حیات عیسی علیہ السلام (کیا عیسی علیہ السلام زندہ ہیں؟ اگر ہاں تو کہاں موجود ہیں؟)

تحریر:سیدہ حفظہ احمد

عنوان: حیات عیسی علیہ السلام


اس دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے، جن میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام پر آسمانی کتاب "انجیل" نازل ہوئی اور اس پر عمل کرنے والوں کو "عیسائی" کہا جاتا ہے۔ آخری شریعت، شریعت و دین محمدی کے بعد یہ شریعت بھی منسوخ ہوگئی۔


حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں مشکوۃ شریف سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"انا اولی الناس بعیسی" یعنی میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم ﷺ سے پہلے نبوت حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس تھی۔ 


مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ معارف القرآن میں نقل کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اور نبی کریم ﷺ کی بعثت کے درمیان 500 سال کاعرصہ ہے۔


حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش عام پیدائش کی طرح نہیں ہوئی تھی۔ اللہ تعالی نے ان کو ایک کنواری ماں کے بطن سے پیدا کیا۔ جس طرح اللہ آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کرسکتا ہے اسی طرح وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو کنواری ماں یعنی بغیر باپ کے پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔


اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:


"اِنَّ مَثَلَ عِيۡسٰى عِنۡدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ‌ؕ خَلَقَهٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ "(سورۃ ال عمران:59)


ترجمہ:

"اللہ کے نزدیک عیسٰی کی مثال آدم عہ کی سی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: "ہوجاؤ" بس وہ ہوگئے".


اللہ تعالی نے ان کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام کو جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے بشارت دی کہ تمہیں ہم ایک خوشخبری سناتے ہیں کہ تمہارے ایک بیٹا ہوگا جو ہمارے مقرب بندوں میں سے ہوگا. اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:


"اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِكَةُ يٰمَرۡيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنۡهُ ۖ اسۡمُهُ الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ وَجِيۡهًا فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَمِنَ الۡمُقَرَّبِيۡنَۙ "(آل عمران:45)


ترجمہ:

"وہ وقت بھی یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا تھا کہ: اے مریم! اللہ تعالی تمہیں ایک کلمے کی (پیدائش کی)خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسی ابن مریم ہوگا, جو دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب وجاہت ہوگا, اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا".


گویا اس آیت کی رو سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے نبی تھے اور اس کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ ان کے ماننے والوں کو عیسائی کہاجاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ان کو کئی معجزات عطا کیے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاسکیں، اس کا ذکر قرآن میں صراحت کےساتھ آیا ہے۔ ان معجزات کو دیکھنے کے باوجود بھی انہوں نے اللہ کا انکار کیا، اپنے نبی کا انکار کیا۔ یہاں تک کہ ان کو سولی پر لٹکانے یعنی صلیب کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان میں سے صرف بارہ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اس دور کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کا ساتھ دینے کی حامی بھری۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں کچھ اس طرح ہے:


"فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِيۡسٰى مِنۡهُمُ الۡكُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ قَالَ الۡحَـوَارِيُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰهِ‌ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ‌ۚ وَاشۡهَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ" (آل عمران:52)


ترجمہ:

"جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں, تو انہوں نے (اپنے پیروکاروں سے)کہا: "کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں؟" حواریوں نے کہا: "ہم اللہ کے دین پر مددگار ہیں, ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں".


یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف سازشیں گھڑنا شروع کردی تھیں اور بادشاہ کو بھڑکایا کہ عیسی تورات کو بدلنا چاہتا ہے، سب کو دین سے منحرف کرنا چاہتا ہے، بادشاہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری کا حکم دے دیا.


کچھ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو گرفتار کرنے نکلے، اور ایک شخص آپ کے مکان میں آپ کو گرفتار کرنے کے لیے داخل ہوا اس کو اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شکل دے دی اور اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیا. وہ شخص جو گرفتار کرنے گیا تھا، حضرت عیسی علیہ السلام کو تلاش کرنے لگا. دوسرے افراد دیر ہونے پر اندر آگئے اور اپنے ہی شخص کے ساتھ عیسی علیہ السلام سمجھ کر کارروائی کی گئی۔ اللہ تعالی نے حفاظت کا وعدہ سچ کر دکھایا۔ جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے:


"وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ‌ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ اِذۡ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيۡسٰۤى اِنِّىۡ مُتَوَفِّيۡكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا " ( آل عمران: 54,55)


ترجمہ:

"اور ان کافروں نے (عیسی علیہ السلام کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی. اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے. (اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ: "اے عیسی! میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، اور تہمیں اپنی طرف اٹھالوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنالیا ہے ان (کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا"۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عیسی علیہ السلام اب بھی زندہ ہیں؟ اس کے متعلق یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کا الگ الگ عقیدہ ہے۔ عیسی علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ: وہ مقتول و مصلوب ہو کر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے۔ جب کہ عیسائیوں کا کہنا ہے کہ عیسی علیہ السلام مقتول و مصلوب تو ہوگئے مگر پھر دوبارہ زندہ کرکے آسمان پر اٹھالیے گئے، ان دونوں کے ہی خیالات غلط ہیں۔ 


یہودی تو اپنے ہی ساتھی کو سولی دے کر اسے تلاش کرنے کی شش وپنج میں پڑگئے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کی خوشیاں منانے لگے اس ہی غلط فہمی میں عیسائیوں نے بھی یہ ہی سمجھ لیا تھا البتہ مسلمانوں کا عقیدہ ان سے بالکل مختلف ہے کہ عیسی علیہ السلام نہ قتل کیے گئے، نہ سولی دیے گئے بل کہ بحفاظت اللہ تعالی نے ان کو اپنی آسمان کی طرف اٹھالیا اور یہودیوں اور عیسائیوں سے ان کی حفاظت فرمائی جو ان کی جان کے درپے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کے خیالات کو باطل قرار دے کر مسلمانوں کا عقیدہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔


قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:

"وَّقَوۡلِهِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِيۡحَ عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ رَسُوۡلَ اللّٰهِ‌ ۚ وَمَا قَتَلُوۡهُ وَمَا صَلَبُوۡهُ وَلٰـكِنۡ شُبِّهَ لَهُمۡ‌ ؕ وَاِنَّ الَّذِيۡنَ اخۡتَلَـفُوۡا فِيۡهِ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ‌ ؕ مَا لَهُمۡ بِهٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ‌ ۚ وَمَا قَتَلُوۡهُ يَقِيۡنًا 

بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيۡهِ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا " (سورۃ النساء: 157,158)


ترجمہ:

"اور انہوں نے یہ کہا کہ: "ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا" حالاں کہ نہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو قتل کیا تھا، نہ انہیں سولی دے پائے تھے، بل کہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا. اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسی علیہ السلام کو قتل نہیں کر پائے. بل کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا تھا"۔


اس عقیدے سے متعلق مولانا مفتی شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس عقیدے پر تمام امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے، حافظ ابن حجر (رح) نے تلخیص الجبیر میں یہ اجماع نقل کیا ہے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اور زندہ ہیں تو  کہاں موجود ہیں؟ اگر زندہ ہیں تو کیوں ان کو موت نے آج تک نہیں آ لیا؟ کیا یہ عیسوی عقائد میں سے نہیں کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں؟ تو اس کا جواب بھی اللہ تعالی نے خود دیا ہے. جس کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ "بل رفعه اللہ اليه" یعنی اللہ تعالی نے ان کو اپنی طرف بلند کرلیا۔ چناں چہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھالیے گئے۔ 


ایک اور اشکال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اٹھاگئے تو اس کی تفصیل قرآن نے بیان نہیں کی، اس کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے. قرآن نے اس مسئلے کو نہیں چھیڑا اس لیے ہمیں بھی اس مسئلے کی تہہ میں جانا ضروری نہیں۔


قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ احادیث میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر موجود ہے کہ وہ قیامت سے پہلے آئیں گے، دجال کو ختم کریں گے اور مسلمانوں کی امامت کروائیں گے۔


"‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ 

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا سورة النساء آية 159".(صحیح بخاری، کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان، باب: عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا آسمان سے اترنا۔حدیث نمبر: 3448)


ترجمہ:

" رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہوجائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنيا وما فيها سے بڑھ کر ہوگا۔ پھر ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وإن من أهل الکتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏ اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے"۔


" کَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيکُمْ وَأَمَّکُم "(صحیح مسلم ،کتاب: ایمان کا بیان، باب: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں، حدیث نمبر: 393)

ْ


ترجمہ:

" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اتریں گے اور تمہارے امام بنیں گے"۔


مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت سے پہلے اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور امامت کروائیں گے۔


اب یہاں ایک اور اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس شریعت پر عمل کریں گے؟ پرانی شریعت پر یا نبی اکرم ﷺ کی شریعت پر یا کوئی نئی شریعت لے کر آئیں گے؟ ان تمام سوالات کے جوابات اس حدیث میں ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:


" لا تزال طائفة من أمتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة . قا ل فينزل عيسى بن مريم فيقول أميرهم تعال صل لنا فيقول لا إن بعضكم على بعض أمراء تكرمة الله هذه الأمة ". 

(مشکوٰۃ شریف، کتاب: حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان، باب: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا امامت سے انکار، حدیث نمبر: 5416)


ترجمہ:

"میری امت میں سے ہمیشہ کوئی جماعت حق کے واسطے لڑتی رہے گی اور ( اپنے دشمنوں پر) غالب آئے گی قیامت ( کے قریب) تک یہ سلسلہ جاری رہے گا پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔  جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) ( آسمان سے اتریں گے اور اس وقت مسلمان نماز کی حالت میں ہوں گے) تو امت کے امیر ( یعنی امام مہدی) عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہیں گے کہ آئیے ہمیں نماز پڑھائیے ( کیونکہ امامت کا حق اسی شخص کو ہوتا ہے جو افضل ہو اور ظاہر ہے کہ آپ کامل رسول و نبی ہونے کی حیثیت سے اس وقت سب سے افضل ہیں) لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو جواب دیں گے کہ امامت نہیں کروں گا ( کیونکہ میری امامت کی وجہ سے یہ گمان ہوسکتا ہے کہ تمہارا دین منسوخ ہوگیا) اور بلاشبہ تم میں سے بعض لوگ بعض پر امام و امیر ہیں بایں سبب کے اللہ تعالیٰ نے اس امت محمدیہ کو بزرگ و برتر قرار دیا ہے".


جامعہ علوم اسلامیہ کے ایک فتوی میں موجود ہے کہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام حیات ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں یہود سے محفوظ کرکے یقینی طور پر اپنے پاس اٹھا لیا، اور آخر زمانے میں آپ علیہ السلام دوبارہ تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بحفاظت آسمانوں پر اٹھانا اور ان کی حیات اور دوبارہ دنیا میں آنا قرآنِ مجید اور صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے. (فتوی نمبر : 144008201232، دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

چناں چہ قرآنی آیات واحادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا اس دنیا میں واپس آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے ایک نائب کی حیثیت سے واپس اس دنیا میں تشریف لائیں گے، دین کا بول بالا کریں گے، دجال کو اور تمام فتنوں کو ختم کرکے تمام لوگوں کو راہ راست پر لے آئیں گے اور کل نفس ذائقة الموت کے تحت فطری طور پر وفات پائیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی