سیرت خلیفہ ثالث ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (یوم شہادت 18 ذی الحجہ)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
حضرت عثمان غنی/ خلیفہ سوم
حضرت عثمان غنیؓ جلیل القدر صحابی تھے۔ آپؓ کاتب وحی تھے۔ قرآن حفظ کرنے کا اولین شرف آپ کو ہی حاصل تھا۔ آپؓ کا شمار عرب کے ان چند لوگوں میں ہوتا تھا، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اسی لیے آپؓ کاتبین وحی بھی تھے۔ آپؓ دامادِ رسول ﷺتھے۔ آپؓ شرم وحیا کا پیکر تھے۔ نرم دلی، خوش گفتاری، اور صبروتحمل، درگزر اور شرافت جیسا مادہ آپ میں بے پناہ تھا۔ خوش حال ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارتے تھے، ابتداء سے ہی بہت زیادہ مالداراورخوشحال تھی، حتیٰ کہ اسی وجہ سے ’’غنی‘‘کہلاتے تھے۔ خادموں اورغلاموں کی بڑی تعداد ہر وقت موجود رہا کرتی تھی لیکن اس کے باوجود اکثر اپنے کام کاج خود ہی کیا کرتے تھے۔ آپؓ کے گھر کی ایک خادمہ (زبیر بن عبد اللہ ؓ کی دادی) فرماتی ہیں کہ آپؓ رات کو تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو وضو کے لیے پانی کا انتظام خود ہی کرلیا کرتے، کسی خادم کو نہ جگاتے۔ راتوں کو اکثر عبادت میں گزارتے دن میں روزے سے رہتے۔ قطروں پر جاتے تو بے تحاشہ روتے۔ غیر مسلموں کے جنازے کے لیے بھی ادب سے کھڑے ہوجاتے۔ آئیے ذیل میں ان کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اسم گرامی:
آپؓ کا مکمل نام عثمان بن عفانؓ تھا۔
لقب:
آپ ؓ کا لقب غنی تھا۔ آپؓ تجارت کرتے تھے، اور عرب کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا تھا۔ اپنے خاندان کے سب سے امیر ترین شخص تھے۔ دولت کی فراوانی کی وجہ سے آپ غنی کہلانے لگے۔
ذو النورین بھی آپؓ کا لقب تھا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں رقیہؓ اور ام کلثومؓ یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں۔
روایت میں ہے کہ بذریعہ وحی نبی اکرم ﷺ کو اس کا حکم ملا تھا۔
اس لیے آپ کا لقب "ذوالنورین" ہوا یعنی "دو نوروں والے"۔
ولادت:
آپؓ 576 عیسوی میں یعنی عام الفیل کے چھٹے برس پیدا ہوئے۔ ظہور اسلام کے وقت آپؓ 34 برس کے تھے۔
والدین:
آپؓ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام اروٰی بنت کریز تھا۔ آپؓ کی والدہ بیضاء بنت عبد المطلب (ام حکیم) کی بیٹی تھیں۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی سگی پھوپھی تھی۔ یعنی نبی اکرم ﷺ کی سگی پھوپھی حضرت عثمانؓ کی نانی تھیں۔
خاندان اور قبیلہ:
آپؓ قبیلہ قریش کے خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے، جو قبیلہ قریش میں امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔
سلسلہ نسب:
آپؓ کا نسب والد اور والدہ دونوں کی جانب سے پانچویں پشت (عبد مناف) پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے۔
آپؓ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے کچھ یوں ہے:
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف قرشی اموی۔
والدہ کی جانب سے آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے:
عثمان بن اروٰی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد الشمس بن عبد مناف۔
حلیہ مبارک:
آپؓ نہایت خوب صورت تِھے۔ گندمی رنگ، درمیانہ قد، نرم جلد، خوب صورت گھنی داڑھی، چہرہ پتلا، زلفیں دراز، دانت ہموار، بازو بھرے ہوئے، سینہ فراخ، کشادہ کندھے، جسم سڈول اور تمام اعضاء فربہ تھے۔ عموما داڑھی کو زرد رنگتے تھے، دانتوں کو سونے کے تار سے بندھواتے تھے۔
حضرت عثمان فطری طورپر ہی انتہائی شرمیلے تھے، شکل وصورت بھی بہت اچھی اورجاذبِ نظرتھی، اس پرمزید شرم وحیاء کے غلبے کی وجہ سے چہرے پرہمہ وقت عجیب سی معصومیت چھائی رہتی تھی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس حال میں کہ آپ کی رانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں (اسی دوران) حضرت ابوبکرؓ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹے باتیں کررہے تھے، پھر حضرت عمرؓ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عثمانؓ نے اجازت مانگی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا، روای محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کی بات ہے، پھر حضرت عثمانؓ اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے تو جب وہ سب حضرات نکل گئے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوبکر ؓ آئے تو آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عمر ؓتشریف لائے تو بھی آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عثمانؓ آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑوں کو درست کیا تو آپ نے فرمایا (اے عائشہ ! ) کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم: 6209)
قبول اسلام:
حضرت ابو بکر صدیقؓ اسلام لائے تو انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا۔ آپؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام لائے۔ حضرت خدیجہؓ، ابو بکر و علیؓ کے بعد آپؓ چوتھے شخص تھے، جنہوں نے کلمہ حق پر لبیک کہا اور اسلام لائے۔
ذریعہ معاش:
عرب کی روایت کے مطابق آپؓ نے کچھ عرصہ اونٹ چرائے۔ اس کے بعد ذریعہ معاش تجارت کو ہی اپنایا۔ آپؓ نے اپنی محنت، دیانت داری کی بدولت کاروبار میں ترقی کی اور دولت مند لوگوں میں شمار ہونے لگے۔
عشرہ مبشرہ:
آپؓ کا شمار ان دس صحابہ کرام میں ہوتا ہے، جن کو جنت کی خوش خبری ان کی زندگی میں ہی ایک ساتھ سنادی گئی۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کرام سے خصوصیت کے ساتھ دس حضرات کو نامزد کر کے اعلان فرمایا کہ یہ جنتی ہیں۔ ان حضرات کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔ ان دس میں خلفاء اربعہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذو النورین، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم بھی ہیں اور حضور نے سب سے پہلے انہیں کے جنتی ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔
اسلام کے پہلے مہاجر:
جب اسلام کا دائرہ وسیع ہونے لگا تو قریش مکہ کے ظلم وستم بھی بڑھتے چلے گئے۔ مگر نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ہر ظلم وستم سہنے کو تیار تھے۔ کلمہ حق سے منہ پھیرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ کچھ لوگ حبشہ کی جانب ہجرت کرجائیں۔ حبشہ کا بادشاہ رحم دل تھا، وہ.کسی پر بھی ظلم و ستم نہیں کرتا تھا۔
نبی اکرم ﷺ کے حکم سے پہلے ہجرت حبشہ ہوئی۔ نبوت کے پانچویں سال بارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی۔ اس قافلے میں حضرت عثمان غنیؓ اور ان کی زوجہ حضرت رقیہؓ بھی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی خاطر ہجرت کی۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اللہ کے پیغمبر) لوط (علیہ السلام) کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ (معارف الحدیث : 2049)
ازواج:
آپؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں۔
آپؓ کا پہلا نکاح آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ سے ہوا۔ آپؓ کو حضرت رقیہ ؓ سے بہت محبت تھی۔ جب تک کہ حضرت رقیہ ؓ حیات رہیں آپؓ نے کسی اور سے نکاح نہ کیا۔ ہجرت حبشہ میں وہ آپ کے ساتھ تھیں، واپس آکر مدینہ منورہ کی ہجرت میں شریک ہوئیں، اس کے بعد ایک سال زندہ رہیں، 2ھ میں غزوۂ بدر کے موقع پر شدید علالت کے بعد صحتیاب نہ ہوپائیں اور وفات پائی۔
اس کے بعد آنحضرت ﷺ کی چھوٹی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے 3ھ میں نکاح ہوا۔
حضرت رقیہؓ نے بھی نکاح کے چھ سات برس بعد 9ھ میں وفات پائی۔
جب رسول اللہ ﷺ کی دوسری صاحبزادی (ام کلثوم) کا انتقال ہو گیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے عثمان! اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان میں سے ایک کے بعد ایک کا (سب کا) تم سے نکاح کر دیتا، کیوں کہ میں تم سے بہت راضی اور خوش ہوں۔ (معارف الحدیث: 2053)
سخاوت و فیاضی:
آپؓ کا شمار مکہ کے امراء میں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ؓ سخاوت و فیاضی میں بھی بہت آگے تھے۔ ساتھ ہی آپؓ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور غلاموں پر غرض جہاں اسلام کی خاطر مال کی ضرورت پڑتی پیش پیش رہتے۔ آپ نے کئی یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کا ذمہ لیا ہوا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ ایک غلام آزاد نہ کیا ہو (یعنی ہر جمعے ایک غلام آزاد کیا کرتے تھے)۔ چونتیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد سے بیاسی سال کی عمر میں انتقال تک، یعنی اڑتالیس سال مسلسل یہ ہی معمول رہا۔
ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ میں پینے کے پانی کی بڑی دقت تھی۔ مدینے کے گردو نواح میں صرف ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں تھا، جو یہودی کی ملکیت میں تھا، یہودی منہ مانگی قیمت لے کر پانی دیا کرتا تھا۔ آپؓ نے یہودی کو منہ مانگی قیمت (چوبیس ہزار درہم) ادا کرکے کنواں(بئر رومہ) خرید کر وقفِ عام کردیا۔ اس سے مسلمانوں کی بہت بڑی تنگی اور مشکل دور ہوگئی۔
مسجد کی تعمیر میں حصہ:
نبی اکرم ﷺ کے مدینہ تشریف آوری کے بعد ایک مسجد (مسجد نبوی) بنائی گئی۔ مسلمانوں کی روز بہ بروز بڑھتی ہوئی تعداد کی بنا پر یہ جگہ ناکافی ہوگئی تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ خرید کر وقف کرے گا اللہ جنت میں ایسا ہی مکان بنائے گا۔
ہجرت مدینہ:
آپؓ مہاجرین میں سے ہی تھے۔ آپؓ نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جب یہ بات مشہور ہوگئی کہ قریش مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے تو آپ ؓ خوش ہوکر واپس مکہ لوٹ آئے، مگر یہاں سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ مدینہ کی جانب ہجرت کی، جب مسلمان آہستہ آہستہ مدینہ کی جانب ہجرت کرنا شروع ہوگئے تھے اسی دوران حضرت عثمانؓ نے بھی اپنی زوجہ مطہرہ حضرت رقیہؓ اور ایک صاحبزادے (عبداللہ کو ساتھ لے کر جو حبشہ میں پیدا ہوئے تھے) مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس طرح وہ "صاحب الہجرتين" ہیں اور حضرات خلفاء راشدین میں بھی یہ فضیلت ان ہی کو حاصل ہے۔
مواخات:
نبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمانؓ کا رشتہ مواخات ایک انصاری صحابی حضرت اوس بن ثابت انصاریؓ سے کروایا۔ جو مشہور صحابی اور شاعرِ رسول حسان بن ثابت انصاریؓ کے بھائی تھے۔
غزوات میں شرکت:
آپؓ نے تمام غزوات میں شرکت کی اور جواں مردی سے دشمنوں کو زمین بوس کیا۔ آپؓ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے، اس کی وجہ آپؓ کی زوجہ اور صاحبزادئ رسول حضرت رقیہؓ کی مرض الوفات تھی۔ حضرت رقیہؓ انتہائی بیمار تھیں اس لیے نبی اکرم نے انہیں واپس مدینہ بھیج دیا۔ تاکہ وہ وہاں جا کر حضرت رقیہؓ کی تیمار داری کریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قضا و قدر کا فیصلہ تھا کہ وہ صحت یاب نہ ہو سکیں حضور ﷺ کی مدینہ واپسی سے پہلے ہی وفات پا گئیں۔ آپؓ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے، مگر پھر بھی ان کی خاصیت یہ ہے کہ انہیں جنگ میں شامل اصحاب جتنا اجر ملا اور مال غنیمت میں بھی ان کو حصہ دیا گیا۔
صلح حدیبیہ میں بیعت رضوان:
نبی اکرم ﷺ عمرہ کی غرض سے چھ ہجری میں مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قبیلہ خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ کے ذریعے اطلاع ملی کہ قریش مکہ آپ کو داخل نہیں ہونے دیں گے اور انہوں نے جنگ کے لیے ایک دستہ بھی روانہ کیا ہے۔ یہ خبر ملنے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمانؓ کو روانہ کیا کہ قریشِ مکہ کو جاکر بتادیں کہ "ہم جنگ کے لیے نہیں آرہے، نہ ہی ہمیں کوئی سیاسی غرض ہے، ہم صرف عمرہ ادا کرنے آرہے ہیں"۔ حضرت عثمانؓ نے مکہ پہنچ کر موقف سے آگاہ کیا تو اہلِ مکہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ حضرت عثمانؓ کا مکے میں اسلام سے پہلے جو اثر ورسوخ تھا وہ باقی تھا۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ سے کہا: "محمد کو تو ہم زندگی بھر یہاں نہیں آنے دیں گے۔ اس لیے اس بات کو چھوڑو۔ ہاں! اگر تم طواف کرنا چاہو تو کرسکتے ہو"۔ مگر حضرت عثمانؓ نے کہا: "جب تک رسول اللہ طواف نہیں کرلیتے تب تک میں طواف نہیں کروں گا"۔
آپؓ کو پہنچنے تاخیر ہوگئی اور ادھر یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے تمام صحابہ کرام سے بیعت لی کہ ہم عثمان کے خون کا بدلہ لیں گے۔ (اس بیعت کو بیعت رضوان کہا گیا ہے۔) اس بیعت میں ایک ہاتھ نبی اکرم ﷺ نے اپنے لیے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی۔
غزوہ تبوک میں حضرت عثمانؓ کا امداد و سامان پیش کرنا:
جب مسلمان نہایت قحط سالی اور تنگ دستی میں مبتلا تھے، شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ اس دوران نبی اکرم ﷺ کو اطلاع ملی کہ غزوہ موتہ کے شکست خوردہ رومیوں نے جنگ کے لیے مقام تبوک میں تیاریاں کر رکھی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فورا جہاد کی تیاریوں کا حکم دیا۔ اس قحط سالی کے موسم میں بھی جہاں تمام صحابہ نے دل کھول کر مدد کی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنا کل اثاثہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا وہیں حضرت عثمان نے بھی نو سو اونٹ مع سازو سامان کے پیش کیے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ نقد رقم پیش کی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اب عثمان سے کوئی مواخذہ نہیں۔
رفیق النبی ﷺ:
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے۔ (جامع ترمذی: 3698)
دور خلافت:
حضرت عمرؓ نے شہادت کے وقت چھ آدمیوں کو وصیت کی کہ میرے بعد تین دن میں اپنا خلیفہ منتخب کرلینا۔ اس کا مختار حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو بنایا۔
چھ افراد کی کمیٹی میں حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ شامل تھے۔
حضرت عثمان بن عفانؓ کو اکابرین صحابہ سے مشاورت کے بعد مسلمانوں کے خلیفۂ سوم کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔ سب نے ان کی بیعت کی۔
ناشر القرآن (عہد عثمانی میں سب سے اہم کارنامہ):
عہد عثمانی میں سب سے اہم کارنامہ قرآن کو ایک ہی لہجے و قرآت پر جمع کرنا ہے۔
تدوین قرآن دراصل حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ہوچکی تھی، جب مرتدین پر قابو پانے کے لیےجنگ یمامہ ہوئی۔ اس جنگ میں ستر حفاظ کرام شہید ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے اس جانب توجہ مبذول کروائی تھی کہ قرآن کو ایک کتابی شکل میں جمع کرلیا جائے تاکہ قرآن پچھلی کتابوں کی طرح ضائع نہ ہوجائے۔ دور صدیقی ہی میں قرآن کی کتابی شکل کو مصحف کہا گیا اور اسی نسبت کی وجہ سے صدیق اکبر کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں سلطنت اسلامی کی حدود دور دور تک پھیل گئیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ کے موقع پر لشکر اسلام کے سربراہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کے ذریعے حضرت عثمان غنیؓ کو خبر ملی کہ امام اور مقتدیوں میں بعض آیات کی قرات کے بارے میں جھگڑا ہوگیا ہے۔ لوگ قرآن کی قرآت پر جھگڑا کررہے ہیں۔ ہر ایک اپنے شیخ کی قرآت کو ترجیح دیتا ہے دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ تلواریں نکل آئیں اور خون ریزی ہو، کہیں اس بات پر لوگوں کے درمیان جنگ نہ ہوجائے۔
یہ دیکھتے ہی حذیفہ بن یمانؓ سب سے پہلے حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے انہیں اطلاع دی۔ اس تفریق سے بچانے کے لیے اور لوگوں کو ایک قرآن پر متحد کرنے کے لیے حضرت عثمانؓ نے فورا زید بن ثابت ؓ (جنہوں نے پہلے بھی اس کام کو سر انجام دیا تھا) کو بلا بھیجا۔
حضرت عثمانؓ نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں حضرت زید بن ثابت انصاریؓ کے ساتھ تین قریشی صحابہ کو شامل کیا۔ تاکہ ان کے مابین اگر اختلاف ہو تو قرآن کو قریش کے لہجے پر رکھا جائے۔ کیوں کہ قرآن قریش کی زبان میں ہی نازل ہوا تھا۔
حضرت عثمانؓ نے قرآن کے چھ نسخے مرتب کروائے تھے۔ ان میں تین کوفہ، بصرہ اور شام بھجوائے، ایک مکہ اور ایک مدینہ، جب کہ ایک نسخہ اپنے پاس رکھا۔ یہ نسخہ مصحف الامام کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ باقی تمام مصاحف کو نذرِ آتش کردیا۔
اس عمدہ کارنامے کی وجہ سے آپ کو "ناشر القرآن" بھی کہا جاتا ہے۔
کارنامے:
مسجد نبوی کی توسیع حضرت عمرؓ کے عہد میں ہوچکی تھی مگر اب مزید وسعت کی ضرورت پیش آئی۔ آپؓ نے بڑے اہتمام سے اس کام کی تعمیر و توسیع کے لیے عمال طلب کیے اور خود بھی اس کی نگرانی کی۔ یہ کام دس ماہ جاری رہا۔
فتوحات:
فتوحات کا سلسلہ دور صدیقی سے جاری تھا۔ آپؓ کے دور خلافت میں افریقہ کے علاقے فتح ہوئے۔ ایران کی فتح مکمل ہوئی۔ ایران کے متصل ممالک افغانستان، خراسان وترکستان بھی فتح ہوئے۔ اسی طرح کرمان، کابل، غزنی، طبرستان، قبرص سے آبنائے فاسفورس تک فتوحات حاصل کیں۔ اسلامی حدود سندھ و کابل سے لے کر آبنائے جبرالٹر تک جا پھیلی۔
فتنہ اور سازشیں:
حضرت عمرؓ کے بعد خلافت کا بار حضرت عثمانؓ پر پڑا تو سابقہ خلیفہ کا اثر لوگوں میں باقی تھا اور یہ اثر تقریبا چھ سال تک رہا۔ حضرت عمرؓ کی سختی کی وجہ سے فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ مگر جب حضرت عثمانؓ خلیفہ بنے تو ان کی نرمی کو لوگوں نے محسوس کیا اور دشمنوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ خلیفۂ وقت کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمنوں نے سازشوں کے بازار گرم کیے۔
یہودی اسلام کے روز اول سے ہی دشمن تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ آپؓ کے دور خلافت میں سب سے بڑا فتنہ عبد اللہ بن سبا تھا۔ فتنوں اور سازشوں کی ابتدا اس یہودی نے کی۔
عبداللہ بن سبا شہر صنعاء کا رہنے والا ایک یہودی تھا، اس نے حضرت عثمانؓ کی خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمان ہی دنیا کی سب سے فاتح قوم بن گئی ہے اور اس قوم کو بہت زیادہ مال و حشمت حاصل ہے، مدینہ میں آکر بظاہر مسلمان بن کر رہنے لگا، اس کا اصل مقصد محض دولت کے حصول کے ساتھ اپنے ذہن میں مسلمانوں کی طاقت کمزور کرنے اور اسلام کی شان وشوکت کو ختم کرنے کی سازش بھی تھی، چناچہ وہ مدینہ میں اپنی سازش کی تکمیل میں مصروف ہوگیا۔
عبد اللہ بن سبا نے اہل بیت کی محبت کی آڑ میں لوگوں کو خلیفہ وقت حضرت عثمانؓ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ حضرت ابو بکر و عمرؓ پر بھی الزام عائد کیے کہ ان کی خلافت زبردستی کی خلافت تھی۔ اس نے کہا "خلافت کا حق صرف اہل بیت کو ہے۔" اس بات کو آڑ بنا کر اس پروپیگنڈے کا آغاز بصرہ سے کیا۔ مگر بصرہ میں اس کی نہیں چل سکی انہوں نے اس کو بصرہ سے نکال باہر کیا۔ کوفہ پہنچا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوا، لیکن ان دونوں جگہ پر اپنے اثرات چھوڑ گیا۔ اس کی وجہ سے حالات مزید بگڑتے گئے۔
اس موقع پرمدینہ شہرمیں موجودکبارِصحابہ کرام نے اپنے نوجوان بیٹوں کوحضرت عثمانؓ کے گھرکی حفاظت پرمامور کررکھاتھا، کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
شہادت:
باغیوں نے اب فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے مذموم ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ افطار کا وقت قریب ہی تھا کہ باغی پڑوس کے مکان میں (ابو حزم انصاری کے گھر) میں داخل ہوئے اور دیوار پھلانگ کر حضرت عثمانؓ کے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ سیدھا اس مقام پر پہنچے، جہاں حضرت عثمانؓ خشوع و خضوع سے قرآن کی تلاوت کرنے میں مشغول تھے۔ باغی نے حضرت عثمانؓ کے سر پر وار کیا۔ خون بہنے لگا اور قرآن کے نسخے کی اس آیت پر ٹپکنے لگا۔
ترجمہ:
اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔ (اے مسلمانوں ! کہہ دو کہ) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے ؟ اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرة: 137،138)
باغیوں نے دوسرا وار کیا، حضرت عثمانؓ نے مزاحمت کرکے ہاتھ سے روکا تو ان کا بازو شہید ہوگیا۔ تیسرے وار پر حضرت عثمان ؓ کی زوجہ حضرت نائلہؓ آپہنچی اور بچانا چاہا، جس سے ان کے ہاتھ کی انگلیاں کٹ کر دور جاگریں۔ حضرت عثمانؓ نے اس وار سے جام شہادت نوش فرمایا۔
18 ذی الحجہ 35 ہجری کو یہ واقعہ پیش آیا۔
نماز جنازہ و مقام مدفن:
تین دن آپ کا جسد اطہر بے گوروکفن رہا۔ اس کے بعد حضرت جبیر بن مطعمؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
ہفتے کی رات مغرب و عشاء کے درمیان "بمقام حش کوکب" (جو جنت البقیع کی کشادگی کے لیے خریدا تھا) میں مدفن ہوئے۔
عمر:
آپؓ نے 82 سال کی عمر میں شہادت پائی اور خالق حقیقی سے جاملے۔
اللہ ان کی روح کو پر سکون رکھے اور ان کے ذریعے سے ہماری مغفرت فرمائے آمین
مدت خلافت:
24 ہجری تا 35 ہجری تک تقریبا 12 سال تک خلافت کی۔
مرویات:
حضرت عثمان غنیؓ سے 146 احادیث مروی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب

6 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی