حق مہر، احکام اور اقسام

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
مہر عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ وہ مال وغیرہ جو عورت کو نکاح کے عوض میں خاوند ادا کرتا ہے۔
فیروز الغات میں الحاج مولوی فیروز الدین نے اصطلاحی معنی بیان کی ہے کہ

"مہر وہ روپیہ یا جنس ہے جو مسلمانوں کے نکاح کے وقت مرد کے ذمے عورت کو دینا مقرر کیا جاتا ہے۔"
وہبہ الزہیلی نے الفقہ الاسلامی وادلة میں اس طرح بیان کی ہے۔
"مہر وہ مال ہے جو عقد نکاح یا جنسی کی وجہ سے کسی عورت کا مرد پر واجب ہوتا ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات مقامات پر مہرکا ذکر کیا ہے۔
مہر کو الصداق بھی کہتے ہیں(صاد پر زبر اور زیر دونوں طرح سے پڑھا جاتا ہے) یہ صدق سے ماخوذ ہے یعنی شوہر اس کے ذریعے سے اپنی دلہن کے لیے سچی رغبت کا اظہار کرتا ہے۔
صاحب الفقہ الاسلامی ادلہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مہر کے دس نام ہیں۔مہر،صداق، صدقہ، نحلہ،اجر، فریضہ، حباء، عقر، طول، نکاح۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ترجمہ:اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ (سورۃ النساء:4)
لفظ صدقات سے مراد مہر ہے۔
حق مہر، مہر شرعی، مہر فاطمی، مؤجل، معجل، عند الطلب
شریعت میں یہ اصول مقرر ہے کہ اخراجات کا بار عورت پر نہیں ڈالا گیا۔ خواہ عورت ماں ہو یا بیٹی ہو یا بیوی ہو بلکہ مرد پر خرچے کا بوجھ ڈالا گیا ہے کیونکہ مرد کسب و کمائی کی طاقت رکھتا ہے۔ رہی بات عورت کی تو اس کی ذمہ داری گھریلو انتظام استوار رکھنا، اولاد کی بہتر تربیت کرنا اور گھریلو امور حسن و بھلائی سے انجام دینا ہے۔ بلاشبہ ان کی امور کی انجام دہی آسان نہیں، مشکل ہے۔ چنانچہ جب عورت کو پیشگی مہر دے دیا جائے تو وہ بطریق احسن ان امور کی انجام دہی کے لیے سعی کرسکتی ہے۔
مہر باجماع امت مرد کا عورت کو ادا کرنا واجب ہے بشرطیکہ عورت خوش دلی سے چھوڑ دے یا معاف کردے۔

قرآن میں اس کی بھی اجازت ہے۔
ترجمہ: دے ڈالو عورتوں کو مہر ان کے خوشی سے پھر اگر وہ اس میں سے کچھ چھوڑ دیں تم کو اپنی خوشی سے تو اس کو کھاؤ رچتا پچتا۔ (سورۃ النساء:4)
علماء کرام کا اتفاق ہے کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی حد نہیں ہے کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس میں مہر کی انتہائی حد متعین کی گئی ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:اور تم نے کسی عورت کو ڈھیروں مال دے رکھا ہو اس سے کوئی چیز بھی واپس نہ لو۔ (سورۃ النساء:20)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں عورتوں کے مہر میں گرانی ہوتی چلی گئی تھی تو آپ رض نے مہر کی ایک مناسب حد تک تحدید و تعین کا ارادہ کیا بلکہ اعلان کردیا کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے اور لوگوں سے خطاب کیا کہ اے لوگوں عورتوں کے مہر میں گرانی مت کرو کیونکہ بڑھا چڑھا کر مہر دینا اگر دنیا میں شرافت کی چیز ہوتی یا آخرت میں تقویٰ کی چیز ہوتی یقیناً رسول کریم ﷺ اس پر ضرور عمل فرماتے جبکہ آپ ﷺ نے اپنی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔ سو جس نے بھی بارہ سو اوقیہ سے زیادہ مہر مقرر کیا تو زائد مقدار بیت المال میں جمع کرانی ہوگی۔ جب عمر رض منبر سے نیچے اترے تو قریش کی ایک عورت آڑے آگئی اور کہنے لگی :اے عمر! تمہیں یہ اختیار حاصل نہیں۔ حضرت عمر رض نے عورت سے وجہ پوچھی تو عورت نے کہا: ارشاد خداوندی ہے اور سورۃ النساءآیت نمبر 20 کی تلاوت فرمائی۔ اس پر آپ رض نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا :ایک عورت نے سچ کہا جبکہ عمر سے خطا ہوئی۔ اضافت میں ابو یعلی نے الکبیر میں یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔ اے لوگو! میں نے تمہیں مسئلہ مہر کے متعلق چارسو درہم سے زائد مقرر کرنے سے منع کیا تھا سو کوئی شخص مہر میں جتنا مال چاہے عورت کو دے سکتا ہے۔
مہر کی کم سے مقدار کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
امام شافعی ،امام احمد ، امام اسحق ، امام ابو ثور اور تابعین میں سے مدنی فقہاء کہتے ہیں کہ اس کی قلیل ترین مقدار کی کوئی حد نہیں۔ جو مقدار بھی کسی چیز کی قیمت بن سکے وہ مہر ہوسکتی ہے۔
مہر کی عام طور پر دو اقسام ہیں:
مہر معجّل
مہر مؤجّل
معجّل عجلت سے ہے اور اس کا مطلب ہے جلدی ادا کردینا۔
جب مہر نکاح کے وقت پر ہی ادا کردیا جائے تو اسے مہر معجّل کہتے ہیں۔
مؤجّل اجل سے ہے اور اس کا مطلب ہے کوئی مدت طے کرنا۔
جو مہر نکاح پر ادا نہ کیا جائے اور مرد و عورت کے درمیان مہر ادا کرنے کی مدت مقرر کرلی جائے تو ایسے مہر کو مہر مؤجّل یا غیر مؤجّل کہتے ہیں۔
یعنی بعد میں ادائیگی کا وعدہ ہو۔
اس کے علاوہ مہر کی کچھ اور اقسام بھی شمار کی جاتی ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔
مہر عند الطلب :
عند الطلب سے مراد جب مہر طلب کیا جائے ادا کیا جائے گا۔
اس میں مہر کی مدت کا تعین نہیں ہوتا بلکہ یہ طے ہوتا ہے کہ بیوی جب چاہے وصول کرلے لیکن جب بیوی کو مہر ادا کیا جائے تو مرد کو چاہیئے کہ دو گواہ کرلے یا دستاویز لکھ لے تاکہ بعد ازاں شک وشبہ پیدا نہ ہو۔
مہر مثل: یہ مہر کی وہ مقدار ہے جو کسی عورت کے باپ کے خاندان کی عورتوں کے مہر کی مالیت اوسطاً مقرر ہو۔
یہ بات قابل غور ہے کہ مہر مثل میں صرف عورت کے باپ کے خاندان کی عورتوں کا مہر دیکھا جاتا ہے۔ مثلاً بہنیں، بھتیجیاں، پھوپھیاں، چچازاد وغیرہ۔
مہر مثل صرف اس وقت دیا جاتا ہے جب نکاح کردیا جائے لیکن مہر کا تعین نہ ہو اور مرد یا عورت میں سے کوئی فوت ہوجائے یا مرد عورت کو طلاق دے دے بشرطیکہ خلوت بھی کی ہو تو عورت کو مہر مثل دلوایا جاتا ہے۔
مہر فاطمی /مہر شرعی:
مہر فاطمی اس مہر کو کہا جاتا ہے جو نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صاحبزادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کا مقرر فرمایا اس کی مقدار پانچ سو درہم چاندی ہے وہ اس طرح کہ ازواجِ مطہرات کے بارے میں روایات میں بارہ اوقیہ اور ایک نش کی صراحت آئی ہے۔
بی بی فاطمہ کا مہر چارسو درہم تھا جوکہ ایک سو ،سوا اکتیس تولہ بنتا ہے۔ اور یہی مہر عموماً ازواج مطہرات کا بھی تھا۔
بات ہورہی تھی مہر کی، مگر آج کل بھی دور جاہلیت کی طرح مہر تو سرے سے ہی معاف کروالیا جاتا ہے، اگر عورت مانگ بھی لے تو اسے بے شرم بدتمیز قرار دے کر خاموش کردیا جاتا ہے، یا نعوذ باللہ یہ کہا جاتا ہے کہ اتنے پیسوں میں تمہارے ماں باپ نے تمہیں بیچ دیا ہے۔ اگر مہر دے بھی دیا جائے تو اسے کسی نہ کسی بہانے سے واپس نکلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عموما ہمارے معاشرے کا المیہ بن چکا ہے۔ مہر عورت کا حق ہے۔ اس تحریر کے ذریعے اس میں اس اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اللہ ہم سب کو دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا کریں۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی