؓ نے فرمایا جس میں یہ ساری چیزیں جمع ہوگئیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (صحیح مسلم: 6182)
غزوات میں شرکت:
مسلمانوں کی ہجرت کے بعد ایک طرف تو مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے کہ مسلمان یہاں سے چلے گئے مگر دوسری طرف وہ حسد میں بھی مبتلا تھے کہ مسلمانوں کو پناہ کیسے مل سکتی ہے وہ خوش کیوں کر رہ سکتے ہیں؟ اسی طرح ایک تجارتی شاہراہ تھی جس کے ذریعے مشرکین مکہ تجارتی سفر کیا کرتے تھے وہ بھی مدینہ کے قریب تھی ان کو ڈر محسوس ہوا کہ کہیں مسلمان کہیں اپنے مظالم کا بدلہ لینے کے لیے راستے میں تنگ نہ کریں اس غرض سے سن دو ہجری میں وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور منہ کی کھانی پڑی۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف غزوات ہوئے۔ جس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور ایمان کے جذبے سے سرشار ہوکر بہادری سے لڑے۔ کئی مقامات پر فوج کی سربراہی آپؓ کے سپرد کی گئی۔
غزوہ احد کے بعد کفار مکہ کے پیچھے ایک جماعت کو بھیجنے والے لوگوں میں آپؓ بھی شامل تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر فوج کی کمان آپؓ کے سپرد تھی۔ غزوہ بنی مصطلق میں آپ کے ہم رکاب تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ جس شان سے داخل ہوئے آپؓ بھی آپ کے ساتھ داخل ہوئے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپؓ نے اپنے گھر کا سارا سامان پیش کردیا۔ اسی سال آپؓ کو امیر حج منتخب کیا گیا۔
آپﷺ کی رحلت کے موقع پر:
جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو ہر ایک غم کی حالت میں تھا اس دن سے زیادہ غمزدہ دن مسلمانوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی ہر دل اضطراب کی حالت میں تھا اس خبر کے بعد جو جہاں تھا وہ وہیں ساکت ہوگیا تھا۔ حضرت عمرؓ بھی اس کیفیت میں تھے تلوار میان سے نکالے کہتے تھے کہ جس نے بھی کہا کہ حضور اکرمﷺ وفات پاچکے ہیں تو اس شخص کا سرقلم کردوں گا۔ اسی صورت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی وہ رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور شان دار خطبہ دیا کہ جو محمد ﷺکی عبادت کرتے تھے سن لیں کہ اب محمدﷺ وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتے تھے تو اللہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ یہ الفاظ مسلمانوں کے لیے تسلی اور سہارے کا باعث بنا۔ خطبے کے بعد آپؓ نے جو آیت پڑھی اس سے لوگوں کے دلوں میں ایمان جگمگایا حالاں کہ تمام مسلمان اس آیت کو پڑھتے آرہے تھے مگر عین موقع پر اس کی تلاوت کرنا یوں معلوم ہوا جیسے کہ اسی وقت آیت نازل ہوئی ہو۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ
ترجمہ:
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔ (سورۃ آل عمران:144)
خلافت:
حضور اکرمﷺ کی وفات کے فوری مسئلہ جان نشینی کا تھا۔ آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکا جان نشین کون ہوگا۔ ابھی یہ سب سامنے ہی تھا کہ حضرت عمرؓ کو خبر ملی کہ انصار کے مابین سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر جان نشینی کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ اس نازک صورت حال میں حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کے ساتھ اس مقام پر پہنچے۔ یہ معاملہ اتنام سنگین تھا کہ آپؓ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا اسی صورت آپ نے مہاجرین میں سے دو لوگوں کا انتخاب کیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں سے جسے چاہیں اپنا خلیفہ بنالیں۔ حضرت عمرؓفورا کھڑے ہوئے اور آپ کا ہاتھ تھام کر کہا کہ آپ ہم سے بزرگ ہیں آپ کے جان نثار ساتھی ہیں ہم میں سب سے بہتر ہیں اس لیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔
یوں اس مجلس میں آپؓ کو خلیفہ رسولﷺ منتخب کیا گیا۔ اور حضرت عمرؓ کے بعد وہاں موجود تمام لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔(جو اس وقت وہاں موجود نہیں تھے انہوں نے بعد میں بیعت کرلی)۔
خلافت کے بعد مشکلات اور اس کا سدباب:
آپﷺ کی وفات کے بعد آپؓ کو ملت اسلامیہ خطرے میں نظر آرہی تھی۔ دشمنوں کی ساشیں مزید پختہ ہوگئیں تھیں۔ ان مشکلات میں مرتدین اسلام، منکرین زکوۃ اور مدعیان نبوت جیسے فتنے کھڑے ہوئے۔ آپؓ نے اپنی ذہانت سے ان کا سد باب کیا۔
تدوینِ قرآن ایک اہم کارنامہ:
آپؓ کے دور خلافت میں مرتدین پر قابو پانے کے لیےجنگ یمامہ ہوئی۔ اس جنگ میں ستر حفاظ کرام شہید ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ قرآن کو ایک کتابی شکل میں جمع کرلیا جائے تاکہ قرآن پچھلی کتابوں کی طرح ضائع نہ ہوجائے۔ پہلے تو حضرت ابو بکرؓ اس بات پر آمادہ نہ ہوئے۔ مگر پھر اللہ نے ان کو شرح صدر سے نوازا اور آپؓ نے اس کام کی سربراہی حضرت زید بن حارثہؓ کے سپرد کی۔ انہوں نے بہت احتیاط سے اس کام کو سر انجام دیا اور قرآن کو ایک کتابی صورت میں جمع کیا۔ آپؓ ہی کے دور خلافت میں قرآن کی کتابی شکل کو مصحف کہا گیا اور اسی نسبت کی وجہ سے آپ کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔
آپؓ کے دور خلافت میں فتوحات:
دو سال کے اس مختصر دور خلافت میں عراق اور شام فتح ہوئے۔
مرض الوفات کی شدت:
آپؓ کی وفات سے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپؓ شدید سردی میں غسل کی وجہ سے بیمار ہوئے اور بعض کے نزدیک ایک یہودی نے آپؓ کے کھانے میں زہر ملادیا تھا اس زہر کے اثر سے آپؓ بیمار ہوئے اور وفات پائی۔
سن 13ھ میں آپؓ بیمار ہوئے اور طبیعت زیادہ بگڑنے لگی۔ آپؓ کے ذہن میں سقیفہ بنی ساعدہ والا مسئلہ بھی تھا اس لیے آپؓ نے اپنا جان نشین منتخب کرنے کے لیے اکابر صحابہؓ کو مشورے کے لیے بلایا۔ آپؓ نے اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کا نام پیش کیا اور فیصلے کے بعد حضرت عثمانؓ نے اس کو وصیت کی صورت میں لکھا اور سب کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ آپؓ نے آخری وقت اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کو نصیحتیں کیں۔ بالآخر پندرہ دن بیمار رہ کر 13ھ بروز پیر 21 جمادی الثانی 63 برس کی عمر میں آپؓ خالق حقیقی سے جاملے۔
مدت خلافت:
آپؓ کی مدت خلافت دو سال تین مہینے دس دن ہے۔
کفن دفن، نماز جنازہ ومدفن:
وصیت کے مطابق آپؓ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے آپ کو غسل دیا اور تین کپڑوں میں کفنایا۔ ان میں سے دو پرانے تھے جو ان کے استعمال میں تھے۔ حضرت عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور نبی اکرمﷺ کے پہلو میں دائیں جانب دفن کیا گیا۔
واللہ اعلم بالصواب
مراجع و مصادر:
آیات قرآنی:
• سورۃ نمبر 92 الليل آیت نمبر 17
• سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 40
• سورۃ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 144
احادیث:
• جامع ترمذی کتاب: مناقب کا بیان حدیث نمبر: 3679
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں، حدیث نمبر: 6169
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں ،حدیث نمبر: 6182
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں حدیث نمبر: 6172
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں حدیث نمبر: 6177
کتب:
• اسد الغابة فی معرفة الصحابة- مؤلف ابن اثیر، مترجم مولانا محمد عبد الشکور فاروقی جلد نمبر ۲
• الاصابة فی تمیز الصحابة- مؤلف امام ابن حجر عسقلانی، مترجم مولانا محمر عامر شہزاد علوی جلد نمبر ٣
• اسلامی تاریخ - امتیاز پراچہ
• معارف القرآن از مفتی شفیع عثمانی جلد نمبر ۸
• البدایہ والنہایہ جلد ۳ صفحہ نمبر ۱۱۳
• عشرہ مبشرہ۔ بیادگار حضرت مولانا احمد حسن بھام سملکی رح (کاوش طلبہ جامعہ ڈابھیل مقالہ برائے عبد الرحیم کشمیری)
طالب دعا سیدہ حفظہ احمد
١_فروری_۲۰۲١
١٧_جمادی الثانی_١٤٤۲
آپؓ کا سلسۂ نسب والد اور والدہ دونوں کی طرف سے چھٹی پشت (مرہ بن کعب) پر نبی کریمﷺ تک جاملتا ہے۔
والد کی جانب سے آپؓ کا نسب یہ ہے: عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لؤی قریشی تیمی
والدہ کی جانب سے سلسہ نسب یہ ہے۔ ام الخیر سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب
کنیت:
آپؓ کی کنیت ابو بکر تھی۔
لقب:
آپؓ کا لقب عتیق تھا۔ لیکن جب آپؓ نے واقعہ معراج کی تصدیق فرمائی تو آپؓ کا لقب نبی اکرمﷺ نے صدیق رکھا اور اس کے بعد آپؓ کا یہ ہی لقب زیادہ مشہور ہوا۔
عتیق کی وجہ تسمیہ: صاحب اسد اغابہ فی معرفۃ الصحابہ لکھتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپؓ کے حسن و جمال کی وجہ سے لوگ ان کو عتیق کہتے تھے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ عتیق اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپؓ کے نسب میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو قابل عیب ہو۔
اور ایک وجہ یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا تھا۔
أنتَ عَتِیْقُ اللّہِ مِنَ النَّارِ یعنی "آپ اللہ کی طرف سے آتش جہنم سے عتیق (آزاد کردہ) ہیں۔
ایک روایت مین ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا۔ (حدیث نمبر: 3679)
صدیق کی وجہ تسمیہ: آپؓ نے حضور اکرمﷺ کی سفر معراج کی تصدیق کی اس نسبت سے آپؓ کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کا حوالہ کچھ یوں ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺکو مسجد اقصی تک سیر کرائی گئی اور صبح کے وقت لوگوں نے اس موضوع پر بات چیت شروع کی تو کچھ لوگ، جو آپ ﷺ پر ایمان لا چکے تھے اور آپﷺ کی تصدیق کر چکے تھے، مرتد ہو گئے، وہ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا: یہ آپ کا ساتھی اس قسم کا دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، اب آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ سیدنا ابوبکرؓ نے پوچھا: آیا آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: اگر نے ایسی بات کی ہے تو آپﷺ نے سچ فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم تصدیق کرو گے کہ آپﷺ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے پہلے واپس بھی آ گئے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: ہاں، (غور کرو کہ) میں تو ان امور میں بھی آپ ﷺکی تصدیق کرتا ہوں جو (تمہاری سمجھ کے مطابق) اس (وقوعہ) سے بھی مشکل اور بعید ہیں۔ میں تو صبح کے وقت آسمانی خبر یعنی آپؓ پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں، وہ صبح کو موصول ہو یا شام کو۔ اسی وجہ سے ابوبکرؓ کو ”صدیق“ کہا گیا۔
والدین:
آپؓ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا، ان کی کنیت ابو قحافہ تھی۔ آپؓ کی والدہ کا نام سلمٰی بنت صخر بن عامر تھا اور ان کی کنیت ام الخیر تھی۔
قبیلہ اور خاندان:
آپؓ قبیلہ قریش کی شاخ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کا خاندان زمانہ جاہلیت میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور صداقت کی وجہ سے مشہور ومعروف تھا۔ قریش کے قبیلوں کو ایک ایک ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ بنو تیم کے سپرد خون بہا اکٹھا کرنا تھا۔
پیدائش:
آپؓ نبی کریمﷺ سے تقریبا ڈھائی تین سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کی ولادت 573 ع مکہ شہر میں ہوئی۔
حلیہ مبارک:
آپؓ سفید رنگ اور نحیف جسم کے مالک تھے، ہلکے رخسار اور سپاٹ چہرہ تھا۔ پیشانی قدرے ابھری ہوئی تھی، داڑھی پر خضاب لگاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؓ سفید رنگ والے تھے، سر کے بال قدرے گھنگریالے تھے اور کاندھے ابھرے ہوئے تھے۔ مناسب قدوقامت کے مالک تھے۔
اوصاف حمیدہ:
امام ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ آپؓ عرب کے سب سے بڑے نسب دان تھے، انسابِ قریش کے زبردست عالم تھے۔ قریش کی اچھائیوں اور برائیوں سے خوب واقف تھے، خوش اخلاق تاجر تھے اور مشہور ومعروف شخصیت کے مالک تھے۔ آپؓ اپنی قوم کے ہر دل محبوب شخص تھے۔ لوگ آپ کے علم اور تجربہ کاری کے سایہ تلے رہتے تھے۔ آپؓ حسنِ مجلس ہوتے تھے، جس پر آپؓ کا اعتماد ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے تھے، آپؓ کے ہاتھ پر بے شمار صحابہ نے اسلام قبول کیا۔
آپؓ کو شعر و سخن سے بھی ذوق تھا۔ آپؓ کا دل رحم اور ایثار کے جذبے سے سر شار تھا۔ آپؓ خطابت میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ تواضع اور سادگی بھی آپؓ کے کردار میں نمایاں تھی۔ زہد و تقوی بھی آپ کے اخلاق کا نمایاں پہلو تھا۔
پیشہ:
آپؓ کپڑوں کے تاجر تھے۔ اسی سے آپ کا گزربسر ہوتا تھا، اور خوش حال زندگی بسر کرتے تھے۔
ازواج:
آپؓ کی متعدد اوقات میں متعدد شادیوں کا ذکر ملتا ہے:
اسلام سے قبل آپ نے عامر بن لوی کے خاندان سے قتیلہ بنت عبد العزی سے شادی کی۔
آپؓ نے اسلام سے قبل ہی دوسری شادی کنانہ کے خاندان میں ام رومانؓ بنت عامر سے کی۔
اسلام کے بعد آپؓ نے خاندان خشعم میں اسماء بنت عمیسؓ سے شادی کی۔
اس کے بعد آپؓ نے خاندان خزرج میں حبیبہ بنت خارجہؓ سے نکاح کیا۔
اولاد:
آپ کی اولاد میں تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں شامل ہیں، جن کے نام یہ ہیں:
عبد اللہ، اسماء بنت ابی بکرؓ (قتیلہ بنت عبد العزی سے)
عبد الرحمٰنؓ، حضرت عائشہؓ (ام رومان سے)
محمد بن ابی بکرؓ (اسماء بنت عمیس سے)
ام کلثوم (حبیبہ بنت خارجہ سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد پیدائش ہوئیں)
قبول اسلام:
آپؓ وہ پہلے خوش نصیب مرد ہیں، جنہوں نےنبوت کی خبر سنتے ہی اسلام قبول کیا۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے، یعنی پہلے پہل اسلام قبول کرنے والے۔
عشرہ مبشرہ: آپؓ ان دس خوش نصیب صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کو دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری سنادی گئی تھی۔
قبول اسلام کے وقت اسلام کی خدمت:
آپؓ نے اسلام قبول کرتے ہی دین کی خدمت کے لیے نقد چالیس ہزار درہم خرچ کیے۔
دین کی نشرواشاعت میں آپؓ کا کردار:
آپؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد خود اپنے حلقہ احباب میں دین کی دعوت دینا شروع کی۔ آپؓ کی دعوت سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا جو مکے کے امراء میں شامل تھے۔ جن میں سر فہرست یہ ہیں:
حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، عبد الرحمٰن بن عوفؓ وغیرہ
نبی اکرمﷺ سے رشتہ داری:
آپؓ نبی اکرمﷺ کے بہترین دوست اور صحابی تھے، اس کے علاوہ آپ ؓ نبی اکرمﷺ کے سسر بھی تھے۔ آپ ؓ کی چھوٹی بیٹی حضرت عائشہ آپﷺ کے نکاح میں تھیں۔
سعادت اور شرف:
آپؓ کے خاندان کی چار نسلوں کو آپﷺ کی صحبت کا شرف نصیب ہوا، آپؓ کے والدین صحابی تھے، آپؓ خود صحابی تھے، آپؓ کی اولاد (صاحبزادے اور صاحبزادیاں) اصحاب میں شامل ہیں اور آپؓ کے نواسے عبد اللہ بن زبیرؓ کو بھی آپﷺ کی صحبت میسر آئی۔ اس طرح آپؓ کے خاندان کی مسلسل چار نسلیں آپ ﷺ کی صبحت سے مستفید ہوئیں۔
غلاموں کو آزاد کروانے کا جوش وجذبہ اور اللہ کی طرف سے رضامندی کی خوش خبری:
آپؓ غلاموں کو خرید کر آزاد کردیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی کو آپؓ کی یہ ادا بہت پسند آئی کہ معلوم ہوتا سورۃ اللیل کی آخری آیات آپ کے لیے ہی نازل ہوئی تھیں۔
وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ۞ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى۞ وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ۞ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰى۞ وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى۞
ترجمہ:
اور اس سے ایسے پرہیزگار شخص کو دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے (اللہ کے راستے میں) دیتا ہے۔ حالانکہ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں تھا جس کا بدلہ دیا جاتا۔البتہ وہ صرف اپنے اس پروردگار کی خوشنودی چاہتا ہے جس کی شان سب سے اونچی ہے۔ یقین رکھو ایسا شخص عنقریب خوش ہوجائے گا۔(سورۃ الليل :17تا 21)
یہ سورۃ اللیل کی آخری آیات ہیں اس کے شان نزول کے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت آپ ہی کی تعریف میں نازل ہوئیں۔
شیخ الہند حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی رح اپنی تفسیر معارف القرآن میں یوں بیان کرتے ہیں کہ:
الفاظ آیت کے تو عام ہیں جو شخص بھی ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اس کے لئے یہ بشارت ہے لیکن شان نزول کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مراد اس لفظ اتقیٰ سے حضرت صدیق اکبرؓ ہیں ابن ابی حاتم نے حضرت عروہؓ سے روایت کیا ہے کہ سات مسلمان ایسے تھے جن کو کفار مکہ نے اپنے غلام بنایا ہوا تھا جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنا بڑا مال خرچ کر کے ان کو کفار سے خرید کر آزاد کردیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
چند مشہور صحابی جن کو آپؓ نے آزاد کروایا تھا ان کے نام یہ ہیں:
حضرت بلالؓ، عامر بن فہیرہؓ، خباب بن ارت ؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ
مقام و مرتبہ آپ ﷺ کی نظر میں:
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِيلًا وَلَکِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي وَقَدْ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَکُمْ خَلِيلًا
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں (اللہ کے سوا) کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن حضرت ابوبکرؓ تو میرے بھائی اور میرے صحابی (ساتھی) ہیں اور تمہارے صاحب کو تو اللہ عزوجل نے خلیل بنا لیا ہے۔ (صحیح مسلم:6172)
آپ ﷺکی محبت صدیق اکبر کے لیے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَی جَيْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْکَ قَالَ عَائِشَةُ قُلْتُ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوهَا قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ عُمَرُ فَعَدَّ رِجَالًا
ترجمہ:
حضرت عمرو بن العاصؓ خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ذات السلام کے لشکر کے ساتھ بھیجا تو جب میں واپس آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ سے۔ میں نے عرض کیا مردوں میں سے کس سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ کے باپ (حضرت ابوبکرؓ) سے، میں نے عرض کیا پھر کس سے ؟ آپ نے فرمایا حضرت عمرؓ سے، پھر آپ نے بہت سے آدمیوں کا نام شمار کیا۔ صحیح مسلم 6177
یہ بھی پڑھیں
عشق رسولﷺ:
اسلام کے شروعاتی دنوں میں آپؓ بھی خطیب وداعی کی حیثیت سے لوگوں کو وعظ کرکے دین اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ وعظ دے رہے تھے مشرکین مکہ نے چاروں طرف سے حملہ کیا اور وہاں موجود تمام مسلمانوں کو زدوکوب کیا گیا۔ آپؓ کے چہرے پر اس قدرشدید ضرب لگائی کہ ناک اور منہ معلوم نہ ہوتا تھا، آپؓ شدید زخمی ہوئے اور بے ہوش ہوگئے۔ آپؓ کے قبیلے کے لوگوں نے آکر آپؓ کو بچایا اور گھر لے گئے۔ اس قدر بے ہوشی طاری تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپؓ زخموں کی تاب نہ لاسکیں گے اور اب زندہ نہ رہ سکیں گے۔ صبح سے شام ہوچکی تھی۔ مگر آپ پر بے ہوشی طاری تھی جیسے ہی آپؓ کو ہوش آیا تو سب سے پہلے آپؓ نے یہ بات معلوم کی کہ میرے آقا کیسے ہیں؟ آپؓ کی والدہ کھانے پر اصرار کرتی رہیں، مگر مسلسل آپؓ اسی سوال کا جواب مانگتے رہے حضور کا کیا حال ہے؟ والدہ کو کہا فورا ام جمیل سے معلوم کرکے آئیں۔ ام جمیل نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور آپ کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے آئیں اور چپکے سے نبی اکرم کی خبر آپؓ کو دے دی اور بتایا کہ آپ دار ارقم میں ہیں۔ رات کے اندھیرے میں آپؓ ام جمیل اور اپنی والدہ کے کاندھے پر ٹیک لگائے دار خدمت اقدس میں جاپہنچے جب آپ کو دیکھا تو حضرت ابو بکرؓ جھک پڑے اور آپ کی پیشانی مبارک کو چوم لیا اور زاروقطار رونے لگے اپنے دوست کی اس حالت زار کو دیکھ کر آپ بھی رو پڑے۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان! ان بدبختوں نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے مجھے اب اس کا کوئی دکھ نہیں (یعنی آپ کی زیارت اور آپ کی سلامتی کو دیکھ کر آپ کے دل کو چین آگیا)۔
ہجرت مدینہ:
جب قریش مکہ کی طرف مسلمانوں پر مظالم کی انتہا ہوگئی اور مدینہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہہ دیا تو آہستہ آہستہ تمام لوگوں نے مدینہ ہجرت کرنی شروع کی۔ آخر میں صرف مجبور اور لاچار مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے مگر تین لوگ ایسے تھے جو مجبور و لاچار نہ تھے مگر اب بھی ہجرت کرنے سے رکے ہوئے تھے۔ ایک خود نبی اکرمﷺ جو اللہ کی اجازت کے منتظر تھے، ایک حضرت علیؓ جن کو نبی اکرمﷺ نے روکا ہوا تھا اور ایک حضرت ابو بکر صدیقؓ جو آپ کی اجازت کے منتظر تھے۔ آپؓ نے کئی بار آپﷺ سے اجازت طلب کی مگر آپﷺ نے ان کو یہ کہا کہ "لا تجعل یا ابابکر! لعل اللہ یجعل لک صاحبا" یعنی اے ابو بکر! جلدی نہ کرو، شاید اللہ تمہارے لیے کسی ہمسفر کا انتظام فرمادے۔
اب وہ ہمسفر کون ہوگا؟ آپؓ کئی بار یہ بات سوچتے تھے، کئی بار اس بات کو سوچ کر خوش ہوتے کہ شاید رسول اللہ ﷺ ہی میرے ہمسفر ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دن نبی اکرم ﷺہمارے گھر تشریف لائے اور ہجرت کا حکم دیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ جو ان کے والد تھے ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ پڑے۔ حضرت عائشہ یہ سب دیکھ رہی تھیں اس وقت آپؓ پر یہ راز عیاں ہوا کہ غمی کے آنسو تو ہوتے ہیں مگر خوشی کے آنسو بھی ہوتے ہیں۔
سفر ہجرت:
آپؓ فرماتے ہیں کہ: میں نبی کریمﷺ کے ساتھ سفر کررہا تھا تو میں کبھی آگے چلتا، کبھی پیچھے چلتا، کبھی دائیں تو کبھی بائیں۔ حضور اکرم نے میری اس کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھ سے دریافت کیا تو میں نے کہا کہ: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچادے اس لیے میں اس کیفیت میں مبتلا ہوں۔ تو نبی اکرمﷺ نے ان کو اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں! اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
یارِ غار:
دونوں حضرات کی پہلی منزل غار ثور تھی۔ غار میں داخل ہونے سے آپؓ نے پہلے اندر کا جائزہ لیا کہ کہیں کوئی دشمن آپ جو نقصان پہنچانے کے لیے نہ چھپا بیٹھا ہو، جب خوب اطمینان ہوگیا تب آپؓ نے اندر تشریف لانے کی التجا کی۔ غار کے تمام سوراخوں کو بند کردیا کہ کہیں کوئی موذی جانور آپ کو نقصان نہ پہنچادے۔ آپﷺ اپنے رفیق انور کے زانوئے مبارک پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے کہ ایک سوراخ جسے آپؓ نے اپنے انگوٹھے سے بند کیا ہوا تھا (اور اس میں سانپ موجود تھا) اس سوراخ سے صدیق اکبر کو سانپ نے ڈس لیا۔ آپؓ نے ذرا بھی حرکت نہ کی کہ کہیں آپﷺ کے آرام میں کوئی خلل نہ پڑے۔ زہر اثر کرنے لگا دردوکرب کے باعث آپ کے آنسو کی لڑیاں بہہ پڑی اور اس کا ایک قطرہ آپﷺ کے چہرہ انور پر بھی گرپڑا، جس سے آپﷺ بیدار ہوگئے۔ اس کیفیت کی وجی پوچھی تو آپؓ نے بتایا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے تو اللہ کے نبیﷺ نے فورا اپنا لعب دہن لگایا تو اس سے زہر کا اثر جاتا رہا۔
ادھر قریش مکہ ڈھونڈتے ہوئے آئے اور غار کے باہر تک آپہنچے تھے تو آپؓ نے ابوبکر صدیق کو کہا: آپ غم نہ کیجیے اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا
ترجمہ:
اگر تم ان کی (یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) مدد نہیں کرو گے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ) اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت (مکہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ : غم نہ کرو اللہ ہمارا ساتھی ہے۔ (سورۃ التوبة 40)
یہ اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں:
أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيقَ حَدَّثَهُ قَالَ نَظَرْتُ إِلَی أَقْدَامِ الْمُشْرِکِينَ عَلَی رُئُوسِنَا وَنَحْنُ فِي الْغَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَی قَدَمَيْهِ أَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ فَقَالَ يَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا
ترجمہ:
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مشرکوں کے پاؤں اپنے سروں پر دیکھے جب کہ ہم غار میں تھے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ان مشرکوں میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابوبکر ! تیرا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ ہے۔ (صحیح مسلم : 6169)
مواخات:
نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد سب سے اہم کام سرانجام دیا جسے مواخات (بھائی چارہ) کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر ایک مہاجر صحابی کو انصاری صحابی کا بھائی بنادیا تاکہ وہ ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں اس سلسلے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی کو ایک صحابی حضرت خارجہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک کردیا۔
جنتی کون؟
ایک بار مجلس میں خطبہ دے رہے تھے. آپؓ نے پوچھا کہ کوئی ہے جس نے آج یہ اور یہ کام کیے ہیں، ہر بار صدیق اکبرؓ نے جواب دیا جی ہاں! تو نبی اکرمؓ نے جواب دیا کہ جس نے یہ سب کام کیے وہ جنتی ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ مِسْکِينًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے روزہ کی حالت میں صبح کی (یعنی روزہ رکھا ؟ ) حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے روزہ رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا آج کے دن تم میں سے کون کسی جنازے کے ساتھ گیا ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں گیا ہوں، آپ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے، آپ نے فرمایا آج تم میں سے کسی نے کسی بیمار کی تیمار داری کی ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے، آپؓ نے فرمایا جس میں یہ ساری چیزیں جمع ہوگئیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (صحیح مسلم: 6182)
غزوات میں شرکت:
مسلمانوں کی ہجرت کے بعد ایک طرف تو مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے کہ مسلمان یہاں سے چلے گئے مگر دوسری طرف وہ حسد میں بھی مبتلا تھے کہ مسلمانوں کو پناہ کیسے مل سکتی ہے وہ خوش کیوں کر رہ سکتے ہیں؟ اسی طرح ایک تجارتی شاہراہ تھی جس کے ذریعے مشرکین مکہ تجارتی سفر کیا کرتے تھے وہ بھی مدینہ کے قریب تھی ان کو ڈر محسوس ہوا کہ کہیں مسلمان کہیں اپنے مظالم کا بدلہ لینے کے لیے راستے میں تنگ نہ کریں اس غرض سے سن دو ہجری میں وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور منہ کی کھانی پڑی۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف غزوات ہوئے۔ جس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور ایمان کے جذبے سے سرشار ہوکر بہادری سے لڑے۔ کئی مقامات پر فوج کی سربراہی آپؓ کے سپرد کی گئی۔
غزوہ احد کے بعد کفار مکہ کے پیچھے ایک جماعت کو بھیجنے والے لوگوں میں آپؓ بھی شامل تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر فوج کی کمان آپؓ کے سپرد تھی۔ غزوہ بنی مصطلق میں آپ کے ہم رکاب تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ جس شان سے داخل ہوئے آپؓ بھی آپ کے ساتھ داخل ہوئے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپؓ نے اپنے گھر کا سارا سامان پیش کردیا۔ اسی سال آپؓ کو امیر حج منتخب کیا گیا۔
آپﷺ کی رحلت کے موقع پر:
جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو ہر ایک غم کی حالت میں تھا اس دن سے زیادہ غمزدہ دن مسلمانوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی ہر دل اضطراب کی حالت میں تھا اس خبر کے بعد جو جہاں تھا وہ وہیں ساکت ہوگیا تھا۔ حضرت عمرؓ بھی اس کیفیت میں تھے تلوار میان سے نکالے کہتے تھے کہ جس نے بھی کہا کہ حضور اکرمﷺ وفات پاچکے ہیں تو اس شخص کا سرقلم کردوں گا۔ اسی صورت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی وہ رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور شان دار خطبہ دیا کہ جو محمد ﷺکی عبادت کرتے تھے سن لیں کہ اب محمدﷺ وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتے تھے تو اللہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ یہ الفاظ مسلمانوں کے لیے تسلی اور سہارے کا باعث بنا۔ خطبے کے بعد آپؓ نے جو آیت پڑھی اس سے لوگوں کے دلوں میں ایمان جگمگایا حالاں کہ تمام مسلمان اس آیت کو پڑھتے آرہے تھے مگر عین موقع پر اس کی تلاوت کرنا یوں معلوم ہوا جیسے کہ اسی وقت آیت نازل ہوئی ہو۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ
ترجمہ:
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔ (سورۃ آل عمران:144)
خلافت:
حضور اکرمﷺ کی وفات کے فوری مسئلہ جان نشینی کا تھا۔ آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکا جان نشین کون ہوگا۔ ابھی یہ سب سامنے ہی تھا کہ حضرت عمرؓ کو خبر ملی کہ انصار کے مابین سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر جان نشینی کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ اس نازک صورت حال میں حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کے ساتھ اس مقام پر پہنچے۔ یہ معاملہ اتنام سنگین تھا کہ آپؓ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا اسی صورت آپ نے مہاجرین میں سے دو لوگوں کا انتخاب کیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں سے جسے چاہیں اپنا خلیفہ بنالیں۔ حضرت عمرؓفورا کھڑے ہوئے اور آپ کا ہاتھ تھام کر کہا کہ آپ ہم سے بزرگ ہیں آپ کے جان نثار ساتھی ہیں ہم میں سب سے بہتر ہیں اس لیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔
یوں اس مجلس میں آپؓ کو خلیفہ رسولﷺ منتخب کیا گیا۔ اور حضرت عمرؓ کے بعد وہاں موجود تمام لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔(جو اس وقت وہاں موجود نہیں تھے انہوں نے بعد میں بیعت کرلی)۔
خلافت کے بعد مشکلات اور اس کا سدباب:
آپﷺ کی وفات کے بعد آپؓ کو ملت اسلامیہ خطرے میں نظر آرہی تھی۔ دشمنوں کی ساشیں مزید پختہ ہوگئیں تھیں۔ ان مشکلات میں مرتدین اسلام، منکرین زکوۃ اور مدعیان نبوت جیسے فتنے کھڑے ہوئے۔ آپؓ نے اپنی ذہانت سے ان کا سد باب کیا۔
تدوینِ قرآن ایک اہم کارنامہ:
آپؓ کے دور خلافت میں مرتدین پر قابو پانے کے لیےجنگ یمامہ ہوئی۔ اس جنگ میں ستر حفاظ کرام شہید ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ قرآن کو ایک کتابی شکل میں جمع کرلیا جائے تاکہ قرآن پچھلی کتابوں کی طرح ضائع نہ ہوجائے۔ پہلے تو حضرت ابو بکرؓ اس بات پر آمادہ نہ ہوئے۔ مگر پھر اللہ نے ان کو شرح صدر سے نوازا اور آپؓ نے اس کام کی سربراہی حضرت زید بن حارثہؓ کے سپرد کی۔ انہوں نے بہت احتیاط سے اس کام کو سر انجام دیا اور قرآن کو ایک کتابی صورت میں جمع کیا۔ آپؓ ہی کے دور خلافت میں قرآن کی کتابی شکل کو مصحف کہا گیا اور اسی نسبت کی وجہ سے آپ کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔
آپؓ کے دور خلافت میں فتوحات:
دو سال کے اس مختصر دور خلافت میں عراق اور شام فتح ہوئے۔
مرض الوفات کی شدت:
آپؓ کی وفات سے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آپؓ شدید سردی میں غسل کی وجہ سے بیمار ہوئے اور بعض کے نزدیک ایک یہودی نے آپؓ کے کھانے میں زہر ملادیا تھا اس زہر کے اثر سے آپؓ بیمار ہوئے اور وفات پائی۔
سن 13ھ میں آپؓ بیمار ہوئے اور طبیعت زیادہ بگڑنے لگی۔ آپؓ کے ذہن میں سقیفہ بنی ساعدہ والا مسئلہ بھی تھا اس لیے آپؓ نے اپنا جان نشین منتخب کرنے کے لیے اکابر صحابہؓ کو مشورے کے لیے بلایا۔ آپؓ نے اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کا نام پیش کیا اور فیصلے کے بعد حضرت عثمانؓ نے اس کو وصیت کی صورت میں لکھا اور سب کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ آپؓ نے آخری وقت اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کو نصیحتیں کیں۔ بالآخر پندرہ دن بیمار رہ کر 13ھ بروز پیر 21 جمادی الثانی 63 برس کی عمر میں آپؓ خالق حقیقی سے جاملے۔
مدت خلافت:
آپؓ کی مدت خلافت دو سال تین مہینے دس دن ہے۔
کفن دفن، نماز جنازہ ومدفن:
وصیت کے مطابق آپؓ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے آپ کو غسل دیا اور تین کپڑوں میں کفنایا۔ ان میں سے دو پرانے تھے جو ان کے استعمال میں تھے۔ حضرت عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور نبی اکرمﷺ کے پہلو میں دائیں جانب دفن کیا گیا۔
واللہ اعلم بالصواب
مراجع و مصادر:
آیات قرآنی:
• سورۃ نمبر 92 الليل آیت نمبر 17
• سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 40
• سورۃ نمبر 3 آل عمران آیت نمبر 144
احادیث:
• جامع ترمذی کتاب: مناقب کا بیان حدیث نمبر: 3679
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں، حدیث نمبر: 6169
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں ،حدیث نمبر: 6182
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں حدیث نمبر: 6172
• صحیح مسلم کتاب: فضائل کا بیان باب: خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے فضائل کے بیان میں حدیث نمبر: 6177
کتب:
• اسد الغابة فی معرفة الصحابة- مؤلف ابن اثیر، مترجم مولانا محمد عبد الشکور فاروقی جلد نمبر ۲
• الاصابة فی تمیز الصحابة- مؤلف امام ابن حجر عسقلانی، مترجم مولانا محمر عامر شہزاد علوی جلد نمبر ٣
• اسلامی تاریخ - امتیاز پراچہ
• معارف القرآن از مفتی شفیع عثمانی جلد نمبر ۸
• البدایہ والنہایہ جلد ۳ صفحہ نمبر ۱۱۳
• عشرہ مبشرہ۔ بیادگار حضرت مولانا احمد حسن بھام سملکی رح (کاوش طلبہ جامعہ ڈابھیل مقالہ برائے عبد الرحیم کشمیری)
طالب دعا سیدہ حفظہ احمد
١_فروری_۲۰۲١
١٧_جمادی الثانی_١٤٤۲
ایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks