حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ مظہر انواہند، صاحب کرامات (ولی کی طرف سے بغیر دعوی نبوت کیے خلافِ عادت کام کے ظاہر ہونے کو ’’  کرامت ‘‘کہتے ہیں)، قرب الہی سے سرشار تھے۔ آپؒ کو حضورﷺ کی طرف سے فریضہ سونپا گیا۔ آپؒ نے ہند کو تاریکی سے روشنی میں تبدیل کیا۔ آپؒ کے ذریعے ہندوستان میں نوے لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ آپؒ نے سلسلہ چشت کو آگے بڑھایا، جس کے بانی خواجہ ابو اسحاق شامیؒ تھے۔ ان کی تعلیمات کو آپؒ نے اجمیر میں عام کیا۔ آپؒ کے نزدیک مذہب کے معنی خدمت خلق کے ہیں۔ آپؒ اپنے مریدین کو تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی، سورج جیسی گرم جوشی اور زمین جیسی مہمان نوازی پیدا کریں۔ ذیل میں آپ کا تعارف بیان کیا جارہا ہے۔
مکمل نام
آپؒ کا نام معین الدین تھا۔
والدین:
آپؒ کے والد ماجد کا نام خواجہ غیاث الدین حسنؒ تھا۔ آپؒ بہت متقی اور پرہیزگار تھے۔ آپؒ کی والدہ کا نام بی بی ماہ نورؒ تھا۔ آپ کی کنیت ام الورع تھی۔
خاندان:
 آپؒ کا خاندان سنجرستان کے اصل سادات میں سے ہے۔
پیدائش:
آپؒ سیستان کے ضلع سنجر میں 14 رجب المرجب 537ع کو پیدا ہوئے۔
سلسلہ نسب: 
آپؒ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے پشت میں امام الشہداء حضرت حسنؓ بن علیؓ کرم اللہ سے جا ملتا ہے۔ جبکہ سلسلہ مادری گیارہ واسطوں سے حضرت امام حسن بن علیؓ سے جا ملتا ہے۔
مصنف الاخیار نے آپ کا سلسلہ نسب اس طرح دیا ہے:
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ بن خواجہ غیاث الدین حسنؒ بن خواجہ محمد طاہرؒ بن خواجہ غیاث اؒللہ بن خواجہ عبد العزیزؒ بن خواجہ ابراہیم ؒ بن خواجہ حضرت حسن عسکریؒ بن حضرت علی نقیؒ بن حضرت محمد تقیؒ بن حضرت علی رضاؒ بن حضرت موسی کاظمؒ بن حضرت بن حضرت جعفر صادقؒ بن حضرت محمد باقرؒ بن حضرت زین العابدینؓ بن حضرت امام حسینؓ بن حضرت علیؓ بن ابو طالبؓ
دوسری کتب مثلا مرآت الانساب اور خزینۃ الاصفیاء میں شجرہ نسب ذرا مختلف ہے۔ البتہ اس پر اتفاق ہے کہ پدری سلسلے سے آپ حسینی مادری سلسلے سے حسنی سید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
لقب:
آپؒ کئی القابات سے نوازے گئے تھے جو درج ذیل ہیں:
معین الحق، حجۃ الاولیاء، سراج الاولیاء، فخر الکاملین، قطب العارفین، ہند الولی، عطاء رسول، تاج اولیاء، شاہ سوار قاتل کفار، مغيث الفقراء او معطي الفقراء، سلطان الہند، ولی الہند، ہند الولی، وارث النبی فی الہند، خواجۂ خواجگان ، خواجہ اجمیری، خواجہ غریب نواز، امام الطریق، خواجہ بزرگ، پیشواء مشائخ ہند، شیخ الاسلام، نائب النبی فی الہند
حضرت کا مقام اکابر صوفیا اور اولیا کرام کی نظر میں:
برصغیر پاک وہند کے صوفیا اور اولیا اللہ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا مرتبہ بہت زیادہ بلند سمجھا جاتا ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے آپؒ کو قطب المشائخین کے لقب سے نوازا۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے آپ کو ملک المشائخ، سلطان السالکین، منہاج المتقین، قطب اولیا، شمس الفقراء، ختم المبتدین کے القاب سے مخاطب کیا ہے۔
سیر العارفین کے مصنف نے آپؒ کو سلطان العاشقین، برہان العارفین کے لقب سے پکارا۔
سیر الاقطاب میں آپؒ کو قطب الاقطاب، حجۃ الاولیا، مبسط انوار، فخر المعرفت والحقیقت وغیرہ کے القاب سے نوازا۔
صاحب سفینۃ الولیاء نے آپؒ کو زبدۃ المشائخ کے لقب سے نوازا۔
شہاب الدین غوری کی فتوحات کے بعد ہندوستان میں تاریکی روشنی میں بدل گئی۔ اس وجہ سے ان کو وارث النبی فی الہند کا لقب ملا۔
مولانا عبد الحق محدث دہلویؒ نے ان کو سر حلقہ مشائخ کبار کے لقب سے نوازا۔
اخلاق و عادات:
جہاں آپؒ عشق الہی رکھتے تھے وہیں آپ عشق رسول میں بھی سرشار تھے۔ آپؒ جب بھی احادیث پڑھا کرتے تو بے اختیار رو پڑتے تھے۔ آپؒ مجاہدہ وریاضت بھی کیا کرتے تھے۔ آپؒ رات کو بہت کم سوتے اور عشاء کے وضو سے ہی نماز فجر ادا کیا کرتے تھے۔ آپؒ ہمیشہ عفووددرگزر سے کام لیتے تھے۔آپؒ میں سخاوت و فیاضی نمایاں تھیں۔ اسی وجہ سے آپ کو غریب نواز کا لقب ملا۔ آپ ہمسایہ کے حقوق کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ خوف الہی سے لرزتے رہتے۔ جب کبھی آخرت اور عذاب قبر کا ذکر ہوتا تو آپؒ پر گریہ طاری ہوجاتا۔ لباس اور کھانا عام ہوتا تھا۔ آپؒ کو سماع کا بہت ذوق تھا۔
تعلیم وتربیت:
کم سنی ہی میں آپؒ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بعد آپؒ کی والدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کو جاری رکھا۔ قرآن مجید آپؒ نے اپنی والدہ محترمہ سے ہی پڑھا۔ ابتدائی تعلیم سنجر اور خراساں سے حاصل کی۔ پندرہ سال کے تھے کہ والدہ بھی وفات پاگئیں۔
حضرت ابراہیم قندوزیؒ سے ملاقات اور محبت الہی کا جذبہ بیداری:
 والد کی طرف سے ترکے میں ایک باغ ملا تھا۔ والدہ کی وفات کے بعد آپؒ زیادہ تر اسی باغ میں رہ کر دیکھ بھال کرنے لگے اور باغبانی کا کام سنبھال لیا اور اسی کی آمدنی سے گزر بسر کرتے۔ زیادہ تر عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے۔ یہاں تک کہ ایک روز حضرت ابراہیم قندوزیؒ نام کے ایک مجذوب بزرگ کا اس باغ کی طرف گزر ہوا۔ حضرت خواجہ نے ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور عزت و احترام سے اپنے باغ میں لائے اور دو طباق (تسلا، رکابی، پلیٹ، تھالی) انگور کی حضرت کے سامنے پیش کردی۔ مجذوب کامل حضرت خواجہؒ سے خوش ہوئے اور واپسی کے وقت کھلی (انگور کا خوشہ، غلہ) کا ایک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہؒ کے منہ میں ڈال دیا۔
اسی وقت سے ولولہ محبت اور ذوق الہی کا جذبہ دل میں بیدار ہوا، دنیا اور دنیاوی کاموں سے منہ موڑ کر باغ اور سب متروکہ جائداد کو فروخت کرکے غرباء اور فقراء میں تقسیم کردیا اور خود ترکستان کے علاقے میں سمرقند اور جیسے عظیم شہر آباد تھے۔ خانقاہوں اور مدرسوں میں صوفیا اور علما تعلیم دیتے تھے وہاں پہنچ کر تحصیل علوم دینی میں مشغول ہوگئے۔
حصول علم:
وہاں مولانا اشرف الدینؒ سے قرآن حفظ کیا، اور پھر بخارا پہنچے تو ان دونوں الشیخ حسام الدین بخاری ؒ کی ذات بڑی مشہور و معروف تھی آپ نے ان کے تلامذہ میں شمار ہوکر تفسیر قرآن، حدیث، فقہ اور علم معقول و منقول کی تکمیل پانچ سال تک بخارا میں رہ کر کی۔ وہیں سے مزید تعلیم کے لیے سمرقند اور پھر وہاں سے عراق پہنچے۔
تلاش مرشد:
سمرقند اور عراق میں ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد بھی علم کی پیاس نہ بجھی۔ مگر اس علم کو حاصل کرنے کے بعد آپؒ کے دل میں اللہ کی محبت کا جذبہ بیدار ہوا تو اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کسی کامل مرشد کی تلاش شروع کی۔ آپ نیشاپور کے قریب قصبہ ہارون پہنچے وہاں امام الاولیا حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ بھی موجود تھے۔ آپؒ ایک عظیم المرتبت بزرگ تھے اور لوگ جوق در جوق ان سے فیوض و برکات حاصل کرنے آتے تھے۔ آپؒ نے جب ان کے بارے میں سنا تو آپ نے ان کی خدمت میں حاضری دی۔ آپؒ کو وہاں محسوس ہوا کہ یہاں جو باطنی اور راہ سلوک کی طلب دل میں ہیجان برپا کیے ہوئے تھی، وہ جستجو پوری ہوجائے گی۔ بزرگ نے حضرت خواجہؒ کو دیکھ کر اندازہ کرلیا کہ یہ شخص ایک دن آفتاب بن کر چمکے گا۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ سے بیعت کا واقعہ:
سمرقند اور بخارا، عراق اور عرب میں علوم شریعہ کی تحصیل کے بعد علوم باطنی اور راہ سلوک کی طلب اور جستجو دل میں تھی۔ اس جستجو اور طلب میں جب آپؒ خواجہ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں پہنچے تو انہیں اپنی منزل کا پتا چل گیا۔ نہایت عقیدت و احترام سے حلقہ ارادت میں شامل ہونے کی التجا کی۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ آپ ہی کے منتظر تھے۔ وہ آپؒ سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ پہلے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھنے اور  اس کے بعد قبلہ کی طرف منہ کرکے سورۃ بقرۃ پڑھنے کو کہا اس کے بعد اکیس مرتبہ سبحان اللہ پڑھنے کو کہا پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا کہ "معین الدین میں نے تمھیں خدا کے حوالے کیا اور آج سے تم اس کے مقبول بندے ہوئے"۔ پھر قینچی لے کر بال تراشے اور ایک دن اور رات مجاہدہ کرنے اور ہزار بار سورۃ اخلاص پڑھنے کا حکم دیا۔
تعمیل حکم کے بعد جب حاضر ہوئے تو حضرت نے خواجہ معین الدینؒ سے فرمایا کہ سر اوپر اٹھا کر دیکھو کیا نظر آرہا ہے؟ خواجہ معین الدینؒ نے فرمایا کہ عرش سے تحت الثری تک دیکھ رہا ہوں۔ اسی طرح تین ہزار مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھواکر اوپر دیکھنے کو کہا پوچھا بتا کیا نظر آتا فرمایا اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوقات جب مرید نے حجاب عظمت اور اٹھارہ ہزار عالم کا مشاہدہ کرلیا تو پیر دستگیر نے سینے سے لگا کر فرمایا تمہارا کام پورا ہوگیا۔ اس کے بعد مٹھی بھر سونے کے سکے دے کر اسے صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد چند روز تک خدمت میں رہنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد بیس برس تک سفر و حضر میں پیر کے ساتھ رہے اور آپ کی خدمت اور صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔
خلافت:
ایک مرتبہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اپنے پیر دستگیر حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کے ساتھ مکہ معظمہ گئے تو پرنالہ کے نیچے کھڑے ہو کر حضرت پیر نے اپنے مرید کے لیے دعا فرمائی تو غیب سے آواز آئی: "معین الدین میرا دوست ہے میں نے اس کو اپنے مقبول اور برگزیدہ بندوں میں شامل کرلیا"۔
جب بارگاہ الہی اور دربار رسالت کی طرف سے خواجہ معین الدین کو قبولیت کا پروانہ عطا ہوچکا تو وہ وقت تھا کامل مرشد بھی انہیں خرقہ خلافت سے سرفراز فرمائیں چناں چہ پیر نے اپنا خرقہ، مصلے، نعلین، چوبی اور عصا مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا:
"یہ چیزیں ہمارے پیروان کی طریقت کی یادگار ہیں اپنے کو آپ ان کا اہل ثابت کرنا اور اپنے بعد جس کو اس کا اہل سمجھنا اس کے سپرد کردینا"۔
چہار ترکی:
اس کے بعد ان کے پر کلاہ چہار ترکی رکھی اور اپنے مرشد حاجی شریف زندانی کی نصیحت دوہرائی کہ چہار ترکی سے چار ترک ہیں۔
اول: ترک دنیا
دوم: ترک عقبی یعنی ہر وقت اپنی ذات کے لیے بھلائی نہ طلب کرتا رہے بلکہ سوائے ذات الہی کی رضا کے اور کوئی غرض نہ رکھے۔ 
سوم: سونے اور کھانے کا ترک کرنا مگر صرف اسی قدر جس سے زندگی قائم رہے۔
چہارم:خواہش نفس کا ترک کرنا یعنی جو نفس کہے اس کے خلاف عمل کرنا۔
اس کے بعد فرمایا جو ان چار چیزوں کو ترک کردے وہ ہی اس کا حق دار ہے۔
حقیقت اور معرفت کی روشنی:
جب حضرت خواجہ معین الدینؒ اپنے مرشد کے پاس سے سلوک اور طریقت کے منازل طے کرچکے تو حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ نے ان کو رخصت کردیا۔ آپ مختلف شہروں میں اولیاء کرام کے مزارات پر حاضری دیتے ہوئے فقیروں اور درویشوں کی صحبت کا فیض حاصل کرتے ہوئے بلخ تشریف لائے اور حضرت شیخ احمد خضرویہؒ کی خانقاہ میں جلوہ افروز ہوئے۔ پھر چند روز یہیں قیام فرمایا۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ سفر کے دوران طباق، نمکدان اور تیر وکمان اپنے ساتھ رکھتے جہاں بھوک کا غلبہ محسوس ہوتا تو پرندہ شکار کرکے اس سے اپنی بھوک کا انتظام فرماتے۔ ایک مرتبہ بھوک کی شدت محسوس ہوئی تو آپؒ نے ایک کونج (مرغابی) کا شکار کیا اور ذبح کرکے خادم کو دیا تاکہ وہ اسے صاف کرکے بھون لے اور خود نماز میں مشغول ہوگئے۔
جس جگہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، وہاں ایک مشہور فلسفی وحکیم مولانا ضیاء الدینؒ کا گھر موجود تھا. انہوں نے قریب ہی مدرسہ قائم کیا ہوا تھا، جہاں دوردراز سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے۔ ان کا وہاں سے گزر ہوا وہ اپنے گھر کی طرف جارہے تھے تو انہوں نے خادم کو گوشت بھونتے اور خواجہ معین الدینؒ کو نماز پڑھتے دیکھا اور خادم سے سوال کیا کہ تم کون ہو اور یہ بزرگ کون ہیں؟ خادم نے جواب دیا حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں۔ حکیم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا، جو ولایت اور کرامات کو نہیں مانتے تھے۔ اسی دوران خواجہ معین الدینؒ نے نماز سے فراغت حاصل کرکے مولانا ضیاءالدین کی طرف دیکھا تو ان پر سکتہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ آپؒ نے ان کے سینہ پر اپنا دست مبارک پھیرا تو ان کی کیفیت سنبھلی، ہوش آتے ہی خواجہؒ کے قدموں میں گر پڑے آپ نے ان کو تسلی دی۔ خادم کونج بھون کر لایا تو کچھ حصہ مولانا ضیاء الدینؒ کو بھی دیا، مولانا نے ایک لقمہ ہی کھایا تھا کہ ان کے دل کی دنیا بدلی اور جو عقائد فاسدہ اولیاء کرام اور ولایت و کرامات سے متعلق تھے وہ دور ہوگئے۔ حقیقت و معرفت کی روشنی سے دل منور ہوگیا اور آپؒ کے دست شفقت پر بیعت کرلی۔
ہندوستان جانے کا حکم:
حضرت نے جب سلوک وعرفان کی منازل طے کرلیں تو اپنے وطن تشریف لے آئے۔ وطن میں قیام کئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ آپؒ کو بیت اللہ اور روضہ اطہر کی زیارت کی طلب پیدا ہوئی۔ آپؒ نے رخت سفر باندھا اور تسکین قلب حاصل کی۔
آپؒ کئی دنوں تک روضہ انور کے پاس عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔ ایک دن اسی طرح عبادت و ریاضت میں مستغرق تھے کہ دربار رسالت سے حکم ہوا کہ "معین الدین تو ہمارے دین کا معین اور مددگار ہے، تمہاری جگہ ہندوستان میں ہے تمہیں فورا روانہ ہوجانا چاہیئے۔ وہاں اجمیر نام کا ایک شہر ہے، وہاں کفر کا اندھیرا چھایا ہوا ہے تمہاری اس مدد سے وہاں تاریکی روشنی میں بدل جائے گی"۔
آپؒ یہ سن کر بہت خوش ہوئے ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اجمیر کہاں ہے؟ آپ کو اچانک اونگھ آگئی خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپؒ کو مشرق تا مغرب کی سیر کروائی گئی اور اجمیر بھی دکھادیا گیا۔ اس کے بعد آپؒ نے سفر شروع کیا اور راستے میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضری دی اور وہاں سے اجمیر کی جانب روانہ ہوگئے۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ نے اپنے مرید کو اپنے خواجگان کی نعمت حوالے کرکے سفر کے لیے رخصت فرمایا۔
اجمیر میں تشریف آوری:
آپ اپنے چالیس ساتھیوں کے ساتھ مختلف مقامات پر مشائخ عظام سے ملاقات کرنے اور صحبت سے فیضیاب ہونے ملتان، لاہور اور دہلی کے راستے اجمیر میں وارد ہوئے۔ ان دنوں ہندوستان میں گھٹاٹوپ اندھیرا تھا۔ لوگ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے اور مختلف چیزوں کی پرستش کرتے تھے۔
جہالت کی تاریکی سے نکالنے اور انسانیت کا مقام بتلانے کے لیے ایک برگزیدہ بندے حضرت خواجہ معین الدینؒ کو اجمیر بھیجا گیا۔ اس وقت دہلی اور اجمیر پر پرتھوی راج حکومت کررہا تھا۔
اجمیر میں شہرت:
آپؒ نے اجمیر تشریف لانے کے بعد شہر سے دور ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔ وہاں اجمیر اور دہلی کے راجہ پرتھوی راج کی حکومت تھی۔ وہ جگہ اونٹوں کے باندھنے کے لیے تھی۔ رات کے وقت پرتھوی راج کے غلام اونٹوں کو لے کر آئے تو غلام درویش (خواجہ معین الدینؒ) کو دیکھ کر کہا: "یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے لیے اس لیے آپ یہاں سے اٹھ جائیے"۔ آپؒ نے فرمایا: "ٹھیک ہے تم اپنے اونٹوں کو بٹھالو ہم یہاں سے اٹھ جاتے ہیں"۔ اس کے بعد وہاں سے دور ایک مقام تالاب اناساگر کے کنارے ایک پہاڑ پر تشریف لے گئے۔
راجہ کے ملازمین نے اونٹوں کو بٹھادیا اور صبح اٹھانے کے لیے آئے تو ہر کوشش کے باوجود اونٹ وہاں سے نہیں اٹھے اور ملازم ناکام ہوگئے، لوگوں کا مجمع وہاں جمع ہوگیا۔ پرتھوری راج کو اس کی خبر دی گئی تو اس نے سوچ کر کہا کہ اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ تم اس بزرگ سے جاکر معافی مانگ لو۔ ملازمین نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپؒ نے فرمایا: "جاؤ تمہارے اونٹ کھڑے ہوگئے ہیں"۔ وہاں جاکر دیکھا تو واقعی ایسا ہی ہوا، اونٹ وہاں کھڑے تھے. پرتھوی راج اس بات سے مزید حیران ہوا اور اس طرح آپ کی شہرت کے چرچے اجمیر میں پھیل گئے۔
بچھیا کے دودھ دینے کی کرامت اور گوالے کا قبول اسلام:
جس وقت آپؒ اناساگر کے قریب ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے، اس وقت ایک گوالہ گائیں چرانے لے کر آیا۔ آپؒ نے اس سے فرمایا کہ ہمیں اس گائے کا دودھ پلاؤ تو گوالے نے کہا: ؒیہ گائیں پرتھوی راج کی ہیں اور اس میں سب بچھڑیاں ہیں ایک بھی دودھ نہیں دیتی"۔ آپ نے ایک گائے کی طرف اشارہ کیا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ گوالہ بھی حیران ہوا اور آپ کو اس گائے کا دودھ نکال کر پیش کیا۔ آپ ؒ کی کرامت سے گوالے نے اتنا دودھ دوہا کہ آپ کے ساتھ آپ کے چالیس ساتھیوں نے بھی خوب سیر ہوکر پیا۔ آپؒ کی یہ کرامت دیکھ کر گوالے نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
اناساگر کا پانی خشک ہوگیا:
اناساگر ایک ایسا مقام ہے، جہاں ہندوؤں کے بے شمار مندر بنے ہوئے تھے. وہاں ایک ہزار بت موجود تھے اور تین سو پجاری مندروں میں رہتے تھے۔ ان مندروں کو روشن کرنے کی غرض سے راجہ ہر روز تین من تیل بھجوایا کرتا تھا۔ ایک مندر راجہ کے لیے خاص تھا،جسے راج مندر کہتے تھے۔ وہاں کسی عام شخص کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ ان مندروں کے نزدیک ہی یہ تالاب تھا۔ حضرت خواجہؒ نے یہیں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ یہاں سے آپؒ اور ان کے ساتھی کرنے کی غرض سے آتے تو وہاں کے برہمنوں کو یہ بات ناگوار لگتی۔ ان کے نزدیک حوض میں مسلمانوں کا ہاتھ ڈالنا اس کو ناپاک کردینے کے مترادف تھا۔ چناں چہ انہوں نے راجہ کو ان کی شکایت بھجوائی تو راجہ نے کہا ان کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ لوگوں نے ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا۔ ساتھیوں نے آکر خواجہ معین الدینؒ کو سارا ماجرا بتایا تو آپؒ نے حکم دیا کہ حوض سے ایک پیالہ پانی لے کر آؤ۔ ابھی پیالہ بھرا ہی تھا کہ حوض کا سارا پانی خشک ہوگیا۔ یہ دیکھ کر برہمن خوف زدہ ہوئے اور پھر راجہ کو شکایت بھجوائی۔
راجہ نے حکم بھجوایا کہ یا ان سے کہو وہ خود شہر چھوڑ جائیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو زبردستی ان کو وہاں سے نکالا جائے۔ راجہ نے پولیس کے ذریعے ان کو وہاں سے نکلوانے کی کوشش کی۔ پولیس اور برہمن آپ پر حملہ کرنے لگے کہ آپ کو جب اناساگر کے حوض کے بارے میں جب لوگوں نے آپ کو بتایا کہ یہ وہ ہی جگہ ہے۔ جہاں پر میر سید حسن خنگ سوار جہاد کے دوران قیام پذیر ہوئے تھے تو آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ میں اپنے بھائی کے ملک پر دوبارہ قابض ہوں گا اور یہ تمام بت خانے جو پھیلے ہوئے ہیں، اللہ کی مدد سے جلد ہی سب کو منہدم کردوں گا۔ راجہ نے جب دیکھا کہ دھمکی سے کام نہیں چلنا تو اس نے بڑے بت خانے کے دیو کو مقابلے کے لیے بھیجا۔
آپ نے اپنے چہیتے مرید حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کو دہلی می ٹھہرنے کی ہدایت کرکے خود تاراگڑھ کے قلعے میں بیٹھے ہوئے بتوں کو ضرب کلیمی سے روشناس کرانے کی ٹھانی۔ جن سرکش راجپوتوں نے بڑے بڑے مہاراجہ کے دربار میں سر نہیں جھکائے تھے، وہ آپ کے قدموں سے لپٹے ایمان کی بھیک مانگ رہے تھے۔
ہر غلط رسم ورواج کو ختم کرکے توحید کے جلو سے منور کرکے زبردست انقلاب برپا کردیا تھا۔ محبت، اخوت اور مساوات کا سبق پڑھایا۔ ہزاروں کچلے ہوئے اور بے سہارا مظلوم انسان آپ کے گرد جمع ہوگئے، اور آپ کے ہاتھ پر مشرف بااسلام ہونے لگے۔
پرتھوی راج یہ عظیم انقلاب حیرت اور خوف سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بارہا اپنے سپاہیوں اور جادوگروں کے ذریعے ان کو اجمیر سے نکلوانے کی کوشش کی لیکن جو آپ کے قتل کے لیے جاتا مشرف بااسلام ہوجاتا۔
دیو سے مقابلہ:
دیو کفار کی باتوں سے سمجھ گیا تھا کہ مقابلہ بڑے صاحب کمال اور طاقتور انسان سے ہے اس لیے اس نے بہت سے کفار کو افسوں سکھایا اور بہت بڑا مجمع لے کر مقابلے کے لیے بڑھا۔ جب حضرت خواجہ معین الدین ؒ کو ان کے ساتھیوں نے اطلاع دی تو آپ نے فرمایا: "فکرمند نہ ہوں ان کافروں سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اللہ نے چاہا تو وہ دیو خود راہ راست پر آجائے گا"۔
چناں چہ جب وہ دیو کفار کی جماعت کو ساتھ لے کر آیا تو آپؒ نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو وہ ہیبت سے کانپنے لگا اور بے اختیار رام رام کے بجائے رحیم رحیم پکارنے لگا۔ دیو الٹا اپنے ہی ساتھیوں کو دیکھ کر گھورنے لگا۔ وہ سب یہ منظر دیکھ کر بھاگ گئے۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے تھوڑی دیر بعد ایک پیالہ پانی اس دیو کو بھجوادیا، دیو نے شوق سے وہ پیالہ پیا، اس کے بعد اس کے کفر کی تاریکی جاتی رہی اور وہ مشرف بااسلام ہوگیا۔
پرتھوی راج کی سرکشی اور اس کا انجام:
کچھ دنوں کے بعد حضرت خواجہ معین الدینؒ نے اپنے خاص آدمی راجہ کے پاس بھیجے کہ اس کافر کو سمجھائیں اور اسلام لانے کی ترغیب دیں لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مزید خواجہؒ کو جادوگروں کے ذریعے پریشان کرنے لگا۔ تب آپؒ نے فرمایا کہ اگر اس بد بخت نے اسلام قبول نہ کیا تو اس کو زندہ لشکر اسلام کے حوالے کردیا جائے گا۔ پھر یہی ہوا۔ کچھ دن بعد سلطان شہاب الدین غوریؒ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہؒ اسے حکم دے رہے ہیں کہ: اے شہاب الدین! اللہ تعالی نے ہندوستان کی بادشاہت تجھے عطا فرمائی ہے جلد ہی اس طرف متوجہ ہوا اور خون ریز جنگ کے بعد دہلی بھی فتح کرلیا۔
سلطنت کا انتظام مکمل کرکے اپنے سپہ سالار قطب الدین ایبک کو ہندوستان کی حکومت کا نائب بنا کر خراسان کی طرف واپس ہوا اور قطب الدین ایبک نے ایک مستحکم اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔
ازدواجی زندگی:
آپؒ کی جوانی کا بیشتر حصہ تو عبادت وریاضت میں ہی گزرا۔ پھر آپؒ نے حضور اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق ازدواجی زندگی بھی بسر کی۔ اجمیر تشریف لانے کے بعد آپؒ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی سید وجیہہ الدین (حاکم اجمیر) کی دختر حضرت عصمت اللہ بی بیؒ اور دوسری بی بی امة اؒللہ سے جو کسی ہندو راجا کی بیٹی تھیں اور مسلمان ہوگئی تھیں۔
اولاد:
آپ کے تین بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:
حضرت سید فخر الدینؒ 
حضرت سید ضیاء الدین ابو سعیدؒ
حضرت خواجہ حسام الدین ابو صالحؒ
اور ایک بیٹی تھیں جن کا نام بی بی حافظہ جمالؒ تھا۔ ان کو خواجہ صاحب نے خلافت بھی دے رکھی تھی اور یہ عورتوں کو شرعی اور روحانی تعلیم دیا کرتی تھیں۔
تصانیف و تالیفات:
انیس الارواح
گنج الاسرار ( اس کا اردو ترجمہ مخزن الانوار ہے)
حدیث المعارف
رسالہ وجودیہ
رسال در کسب نفس
دلیل العارفین
دیوان معین
رسالہ تصوف الہامات
مکتوبات
اقوال و ارشادات:
خواجہ معین الدینؒ کے ارشادات علم و عرفان کے انمول موتی ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
1_مصیبت اور سختی کا آنا صحت اور ایمان کی علامت ہے۔
2_حسد بہت بری شے ہے اسے ہرگز دل میں جگہ نہ دو۔
3_بدترین شخص وہ ہے جو توبہ کی امید پر گناہ کرے۔
4_حقیقت میں متوکل وہ ہے جو اپنی تکلیف لوگوں سے ہٹالے۔ 
5_اگر تم قوتوں کو فضول کاموں میں ضائع کروگے تو بعد میں ہمیشہ افسوس کروگے۔
6_اللہ تعالی کی دوستی اسی طرح حاصل ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالی اپنا دشمن جانتا ہے ان چیزوں کو بندہ بھی دشمن سمجھے۔
7_عارفین کا توکل یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کسی غیر کی مدد نہ چاہیں۔
8_مومن وہ شخص ہے جو تین چیزوں کو دوست رکھے فاقہ درویشی اور موت۔
9_اللہ تعالی اور بندے کے درمیان ایک ہی حجاب حائل ہے جس کا نام نفس ہے۔
10_جس نے بھی جھوٹی قسم کھائی اس کے گھر سے برکت اٹھالی جاتی ہے اور وہ شخص اپنے خاندان کو برباد کرتا ہے۔
ولایت وکرامت:
اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اولیا کرام سے کرامات صادر ہوتی ہیں۔ کراماتِ اولیاء حق ہیں، جس پر قرآن وسنت اور اسلاف کی کتب معتمدہ سے کثیر دلائل موجود ہیں۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلسنت میں سے ہے۔ لہذا جو کراماتِ اولیاء کا انکار کرے، وہ بدمذہب وگمراہ ہے۔
جس طرح اولیا کرام سے اکثرو بیشتر کشف و کرامات ظاہر ہوتے رہے ہیں اسی طرح خواجہ معین الدین چشتیؒ سے بھی بہت سے کشف وکرامات کا ظاہر ہوئے ہیں۔
کشف وکرامات غیر ہیں حاصل نہ ہوں تو غم نہ کر
دل عشق سے آباد رکھ اللہ بس باقی ہوس  (حضرت شاہ صوفی غلام محمد)
تحریر میں ہی چند واقعات شامل ہوگئے ہیں یہاں مزید چند واقعات نقل کیے جارہے ہیں:
ایک مرتبہ خواجہ غریب نوازؒ اپنے حجرے میں اپنے مرید کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور سخت گویائی کی اس بات پر کہ میرا قرض مجھے واپس لوٹادو۔ آپؒ نے اس سے نرمی سے فرمایا کہ تھوڑا وقت اور دے دو۔ مگر وہ بضد ہوا تو آپؒ کو جلال آگیا۔ آپؒ نے اپنی چادر پھیلادی۔ چادر کا پھیلانا تھا کہ وہ قدرت الہی سے فورا درہم سے بھر گئی۔ وہ شخص اپنی قیمت سے زیادہ وصول کرنے لگا تو اس کا ہاتھ مفلوج ہوگیا، وہ شخص آپؒ سے معافی مانگنے لگا۔ آپؒ نے اس کے حق میں دعا فرمائی تو وہ شخص ٹھیک ہوگیا۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب پرتھوی راج حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی مقبولیت اور روحانی طاقت سے خوف زدہ ہوا تو اس نے جادوگر اجے پال جوگی کو حکم دیا کہ ان کو ختم کردو یا ان کو کسی طرح یہاں سے نکال دو۔ اجے پال جوگی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اژدہے بنا بنا کر خواجہ غریب نوازؒ کو ڈرانے لگا۔ مگر آپؒ اپنے ساتھیوں کو حکم دیتے کہ سانپ اٹھا کر پہاڑ پر ڈال دو۔ جیسے ہی آپؒ کے مریدین سانپوں کو اٹھا کر پہاڑ پر ڈالتے وہاں سبزہ اگ جاتا۔ پھر اجے پال جوگی نے آگ سے حملہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ آگ خود اس پر ہی جادوگروں کی طرف ہی پلٹ جاتی۔ اس نے طیش میں آکر کہا کہ میں آسمان کی طرف پرواز کرکے تم پر آفتیں نازل کروں گا۔ وہ یہ کہہ کر آسمان کی طرف اڑنے لگا۔ ادھر خواجہ غرہب نوازؒ نے اپنی نعلین کو حکم دیا۔ وہ بھی اللہ کے حکم سے اڑنے لگی اور اجے پال جوگی کے چہرے پر برسنے لگی۔ اجے پال جوگی شرمسار ہوکر نیچے آیا اور قدموں میں لپٹ گیا۔ پھر اس نے معافی مانگی اور اسلام لایا اور آپؒ کے ہاتھ پر بیعت کرلی. اس شخص کا نام آپؒ نے عبد اللہ رکھا اور بعد میں آپؒ نے اس کو خلافت بھی دی۔
وصال:
حضرت خواجہ معین الدینؒ تبلیغ دین کے لیے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ سالہاسال تبلیغی جدوجہد آپ نے ہند میں توحید کو روشن کیا۔ بے شمار لوگوں کو حلقہ اسلام میں داخل کیا۔ لیکن اب ان کے وصال کا وقت قریب آگیا تھا۔ کہا جاتا ہے وصال کی رات چند اولیاء کرام نے خواب میں حضور اکرمﷺ کو دیکھا وہ فرمارہے تھے: "معین الدین اللہ کا دوست ہے اور ہم اس کے استقبال کے لیے آئے ہیں"۔
آپ کے وصال کے وقت کا واقعہ ہے کہ آپؒ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد حجرے میں تشریف لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ حسب معمول باہر کچھ درویش بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؒ کو معلوم ہوچکا تھا کہ اب وصال کا وقت قریب آچکا ہے۔ آپؒ اللہ کے ذکر میں اس قدر مشغول ہوئے کہ اللہ سے ملاقات کی تڑپ انتہا کو پہنچ گئی۔ اسی دوران آپ کی روح قبض ہوگئی۔
آپ کا وصال 6 رجب بروز پیر 633ھ بمطابق 1235ع میں 97 سال کی عمر میں ہوا۔ 
بیان کیا جاتا ہے کہ باہر بیٹھے درویشوں نے رات کو زمین پر پیر مارنے کی آوازیں سنی مگر وہ تہجد کے وقت بند ہوگئیں۔ فجر کی نماز کے وقت خادموں نے حجرے کا دروازہ کھکھٹایا تو جواب نہ ملا کسی طرح دروازہ کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی روح پرواز کرچکی ہے اور آپ کی پیشانی پر یہ الفاظ نمایاں تھے۔
"حبیب اللہ مات فی حب اللہ"
اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں واصل ہوگیا۔
آپؒ کے وصال کی خبر جلد گردو نواح میں پھیل گئی۔ ہر شخص کے لیے یہ خبر ایک دل سوز سانحہ تھی۔ لوگ اشک بار ہوکر فورا تشریف لائے۔ آخر کار آپ ؒ کو غسل دے کر کفنایا گیا اور آپ کے بیٹے فخر الدینؒ نے پڑھائی۔ آپؒ کو آپ کے حجرے میں دفن کردیا گیا۔ آپؒ کا مزار اجمیر شریف میں ہے۔ آپؒ کا مزار اقدس صدیوں سے مرجع خاص و عام ہے۔
اجمیر کی وجہ تسمیہ:
اجمیر کی وجہ تسمیہ مصنف سیر الاقطاب نے یہ بتائی کہ وہاں کسی زمانے میں اجیا نام کا ایک طاقتور راجا حکومت کرتا تھا، جس کی حکومت حدود غزنین تک پھیلی ہوئی تھی۔ 
میر ہندی میں پہاڑ کو کہتے ہیں اس راجا اجیا نے اپنا قلعہ پہاڑ پر بنوایا تھا اس لیے اس شہر کا نام اجمیر پڑگیا۔
سلسلہ چشتیہ کی ابتدا اور اس کی وجہ تسمیہ:
تمام سلاسل طریقت کی ابتدا حضرت علیؓ  سے ہوتی ہے۔ سوائے نقشبندیہ کے۔ نقشبندیہ سلسلہ کی ابتداء حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ہوتی ہے۔ چشتیہ اس سلسلے کی ابتدا بھی حضرت علیؓ سے ہوئی۔ مگر اس سلسلے کے ایک بزرگ حضرت ابو اسحاق شامیؒ جو قصبہ چشت کے رہنے والے تھے ان کی وجہ سے شہرت ہوئی۔ مصنف سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ وہ اپنے پیر حضرت ممشاد علو دینوریؒ کی قدم بوسی کے لیے بغداد پہنچے تو پیر نے پوچھا تمھارا نام کیا ہے آپ نے جواب دیا کہ غلام کو لوگ ابو اسحق چشتیؒ کہتے ہیں۔
حضرت ممشاد علو دینوریؒ نے بڑی محبت اور شفقت سے فرمایا کہ تم خواجہ چشت ہو اور تمھارا سلسلہ اسی نام سے عالم اسلام میں پھیلے گا اس وقت سے آپ خواجہ چشت کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت خواجہ ابو اسحٰق شامیؒ کے علاوہ اس سلسلے کے چار اور بزرگ یکے بعد دیگرے مسند پر بیٹھے جو چشت ہی کے تھے۔
خواجہ معین الدین سنجری چشتیؒ، حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتیؒ، حاجی شریف زندانی چشتیؒ، خواجہ مودود چشتیؒ، خواجہ ابو یوسف ناصر الدین چشتیؒ، خواجہ ابو احمد بن محمد چشتیؒ، خواجہ محمد چشتیؒ، خواجہ ابو اسحٰق شامی حسنی چشتی سالار چشتیانؒ، خواجہ ممشاد علو دنیوریؒ، خواجہ ہیرہ بصریؒ، خواجہ سدید الدین حذیفہ مرعشؒ، حضرت ابراہیم ادہمؒ، شیخ فضیل بن عیاضؒ، شیخ ابو الفضل عبد الواحد بن زیدؒ، شیخ حسن بصریؒ، حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالبؓ
سلسلہ چشت کی چند اہم خصوصیات:
اس کی اساس عشق الہی پر ہے۔ طاعت، عبادت، ریاضت اور مجاہدہ کا اصل مقصود سوزِ عشق کا فروغ ہے۔
نفس کی مخلافت اس سلسلے میں بڑی حیثیت رکھتی ہے۔ نفس کو سب سے بڑا بت کہا گیا ہے۔ اخلاقی اقدار اور صفات محمودہ کے فروغ پر خاص زور دیا جاتا ہے۔
 چشتی مشائخ تواضع و انکساری کو ترجیح دیتے ہیں۔ نہ کسی کو حقیر سمجھتے ہیں نہ کسی کو ضرر پہنچاتے ہیں۔
 خلق خدا سے محبت اور نرمی و عفو و درگزر سے پیش آتے ہیں۔
مخلوق خدا کی اذیتوں اور سختیوں پر ضبط و تحمل سے کام لیتے ہیں۔
فقر کو غناء پر ترجیح دیتے ہیں۔
چشتی صوفیاء افراط و تفریط کے مغالطوں میں پڑنے سے بچتے ہیں۔
سماع کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک سماع سوزِ عشق کو جگانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
ذکر خفی تنہائی میں اور ذکر جلی مخصوص اوقات میں کرتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
مراجع و مصادر 
1- مجلس صوفیا۔ پروفیسر محمد معین الدین دادائی (مرحوم)، نفیس اکیڈمی
2- دیوان خواجہ معین الدین چشتی۔ مترجمین محمد محسن، اعزاز احمد آذر
3- اللّه کے ولی۔ خان آصف
4_ اخلاقیات اور تصوف، محمد صابر حسین
٤_مارچ_۲۰۲١
١۹_رجب المرجب_١٤٤۲
 

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی