تحریر: سیدہ حفظہ احمد
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپؓ نبیﷺ کے جان نثار ساتھی تھے۔ آپؓ کی قربانیاں، آپؓ کی صداقت اتنی مشہور ہے کہ آپ صدیق کے لقب ہی صدیق تھا۔ آپ ہمہ وقت رسول اللہ ﷺاور دین کی خدمت کے لیے پیش پیش رہتے۔ قبل از اسلام آپؓ کا نام عبد الکعبہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد آپؓ کا نام نبی کریمﷺ نے عبد اللہ رکھا۔آپؓ کی کنیت ابو بکر تھی۔ آپؓ قبیلہ قریش کی شاخ بنو تیم (بعض جگہ تمیم) سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کا لقب عتیق تھا۔ لیکن جب آپؓ نے واقعہ معراج کی تصدیق فرمائی تو آپؓ کا لقب نبی اکرمﷺ نے صدیق رکھا اور اس کے بعد آپؓ کا یہ ہی لقب زیادہ مشہور ہوا۔ آپؓ وہ پہلے خوش نصیب مرد ہیں، جنہوں نےنبوت کی خبر سنتے ہی اسلام قبول کیا۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے، یعنی پہلے پہل اسلام قبول کرنے والے۔ آپؓ ان دس خوش نصیب صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کو دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری سنادی گئی تھی۔
آپؓ کا دل رحم اور ایثار کے جذبے سے سر شار تھا۔ آپؓ خطابت میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ تواضع اور سادگی بھی آپؓ کے کردار میں نمایاں تھی۔ زہد و تقوی بھی آپ کے اخلاق کا نمایاں پہلو تھا۔ تاریخ میں کئی اوراق آپ کی سیرت پر لکھے جاچکے ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ خود اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں خصوصی آیات آپ کی تعریف میں اتاریں۔
آپؓ غلاموں کو خرید کر آزاد کردیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی کو آپؓ کی یہ ادا بہت پسند آئی کہ معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ اللیل کی آخری آیات آپ کے لیے ہی نازل ہوئی تھیں۔
وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰى وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى
ترجمہ:
اور اس سے ایسے پرہیزگار شخص کو دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے (اللہ کے راستے میں) دیتا ہے۔ حالانکہ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں تھا جس کا بدلہ دیا جاتا۔البتہ وہ صرف اپنے اس پروردگار کی خوشنودی چاہتا ہے جس کی شان سب سے اونچی ہے۔ یقین رکھو ایسا شخص عنقریب خوش ہوجائے گا۔ (سورۃ الليل :17تا 21)
شان سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بزبان قرآن |
شیخ الہند حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی رح اپنی تفسیر معارف القرآن میں یوں نقل کرتے ہیں کہ:
"الفاظ آیت کے تو عام ہیں جو شخص بھی ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اس کے لئے یہ بشارت ہے لیکن شان نزول کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مراد اس لفظ اتقیٰ سے حضرت صدیق اکبرؓ ہیں ابن ابی حاتم نے حضرت عروہؓ سے روایت کیا ہے کہ سات مسلمان ایسے تھے جن کو کفار مکہ نے اپنے غلام بنایا ہوا تھا جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنا بڑا مال خرچ کر کے ان کو کفار سے خرید کر آزاد کردیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی"۔
چند مشہور صحابی جن کو آپؓ نے آزاد کروایا تھا ان کے نام یہ ہیں:
حضرت بلالؓ، عامر بن فہیرہؓ، خباب بن ارت ؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ
جب قریش مکہ کی طرف مسلمانوں پر مظالم کی انتہا ہوگئی اور مدینہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہہ دیا تو آہستہ آہستہ تمام لوگوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنی شروع کی۔ آخر میں صرف مجبور اور لاچار مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے مگر تین لوگ ایسے تھے جو مجبور و لاچار نہ تھے مگر اب بھی ہجرت کرنے سے رکے ہوئے تھے۔ ایک خود نبی اکرمﷺ جو اللہ کی اجازت کے منتظر تھے، ایک حضرت علیؓ جن کو نبی اکرمﷺ نے روکا ہوا تھا اور ایک حضرت ابو بکر صدیقؓ جو آپ کی اجازت کے منتظر تھے۔ آپؓ نے کئی بار آپﷺ سے اجازت طلب کی مگر آپﷺ نے ان کو یہ کہا کہ "لا تجعل یا ابابکر! لعل اللہ یجعل لک صاحبا" یعنی اے ابو بکر! جلدی نہ کرو، شاید اللہ تمہارے لیے کسی ہمسفر کا انتظام فرمادے۔
اب وہ ہمسفر کون ہوگا؟ آپؓ کئی بار یہ بات سوچتے تھے، کئی بار اس بات کو سوچ کر خوش ہوتے کہ شاید رسول اللہ ﷺ ہی میرے ہمسفر ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دن نبی اکرم ﷺہمارے گھر تشریف لائے اور ہجرت کا حکم دیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ جو ان کے والد تھے ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ پڑے۔ حضرت عائشہ یہ سب دیکھ رہی تھیں اس وقت آپؓ پر یہ راز عیاں ہوا کہ غمی کے آنسو تو ہوتے ہیں مگر خوشی کے آنسو بھی ہوتے ہیں۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ: میں نبی کریمﷺ کے ساتھ سفر کررہا تھا تو میں کبھی آگے چلتا، کبھی پیچھے چلتا، کبھی دائیں تو کبھی بائیں۔ حضور اکرم نے میری اس کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھ سے دریافت کیا تو میں نے کہا کہ: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچادے اس لیے میں اس کیفیت میں مبتلا ہوں۔ تو نبی اکرمﷺ نے ان کو اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں! اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
سفر ہجرت میں نکلنے کے بعد ان دونوں حضرات کی پہلی منزل غار ثور تھی۔ غار میں داخل ہونے سے آپؓ نے پہلے اندر کا جائزہ لیا کہ کہیں کوئی دشمن آپ جو نقصان پہنچانے کے لیے نہ چھپا بیٹھا ہو، جب خوب اطمینان ہوگیا تب آپؓ نے اندر تشریف لانے کی التجا کی۔ غار کے تمام سوراخوں کو بند کردیا کہ کہیں کوئی موذی جانور آپ کو نقصان نہ پہنچادے۔ آپﷺ اپنے رفیق انور کے زانوئے مبارک پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے کہ ایک سوراخ جسے آپؓ نے اپنے انگوٹھے سے بند کیا ہوا تھا (اور اس میں سانپ موجود تھا) اس سوراخ سے صدیق اکبر کو سانپ نے ڈس لیا۔ آپؓ نے ذرا بھی حرکت نہ کی کہ کہیں آپﷺ کے آرام میں کوئی خلل نہ پڑے۔ زہر اثر کرنے لگا دردوکرب کے باعث آپ کے آنسو کی لڑیاں بہہ پڑی اور اس کا ایک قطرہ آپﷺ کے چہرہ انور پر بھی گرپڑا، جس سے آپﷺ بیدار ہوگئے۔ اس کیفیت کی وجی پوچھی تو آپؓ نے بتایا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے تو اللہ کے نبیﷺ نے فورا اپنا لعب دہن لگایا تو اس سے زہر کا اثر جاتا رہا۔
ادھر قریش مکہ ڈھونڈتے ہوئے آئے اور غار کے باہر تک آپہنچے تھے۔ آپؓ کو اپنی جان کی تو پرواہ نہیں وہ صرف آپﷺ کی وجہ سے پریشان ہورہے تھے۔ مگر اللہ کے رسول ﷺ خود کو ہی نہیں بلکہ آپؓ کو بھی مطمئن کررے رہے تھے کہ: آپ غم نہ کیجیے اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس پورے واقعے سے متعلق اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا
ترجمہ:
اگر تم ان کی (یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) مدد نہیں کرو گے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ) اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت (مکہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ : غم نہ کرو اللہ ہمارا ساتھی ہے۔ (سورۃ التوبة 40)
یہ اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں:
أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيقَ حَدَّثَهُ قَالَ نَظَرْتُ إِلَی أَقْدَامِ الْمُشْرِکِينَ عَلَی رُئُوسِنَا وَنَحْنُ فِي الْغَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَی قَدَمَيْهِ أَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ فَقَالَ يَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا
ترجمہ:
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مشرکوں کے پاؤں اپنے سروں پر دیکھے جب کہ ہم غار میں تھے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ان مشرکوں میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابوبکر! تیرا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ ہے۔ (صحیح مسلم : 6169)
آپؓ کی تعریف میں تو قرآن بھی بولتا ہے۔ کیا شان ہے ابو بکرؓ کی، احادیث میں کئی جگہ ابو بکرؓ کا تذکرہ ملتا ہے۔ دین اسلام کی دعوت ہو یا سفر ہجرت، غار ثور ہو یا میدان جنگ، کسی شخص کی مدد کرنی ہو یا دین اسلام کی مدد، غرض ہر صورت میں ابو بکرؓ پیش پیش رہتے تھے۔
اللہ تعالی سے دعا اللہ ہم سب کو دین اسلام پر چلنے صحابہ کی ناموس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
١_فروری_۲۰۲١
١٧_جمادی الثانی_١٤٤۲
سرخیلِ صحابہ و امام صحابہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہے۔۔۔تقبل اللہ منا و منک
جواب دیںحذف کریںآمین
حذف کریںجزاک اللہ خیرا
ایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks