تلاش (اس رب کی)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
تلاش
ہادیہ ناجانے کن سوچوں میں گم تھی۔ وہ اپنے دماغ کی صفحیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ ناجانے وہ کیا تلاش کررہی تھی؟ وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے تمام اوراق پڑھے کہ آخر مجھے کس چیز کی اب تک تلاش رہی ہے اور اب کس چیز کی تلاش ہے؟
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں (الطاف حسین حالی)
ہادیہ نے جب اوراق پلٹنا شروع کیے تو اسے اپنا بچپن نظر آیا اور وہ مدرسے میں زیر تعلیم تھی۔ اس وقت ہادیہ مدرسہ چھوڑ کر اسکول کی تلاش میں تھی کیوں کہ مدرسے میں اتنا وقت گزارنا ہادیہ کے لیے دشوار ہوتا تھا۔ تھوڑا آگے گئی تو اس نے دیکھا وہ ایک اسکول میں کھڑی تھی اور اب اسے کالج کی تلاش تھی۔ ذرا اور آگے اس نے قدم بڑھائے تو وہ کالج میں کھڑی تھی اور اب وہ مدرسے کی ہی تلاش تھی۔ کیوں؟ کیوں کہ اسے وہ ماحول میسر ہی نہیں ہو پارہا تھا، جس ماحول سے میں نکل کر وہ آئی تھی۔ پھر ذرا دور چلی تو اسے مدرسے کے ساتھ یونیورسٹی کی بھی تلاش تھی،

یونیورسٹی بھی مل گئی۔ وہ وہاں کھڑی ہوگئی میں وہاں سے ہل نہیں پائی۔ اس نے سوچ بچار شروع کیا۔ اپنا محاسبہ کیا، میں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
کبھی اسکول، کبھی کالج، تو کبھی مدرسہ یا یونیورسٹی۔ کبھی دولت، کبھی شہرت، کبھی کامیابی، کبھی محبت اور گھر والوں کی توجہ حاصل کرنے کی چاہ۔ ہر ایک کی طرح اس کی زندگی کا بھی یہ ہی مقصد تو تھا۔ وہ بھی تو عام انسان کی طرح زندگی گزار رہی تھی۔ اس سب کے باوجود اسے کمی نظر آرہی تھی۔
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا (ندا فاضلی)
ہادیہ خود سے مخاطب ہوئی: کیا ہر ایک کو یہ کمی محسوس ہوتی ہے؟ اور آخر مجھے تلاش کس چیز کی ہے؟ وہ بھاگم بھاگ اپنے نفس کو پکار رہی تھی۔ مجھے کس چیز کی تلاش ہے؟ مجھے کس چیز کی تلاش ہے؟ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ممکن تھا کہ سانسیں یہیں رک جاتیں۔ اس نے اس بھاگم بھاگ کو تھوڑا روک دیا اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھی۔ جس میں الاؤ ابل رہا تھا، سانسیں تھیں کہ تھم ہی نہیں رہی تھیں۔ اس نے گھٹنوں پر سر رکھا اور آنکھیں بند کیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے۔ آنکھیں بند ہوتے ہی عجیب کیفیت مجھ پر طاری ہونے لگی۔
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی (فیض احمد فیض)
وہ ایک میدان میں کھڑی تھی اور اس سے حساب کتاب کیا جارہا ہے۔ اس نے فورا اپنی آنکھیں کھولیں، اس سے آگے کا منظر نہیں دیکھا گیا۔ وہ اس کیفیت سے دوچار کیسے ہوسکتی تھی؟ میں اس رب کے سامنے کھڑے ہونے کا کیسے سوچ پاتی، جو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب تھا؟
اس سے میں بہت دور رہی! کیوں میں نے اسے اپنے ہی اندر تلاش نہ کیا؟ وہ مجھ سے بہت دور تو نہیں تھا، وہ تو میرے قریب ہی تھا، مجھے تو اس کے لیے محنت بھی نہیں کرنی تھی، میں نے اسے کیوں نہ پہچانا؟ ہائے! میں اب کیا کروں؟ ہادیہ مسلسل سوچتی ہوئی خود سے ہی گویا تھی۔
اسی کشمکش میں اسے اذان کی آواز سنائی دینے لگی۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر! میں ہڑبڑائی.......
ہاں! وہ اللہ ہی تو ہے.......
اذان کی اواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ مؤذن اب کہہ رہا تھا "حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح"، وہ اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ یہ الفاظ تو دن میں پانچ مرتبہ دوہرائے جاتے ہیں۔ آج ان میں اتنا سکون کیوں ہے؟ اس نے "حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح" پر غور کیا۔ مؤذن نماز اور کامیابی کی طرف بلا رہا تھا۔ یہ کامیابی یہ نماز ہے؟ وہ پھر خود سے گویا ہوئی تھی... نماز تو میں روز پڑھتی ہوں۔ پھر میں نے اللہ کو کبھی کیوں نہیں پایا؟ میں نے اسے تلاش کیوں نہ کیا؟ میرا ہدف میرا خالق کیوں نہ رہا؟
وہ اس کامیابی کے لیے کھڑی ہوئی، جو اصل کامیابی ہے۔
وہ حدیث جبرئیل کو سوچے جارہی تھی ......
" مَا الْإِحْسَانُ ؟ قَالَ : أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاك"
ترجمہ:
"احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے"۔ (صحیح بخاری:50)

اللہ مجھے دیکھ رہا ہے! اللہ مجھے دیکھ رہا ہے!
وہ نماز میں مشغول ہوگئی۔ سجدے میں گئی تو ایسا سرور کبھی محسوس ہی نہ ہوا تھا۔ مجھے اللہ کیوں نہیں دکھ رہا؟ مجھے اللہ کی تلاش ہے، مجھے اللہ کو دیکھنا تھا۔ وہ سوچنے لگی..... کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے؟ اس رب کا دیدار تو موسٰی علیہ السلام بھی نہ کرسکے تھے اور بے ہوش ہوکر گر پڑے تھے۔ اس نے سجدے میں سوچا۔
"وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰى لِمِيۡقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِىۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَيۡكَ‌ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰٮنِىۡ وَلٰـكِنِ انْظُرۡ اِلَى الۡجَـبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوۡفَ تَرٰٮنِىۡ‌ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوۡسٰى صَعِقًا"
ترجمہ:
"اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر پہنچے، اور ان کا رب ان سے ہم کلام ہوا، تو وہ کہنے لگے: "میرے پروردگار! مجھے دیدار کروادیجیے کہ میں آپ کو دیکھ لوں"۔ فرمایا: "تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکو گے، البتہ پہاڑ کی طرف نظر اٹھاؤ، اس کے بعد اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم مجھے دیکھ لوگے"۔ پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور موسٰی علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے"۔ (سورۃ الاعراف:143)

پھر وہ خود سے مخاطب ہوئی: اس رب کا دیدار تو صرف آقائے دو جہاں رحمت للعالمین ﷺ کو معراج کی رات ہوا ہے۔
" فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰى"
ترجمہ:
"یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک"۔ (سورۃ النجم:9)

"لَقَدۡ رَاٰى مِنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِ الۡكُبۡرٰى"
"سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا۔" (سورۃ النجم:18)
معراج! معراج! یہ لفظ اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا۔
"نماز مؤمن کی معراج ہے"۔ وہ بڑبڑائی....
چوں کہ مجھے اس کا مقصد و مطلب معلوم ہوگیا تھا کہ نماز قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ نماز مؤمن کی معراج ہے۔ دوسری رکعت کا سجدہ پہلے سے بھی زیادہ پرسکون تھا۔
وہ اس وقت افسردہ ہوئی کہ میں ان غافل لوگوں میں کیوں شامل رہی؟جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا:
ترجمہ:
"وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنۡسٰٮهُمۡ اَنۡفُسَهُمۡ"
ترجمہ:
"اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا"۔ (سورۃ الحشر: 19)

اسے رب تعالی کا جواب ملا:
"يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ "
"اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ تو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے"۔ (سورۃ الزمر: 53)
اور
" لَا تَخَفۡ وَلَا تَحۡزَنۡ "
ترجمہ:
آپ نہ ڈریے، اور نہ غم کیجیے۔ (سورۃ العنكبوت: 33)
اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، تو یہ آیت یاد آئی:
ترجمہ:
" فَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ‌ ؕ اِنَّ رَبِّىۡ قَرِيۡبٌ مُّجِيۡبٌ "
"لہٰذا اس سے اپنے گناہوں کی مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو۔ یقین رکھو کہ میرا پروردگار قریب بھی ہے، دعائیں قبول کرنے والا بھی"۔ (سورۃ هود: 61)
وہ جانتی تھی کہ میرا رب دعائیں سننے والا ہے وہ مجھے معاف فرمادے گا کہ میں اب تک اس سے غافل رہی۔ کیوں کہ
اِنَّ رَبِّىۡ لَسَمِيۡعُ الدُّعَآءِ
ترجمہ:
بےشک میرا رب بڑا دعائیں سننے والا ہے۔ (سورۃ ابراهيم : 39)

اس کی تلاش پوری ہوئی۔
جسے رب مل گیا اسے سب مل گیا۔
ہم کہ مایوس نہیں ہیں انہیں پا ہی لیں گے
لوگ کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے خدا ملتا ہے (عرش صدیقی)

اس تحریر کا مقصد دکھاوا بالکل بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ صرف ایک خیال ہے۔ بس الفاظ ہی ہوتے ہیں جو قرب الٰہی کا اکثر ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے مجھے اپنا قرب نصیب فرمائے اور آپ سب کو بھی۔ اور ہم سب کو اس قابل بنادے کہ ہم آخرت میں اس رب کے سامنے کھڑے ہوسکیں۔ اللہ تعالی ہمیں خشوع وخضوع والی نماز اور عبادات نصیب فرمائے۔ آمین
١٣_دسمبر_۲۰۲۰
۲٧_جمادی الاول_١٤٤۲

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی