عمر رسیدہ حضرات کے ساتھ ہمارا برتاؤ (ایک کہانی، ایک سچ)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
عمر رسیدہ
جب دنیا شروع ہوئی تو انسان کی عمر بہت زیادہ تھی، انسان ہزاروں سال زندہ رہتا تھا۔ جیسے جیسے دور بدلتا گیا، عمریں بھی کم ہوتی گئیں امت محمدیہ  آخری امت ہے۔ سب سے کم عمر اس امت کے لوگوں کی ہے عموما لوگ 60، 65 کے قریب عمر پاتے ہیں، اور جو اس سے بڑھ جاتے ہیں تو لوگ اس پر یا تو رشک کرتے ہیں یا پھر اس سے بیزار ہوجاتے ہیں کہ یہ بڈھا اب تک جا کیوں نہیں رہا۔ اس کے ساتھ برا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، کبھی ایسا سنا کہ اولڈ ایج ہوم چھوڑ دیا، کبھی سنا گھر سے نکال دیا، تو کبھی سننے میں آیا کہ گلا گھونٹ کر مار دیا۔
اکثر ہم عمر رسیدہ حضرات کو کام کاج کرتے دیکھتے ہیں، (یہ الگ بات ہے کہ وہ خود ایکٹِو یا چلتا پھرتا رہنے کے لیے کچھ ادھر ادھر کا کام کرلے تاکہ ہاتھ پاؤں چلتے رہیں کسی کے محتاج نہ ہوں لیکن جو محتاج ہوجائے یہ ان کی بات ہورہی ہے) اس وقت ہمارے ذہن میں بہت سی باتیں گردش کرتی ہیں کہ ایسی عمر میں اس شخص کو کام کرنے کی کیا وجہ پیش آئی، جس کے اب بیٹھ کر کھانے کے دن تھے وہ مسلسل اتنی جدوجہد سے کیوں دوچار ہورہا ہے؟ سوچ آتی ہے کہ ہوسکتا ہے اس شخص کا اور کوئی نہ ہو، وہ اکیلا ہو، ہو سکتا ہے کہ اس کے گھر  والے تو ہوں لیکن کام کرنے والا صرف وہی ہو، گھر میں بس خواتین ہوں۔ یہی سوچ آتی ہے جب ہم کسی کو اس طرح کام کرتے دیکھتے ہیں۔ کیا اور وجوہات بھی ہوسکتی ہیں؟ 
محترم قارئین! میں پہلے اس بات پر روشنی ڈالنا چاہوں گی کہ جب ہم کسی عمر رسیدہ شخص کو کام کرتا دیکھتے ہیں سب سے پہلے سوچ ہمیں کیا آتی ہے، اس پر ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گی۔ اس کے بعد میں ایک اور اصل واقعہ بیان کرنا چاہوں گی اسی سے اصل بات اور کیا ہوسکتی ہے خود بہ خود معلوم ہوجائے گی۔ 
قارئین! ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ واپسی گھر کی طرف آرہی تھی۔ اگرچہ منزل ہماری تھوڑی دور تھی۔ رات کا وقت تھا، ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو اپنا آپ سھنبالنے کے ساتھ ساتھ چڑھائی پر ایک ٹھیلے سمیت رستہ عبور کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ والدہ محترمہ نے اس کو حسرت کی نگاہ سے دیکھا اور مجھے کہا کتنی مشکل سے یہ شخص اپنا ٹھیلا اوپر چڑھانے کی کشمکش میں ہے۔ لیکن کیا کرتیں ہم دو عورتیں تھیں! آس پاس کے لوگ راہ کو عبور کرتے جاتے۔ بہت سے لوگ گاڑیوں میں سوار، نوجوان اکثر پیدل مسافت طے کررہے تھے۔ مگر اس عمر رسیدہ کی کسے پرواہ تھی؟ سب اپنے اپنے راستوں کی جانب رواں دواں تھے۔ اس عمر رسیدہ شخص کا ساتھ کون دیتا؟ وہ بے چارہ چار ناچار جیسے بھی کرکے ٹھیلے کے ساتھ رستہ عبور کرنے کی کشمکش میں تھا سوچ یہی آئی کہ شاید اس کے گھر میں کوئی اور کام کرنے والا نہیں ہوگا۔
اب چلتے ہیں اگلے واقعے کی طرف....
اسی طرح ہر بار  کلاتھ مارکیٹ میں ایک عمر رسیدہ شخص دیکھنے میں آتا ہے۔ جسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس عمر میں یہ شخص کام کیسے کررہا ہے؟ وہ شخص جو بمشکل اپنی دو بوڑھی آنکھوں کی بصارت رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک کونے میں اپنی چھوٹی سے ڈبے میں رکھی چیزیں بیچتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ معصوم سا عمر رسیدہ شخص جس کے ہاتھوں میں لرزہ، جس کی آنکھیں ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتیں، جس کی زبان کپکپاتی ہے، وہ اس عمر میں  بچوں کی چیزیں بیچنے پر مجبور ہے۔
 بظاہر تو معلوم ہوتا ہے اس عمر رسیدہ شخص کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ امی جب جاتیں اس شخص کو دیکھتیں، اس سے چیزیں خریدتیں اور وہ ایماندار شخص پیسے گن کر واپس دینے لگتا۔ لیکن امی ہاتھ کے اشارے سے روک کر آگے کی طرف قدم بڑھادیتیں۔ ایک بار امی اس عمر رسیدہ شخص (بابا جی) سے مخاطب ہو ہی گئیں۔
 بابا جی! کیا آپ کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے؟ بابا جی آنکھوں سے   گرتے  موتی رومال سے صاف کرتے ہوئے آواز نکالنے کی کوشش کررہے تھے۔ بمشکل دل کی آہ کو سنبھالتے ہوئے۔  کہنے لگے! بیٹا چار بیٹے ہیں میرے۔ لیکن ایک نے بھی گھر پر نہیں رکھا۔ جس اولاد کے لیے گھر بنایا، اس اولاد نے ہی گھر سے نکال دیا اب میرا کوئی سہارا نہیں۔ امی کے پاس بابا جی کے لیے کوئی جواب نہ تھا جواب ہوتا بھی تو کیا ؟ تھوڑی تسلی، تھوڑا افسوس، کیا اس سے بابا جی کا دکھ ختم ہوجاتا؟ کیا اس سے ان کے بیٹے ان کو گھر لے جاتے ؟ نہیں !! بالکل بھی نہیں۔
 اللہ ہمیں بزرگوں کی خدمت ، عزت و احترام کرنے کی توفیق و طاقت عطا کرے۔ جو ہمارے لیے اتنی قربانیاں دیتے ہیں، جو ہمارے ہر آسائش کے لیے تگ و دوکرتے ہیں، ان کی قدرو قیمت جاننے کی توفیق دے۔  اللہ ہم سب کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی عطا کرے۔ آمین
١۸_جولائی_۲۰۲۰
۲٥_ذوالقعدہ_١٤٤١
 

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی