لختِ جگر

 #microtales 
تحریر: سیدہ حفظہ احمد
ہجرت / مہاجر / برصغیر/ پاکستان
اگست کا مہینہ تھا، ہر طرف گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔ اب مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ پاس ہونے والا تھا۔ اعلان ہوا کہ جو جو آنا چاہتا ہے اپنا گھر بار سب چھوڑ کر نکلے اور مہاجر کیمپ کے کسی بھی خیمے میں آجائے۔ اس اعلان کو ہر ایک نے سنا۔ سب اپنے گھر بار کی پرواہ کیے بغیر خوف کے عالم میں اپنے معصوم بچوں کو لے کر نکلنے لگے۔ اندیشہ تھا کہ دشمن ہم پر حملہ آور نہ ہوجائیں۔
عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا۔ لوگ جلد از جلد خیموں تک پہنچنا چاہتے تھے تاکہ ایک محفوظ مقام تک پہنچ جائیں۔ مگر کیا تھا، دشمن ہر طرف دھاک لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی کوئی نکلنے کی کوشش کرتا، وہ تلوار سے ان پر حملہ آور ہوتے اور انہیں ختم کردیتے۔
میں بھیس بدل کر بچ بچا کر نکلی اور خاموشی سے ایک خیمے میں پہنچ گئی۔ میرے بھیس سے لوگ مجھے حملہ آور سمجھ کر چیخ و پکار کرنے لگے۔ مگر میں نے انہیں اشارہ کرکے خاموش کیا اور باور کرانے کی کوشش کی کہ میں خود آپ سب جیسی صورتحال میں مبتلا ہوں۔
اچانک شور برپا ہوا۔ ساتھ والے خیمے پر حملہ ہوچکا تھا اور اب اس خیمے میں لاشیں بکھری پڑی محسوس ہورہی تھیں۔
اب باری ہمارے خیمے کی تھی۔ مغرب کی اذان ہونے لگی۔ اندھیرا چھانے لگا، فاطمہ نے جلدی سے چراغ بجھانے کی کوشش کی تاکہ ہم نظر نہ آئیں اور محفوظ رہ سکیں۔ مگر ساتھ ہی ایک آنٹی اپنا بچہ گود میں لیے بیٹھی تھیں، معصوم بچہ بھوک کی وجہ سے بلبلانے لگا۔ اس کی ماں نے اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کی، مگر وہ معصوم بچہ خاموش نہیں ہورہا تھا۔ اتنے میں دو نقاب پوش خیمے میں داخل ہوئے اور ماں کے لختِ جگر کے دوٹکڑے کردیے۔ ماں چیختی، چلاتی مگر وہاں اسے کون سننے والا تھا؟ وہ اپنے بچے کی لاش کے دو ٹکڑے دیکھ کر تڑپتی رہی اور اسی کرب میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔
ختم شد
2 اگست 2022


Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی