بیٹے کو ذبح کرو

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
عید الاضحٰی/بقرۃ عید
پیارے بچو! بقرۃ عید قربانی والی عید کو کہتے ہیں، جس میں ہم اللہ کی راہ میں جانور کو قربان کرتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں ناں بقرۃ عید سے پہلے ایک اور عید آتی ہے، اس کو ہم کیا کہتے ہیں؟ جی ہاں!  عید الفطر جو ہم رمضان کی خوشی میں مناتے ہیں۔ اس عید پر آپ سب کیوں خوش ہوتے ہیں ہمم بتائیں؟ عیدی کی وجہ سے نا ہاہاہاہا۔ دیکھا آپ کے چہرے پر آگئی نا ہنسی۔ اچھا اب بقرۃ عید آنے والی ہے ہم اس بارے میں کچھ بات کرتے ہیں۔ کیا آپ کو اس عید کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ عید کیوں منائی جاتی ہے؟ اگر معلوم ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ اگر نہیں معلوم تو اس کہانی کو مکمل پڑھے بغیر نہ چھوڑیے گا کیوں کہ میں آپ کو بتاؤں گی کہ یہ عید کیوں منائی جاتی ہے؟
دیکھو پیارے بچوں! اللہ تعالی نے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ اس میں ایک پیغمبر تھے، ان کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام تھا۔ کیا آپ ان کے بارے میں جانتے ہیں؟ جی ہاں!! یہ وہ پیغمبر تھے، جن کو ایک بادشاہ (نمرود) نے آگ میں ڈالا، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پر یقین رکھا، وہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو وہ آگ بھی جنت کی ٹھنڈی ہوا جیسی لگی تھی، کیوں کہ اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا! تو آگ اللہ کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ اچھا اب ہمیں بقرۃ عید کے بارے میں جاننا تھا کہ کیوں ہم بقرۃ عید مناتے ہیں تو اس کی طرف رخ کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک کا نام بی بی ہاجرہ تھا. حضرت بی بی ہاجرہ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بی بی ہاجرہ کو اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیابان شہر مکہ میں اکیلے چھوڑ گئے۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ اسلام بہت چھوٹے تھے۔  مکہ میں کوئی بھی آباد نہیں تھا۔ بالکل سنسان علاقہ تھا۔ اللہ کا حکم تَھا ان کو یہ سب کرنا پڑا۔ اللہ کے پیارے بندے تو اللہ کی باتیں مانتے ہیں نا۔ اب یہاں میں پہلے ایک سوال کروں گی.. کیا ہم اللہ کے پیارے بندے ہیں؟ سوچیں! اور اگر ہم اللہ کے پیارے بندے بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی اللہ کی بات ماننی چاہیئے۔
بالکل سنسان علاقہ تھا، وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت ابراہیم کی دعا سے اللہ نے کچھ عرصے بعد اتنا اچھا بنادیا وہاں اب کھجور کے باغات ہیں اور آب زم زم بھی ہے۔ کچھ عرصے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام جو کہ اللہ کے بہت پیارے بندے بھی تھے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھوڑے بڑے ہوجاتے ییں، ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب آتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنی بہت پیاری چیز قربان کررہے ہیں۔ وہ صبح اٹھ کر ایک جانور کی قربانی کردیتے ہیں۔ اگلے دن پھر وہی خواب پھر سے قربانی کی۔ تیسرے دن پھر خواب آیا۔
 صبح وہ سوچتے ہیں کہ میری سب سے پیاری اور قیمتی چیز کیا ہے؟ جس کا مجھے حکم دیا جارہا ہے؟ وہ بہت سوچتے ہیں اس وقت ان کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا خیال آجاتا ہے کہ میری سب سے پیاری شے میرا بیٹا ہے اور اس وقت وہ ان کے اکلوتے بیٹے تھے اور بہت وقت بعد اللہ نے ان کو اولاد عطا کی تھی۔ دوبارہ وہ اس جگہ  جاتے ہیں جہاں اپنے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ کر آئے تھے اور اپنے بیٹے کو اپنا خواب سناتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں اپنی سب سے پیاری چیز اللہ کی راہ میں قربان کررہا ہوں۔ تو پتا ہے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیا کہتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں کہ ابا جان!! آپ کو جو اللہ کا حکم ہوا ہے آپ کر گزریے وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ نے ان کے والد سے کیا چیز مانگی ہے اور اپنے والد کی بات کو اللہ کا حکم بجا لانے کا کہتے ہیں۔ اس کے بعد کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام چپ چاپ سے اپنے بیٹے کو لے کر جاتے ہیں، اپنی بیوی یعنی حضرت ہاجرہ کو بھی نہیں بتاتے اور ساتھ میں ایک چھری اور ایک کپڑے کی پٹی بھی رکھ لیتے ہیں اور ایک میدان کی طرف جاتے ہیں۔ راستے میں شیطان ان کو روکتا ہے اور بہکانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو کنکریاں اٹھا اٹھا کر مارتے ہیں اور میدان میں پہنچ جاتے ہیں۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام جانتے ہیں کہ اب والد صاحب کیا کرنے والے ہیں؟ اس لیے وہ لیٹ جاتے ہیں اور ان کے والد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں اور چھری اٹھا کر ان کو ذبح کرنے لگتے ہیں، ان کی گردن پر چھری رکھتے ہیں۔ اللہ اکبر!!  کی صدا بلند کرتے ہیں کہ اللہ رب العالمین اچانک سے ایک مینڈھا یعنی دنبہ بھیج دیتے ہیں اور فرشتے کے ذریعے پیغام بھجواتے ہیں۔ اے ابراہیم! آپ نے میرے حکم کی تعمیل کی اور خواب سچ کر دکھایا۔اللہ تعالی ان سے بہت خوش ہوتے ہیں پھر اس طرح اب اس واقعے کی یاد میں ہم سب قربانی کرتے ہیں۔
اب ایک سوال کا جواب سوچیے خود سے۔ کیا ہم جو قربانی کرتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں کرتے ہیں یا دوسروں سے ٹکر کی بنا پر؟  ہم نے تو اتنا مہنگا اور اتنا بڑا جانور قربان کیا ہے یہ تو دکھاوا ہوا نا۔ قربانی تو ہمیں اللہ کی راہ میں کرنی ہوتی ہے لوگوں کی واہ واہ سے ہمیں غرض نہیں ہونی چاہیئے اور صرف ثواب کی نیت کرنی ہوتی ہے۔  اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنا ہوتی ہے۔ کیا آپ بھی اللہ کی رضامندی حاصل کرنا  چاہتے ہیں ؟ تو ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کریں۔  جب بھی کوئی نیک کام کریں تو سوچیں یہ کام صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس میں ریاکاری کی جھلک بالکل بھی نہ ہو۔ آج سے یہ عزم کرلیں کہ ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کریں گے۔ ان شاء اللہ!!

4 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

  1. بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ لکھتی رہیں ، ان شاء اللہ اسلام کا نیا سورج ایک روز یہاں سے بھی طلوع ہوگا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہترین ۔
    حسن البناء مدیر مجلہ بزم قرآن پشاور

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی