تحریر:
سیدہ حفظہ احمد
عنوان: تربیت کا فقدان
تربیت
کے معنی ہیں پرورش، تادیب، تعلیم، اخلاق وتہذیب سکھانا یا ٹریننگ وغیرہ۔
اسے عام طور پر پالنا، تدریجی اصلاح کرنا، صلاحیتوں کو نکھار کر درجہ کمال کو پہنچانا وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تربیت کا فقدان |
دور حاضر میں والدین اس بات پر تو زور دے رہے ہیں کہ اپنی اولاد کو اعلٰی سے اعلٰی اسکول میں داخلہ دلوائیں۔ وہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس بات پر غور کرنا شروع کردیتے ہیں کہ بچے کو کون سے اسکول میں داخلہ کروایا جائے؟ جیسے ہی بچے کی عمر دو یاتین سال ہوتی ہے، اسےایک بہترین سکول میں داخلہ کروادیا جاتا ہے۔ ابھی تو اس کو گھر اور گھر والوں کو سمجھنے اور ماں کی گود سے تربیت حاصل کرنے کے دن تھے، وہاں اس کو ایک اسکول کی معلمہ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جہاں ایک بچے کی پرورش اور تربیت کرنا اتنا مشکل ہوتا ہے وہاں ایک اسکول کی معلمہ تیس پینتیس بچوں کو سنبھال رہی ہوتی ہے۔
میں نے مولانا طارق جمیل صاحب کے ایک بیان میں ایک بات سنی جو مجھے بالکل درست لگی کہ آج کل سکول میں کیا ہوتا ہے؟ "اتنے سارے بچوں کو ایک معلمہ سنبھال رہی ہوتی ہے اور اس کی تعلیم بھی بہت کم ہوتی ہے، وہ صرف چند پیسے کمانے کی خاطر نوکری کررہی ہوتی ہے، جہاں اس کو ہزار دو ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ ایک معلمہ پڑھانے لگی بیٹا پڑھو! C,U,P سَپ" تو ایک بچے نے کہا: مس سپ نہیں "کپ "ہوتا ہے تو مس نے ارشاد فرمایا: بیٹا اتنے کم پیسوں میں تو سپ ہی ہوگا۔"
رہبر
بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے؎
بے
چاری معلمہ بھی کیا کرے؟ وہ بھی اپنےگھر کے حالات سے مجبور ہوکر گھر سے نکلتی ہے
کہ وہ گھر کے کاموں کے ساتھ گھر کے خرچے میں بھی ہاتھ بٹادےگی۔
جب ایک ماں اپنے بچے سے جان چھڑانے کے لیے اسے اتنی کم عمر میں بچوں کو اسکول روانہ کردے تو کیا ایک معلمہ ایک ماں جیسی تربیت کرپائے گی؟ جب کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہونی چاہیئے۔
تعلیم و تربیت |
جن
کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں؎
آج دیکھا جاتا ہے کہ مدارس کی طرف سے لوگوں کا رجحان ہٹ گیا ہے اور دنیاوی تعلیم کی طرف رجحان بڑھ گیا ہے۔ جس میں صرف اور صرف تعلیم ہوتی ہے، تربیت نہیں ہوتی۔ تربیت صحبت سے حاصل ہوتی ہے۔ سینہ بہ سینہ علم حاصل کرنے سے ہوتی ہے، اب تو اور سونے پر سہاگہ ہوگیا ہے آن لائن کلاسز کا سلسلہ چل چکا ہے، جس سے تعلیم تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس سے صحبت اور تربیت ایک فیصد بھی مشکل ہے۔
اسی طرح اب ہمارے گھروں میں دینی تعلیمات سے دوری اور قرآن سے دوری بھی تربیت کے فقدان کا سبب بنتی ہے۔ ہمارے گھروں میں قرآن صرف سال میں ایک بار کھولا جاتا ہے اور اسے واپس سجا کر رکھ دیا جاتا ہے، اسے سمجھ کر پڑھنا تو دور کی بات اس کی تلاوت کیے بھی مہینوں بیت جاتے ہیں ۔ جو ہمارے لیے ایک افسوس کا مقام ہے۔ تو کیسے ہماری تربیت ہوسکے گی؟ قرآن سے دوری، علماء کی صحبت سے دوری، مدارس سے دوری، ماؤں سے دوری تو کیسے بچوں کی تربیت ہوسکے گی۔ جب کہ کسی قوم کا مستقبل بچے ہی ہوتے ہیں۔
اگر
ہم توجہ دیں اس بات پر کہ مستقبل کے معماروں کی تربیت ضروری ہے تو والدین بچوں کی
فردی تربیت کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اساتذہ بچوں کی اجتماعی تربیت پر کام کریں۔
اسی ذریعے سے اساتذہ اور والدین ہی بچوں کی روحانی تربیت کرسکتے ہیں۔
تربیت کے لیے بھی ماں باپ اور اساتذہ ایسی تکنیک اپنائیں، اچھی بات اور اچھے کام پر بچوں کی حوصلہ افزائی کھلے دل سے کی جائے تاکہ بچے اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر نکھار سکیں اور غلط بات پر ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے احسن انداز میں سمجھایا جائے کہ کام یا یہ بات اچھی نہیں یا اس سے شخصیت پر اچھا اثر نہیں پڑتا تاکہ بچہ ضدی بننے کے بجائے اس بات کو چھوڑنے کی کوشش کرے اور بچے کی تربیت بہتر ہوسکے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی روحانی تربیت پر بھی کام کیا جائے، تاکہ وہ خالقِ حقیقی کو پہچاننے کی کوشش کرسکے۔ وہ دنیا میں اس قدر آگے نہ نکل جائے کہ اسے آخرت کی فکر ہی نہ ہو۔
نہ
تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے! (علامہ اقبال)
صرف بچوں کی ہی تربیت ضروری نہیں بلکہ والدین اور اساتذہ کے لیے بھی ایسے پروگرام منعقد کیے جانے چاہییں جس میں انہیں بچوں کی تربیت سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے۔
دین اور دنیا دونوں کو معتدل انداز میں لے کر چلنا ضروری ہے کیوں کہ والدین اولاد کی اچھی تربیت کریں گے تو اولاد نیک ہوگی اور نیک اولاد صدقہ جاریہ بھی ہے۔
فرد کی تربیت کے ذریعے تو ہی معاشرے کی تربیت ممکن ہے کیوں کہ فرد سے معاشرہ بنتا ہے۔ اسی طرح بذریعہ تربیت ہر شخص اپنے اپنےفرائض کو جان لے گا تو پھر حقوق کا مطالبہ بھی ختم ہوجائے گا کیوں کہ جب فرائض پورے ہوں گے تو حقوق خود بخود ادا ہوتے چلے جائیں گے اس سے معاشرہ تربیت یافتہ اور پرسکون ہوجائے گا۔
۲۸۔فروری۔
۲۰۲۲
۲۷۔رجب
المرجب۔۱۴۴۳
ایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks