معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت اور اس کا سد باب

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

برداشت شخصیت کا اہم پہلو ہے۔ جس کا مطلب "دوسروں کے رویوں اور عقائد کو سمجھنا ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں"۔ صبر و تحمل، میانہ روی، رواداری، عدل انصاف، جیسی خوبیاں برداشت کے ضمرے میں آتی ہیں۔ اس کے برعکس یہ خوبیاں جہاں نہ پائی جاتی ہوں تو اس معاشرے میں عدم برداشت کے رجحانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ دن بہ دن عدم برداشت کے نتیجے میں ہونے والے جرائم بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بڑے بڑے محلات سے لے کر چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں تک عدم برداشت نظر آتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ جہالت بھی ہے، تو معاشرے میں ختم ہونے والا امن و سکون بھی۔

ماہر عمرانیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا کہتے ہیں ’’ہماری سوسائٹی میں جہالت اور تنگ نظری بہت زیادہ ہے، علم کا پھیلاؤ نہیں ہے، جہالت کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ یعنی ہم مختلف آراء جاننے کے بجائے اسی کو ٹھیک سمجھتے ہیں، جو ہمارے مطابق ٹھیک ہوتا ہے، جہاں جہالت ہوگی وہاں عدم برداشت بڑھے گی، یہی کچھ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہر پرویز نے عدم برداشت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے معاشرے میں یہ ایک بہت بڑی برائی پیدا ہو گئی ہے کہ ہم ہر چیز کو اتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیئے، اگر کوئی ہماری اصلاح کررہا ہے تو اسی اپنا دشمن ماننے کے بجائے اسے جگہ دیجیے تاکہ ہماری غلطی ٹھیک ہو، ہم ایک بہتر انسان بن سکیں۔

ہمارا معاشرہ ایک مہذب معاشرہ ہے۔ ہم اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں۔ ہمارا مذہب اخلاق کا درس دیتا ہے۔ انسان کے اندر ایسے اوصاف پیدا کرتا ہے کہ وہ بہترین انسان بنے اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو۔ لیکن یہاں مذہب لڑائی جھگڑے اور فساد کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ہر ایک اپنی بات منوانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ غلطی ہوجانے پر غلطی کو کھلے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی انا کا مسئلہ بنالیتا ہے۔

معاشرتی مسائل بھی عدم برداشت کا ایک سبب ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ نے بھی انسان میں عدم برداشت کے رجحان کو وقتا فوقتا بڑھا دیا ہے۔

اس سب سے نکلنے کے لیے ایسا کیا کیا جائے جس سے ہم عدم برداشت پر قابو پاسکیں؟ میری ناقص رائے یہ ہے کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے، جس سے معاشرے میں امن و سکون کی فضا میسر آئے۔ معاشرہ پھر سے امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اس کے لیے اسلام کا طرز عمل مکمل طور پر نافذ کرنا ہوگا۔ ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے ہوں گے، جہاں غرباء، فقراء کے لیے اعلٰی تعلیم دی جائے۔ ایسے بنائے گئے آئین پر عمل کرنا ہوگا کہ جب کوئی جرم کرے، اسے سر عام سزا دی جائے تاکہ معاشرے میں جرائم کا خاتمہ ہوسکے۔ اس سے معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت میں کافی حد تک کمی آسکے گی۔

٣١_جولائی_۲۰۲۰

۹_ذی الحجہ_١٤٤١


Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی