ماہ شعبان اور شب برات کی فضیلت و اہمیت

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

عنوان: ماہ شعبان اور شب برات کی فضیلت و اہمیت

ماہ شعبان اسلامی مہینوں میں سے آٹھواں مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادت اور اعمال کے لحاظ سے ایک اہم مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عظمت والا اور بابرکت ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس مہینہ کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔

وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ

ترجمہ:

اور حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو سر تاج دو عالم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینے (کی ہماری اطاعت و عبادات) میں ہمیں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔ (مشکوٰۃ شریف:۱۳۴۱)

ماہ شعبان اور شب برات کی فضیلت و اہمیت

احادیث میں رمضان کے بعد افضل روزے شعبان کے بیان ہوئے ہیں۔ یہ ماہ چوں کہ رمضان سے پہلے آتا ہے اور اس ماہ میں رمضان المبارک کی تیاری کی جاتی ہے اس بنیاد پر اسے رمضان کا مقدمہ بھی کہا جاسکتا ہے۔

سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ ال صَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ ،‏قِيلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ

ترجمہ:

انسؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا: رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: شعبان کے روزے جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں، پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: رمضان میں صدقہ کرنا۔ (جامع ترمذی:۶۶۳)

نبی اکرمﷺ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے شعبان کے رکھا کرتے تھے۔ جب روزے رکھتے تو ایسا لگتا تھا کہ اب کبھی روزہ رکھنا نہ چھوڑیں گے اس متعلق حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ، ‏حَتَّى نَقُولَ:‏ لَا يُفْطِرُ،‏وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ،‏فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، ‏وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ

ترجمہ:

عائشہ ؓ نے بیان کیا، کہ رسول اللہ ﷺ نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم(آپس میں) کہتے کہ اب آپ ﷺ روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔(صحیح بخاری:۱۹۶۹)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ:

أَنَّ عَائِشَةَ،‏قَالَتْ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ۔

ترجمہ:

ام المؤمنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پورے شعبان روزہ رکھتے تھے۔(سنن السائی:۲۳۵۸)

شعبان کے روزے رکھنا افضل ہے مگر رمضان سے کچھ دن پہلے کم از کم تین دن پہلے روزے نہ رکھے یعنی 28 اور 29 کا روزہ نہ رکھے تو یہ درست ہے تاکہ رمضان کے لیے توانا ہوجائے۔ روایت میں ہے کہ:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم‏قَالَ‏ لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، ‏إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ

ترجمہ:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔(صحیح بخاری:۱۹۱۴)

حضرت عائشہؓ بھی اس مہینے میں روزوں کا اہتمام فرماتی تھیں البتہ رمضان کے روزوں کی قضاء روزے بھی اسی مہینے میں رکھا کرتی تھیں۔ روایت میں ہے کہ:

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ کَانَ يَکُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إِلَّا فِي شَعْبَانَ الشُّغْلُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

حضرت ابوسلمہؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رمضان کے روزے مجھ سے قضاء ہوجاتے تھے تو میں ان روزوں کے سوائے شعبان کی قضا نہیں کرسکتی تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مشغولیت کی وجہ سے۔(صحیح مسلم:۲۶۸۷)

غرض یہ کہ شعبان بابرکت اور عظیم مہینہ ہے اس ماہ میں ایک رات یعنی نصف شعبان المعظم کی رات برکتوں والی ہوتی ہے جسے عام طور پر شب برات/ لیلۃ البراءت کہا جاتا ہے۔ شب سے مراد رات جب کہ براءت سے مراد نجات ہے گویا اس کے معنی ہیں نجات والی رات۔ قرآن میں سورۃ الدخان کی تیسری آیت سے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے مگر چند مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد لیلۃ البراءت ہے۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ‌ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ

ترجمہ:

ہم نے اس کو اتارا ایک برکت کی رات میں ہم ہیں کہہ سنانے والے (سورۃ الدخان:3)

شیخ الاسلام مفتی محمد شفیع معارف القرآن میں نقل کرتے ہیں کہ اس آیت میں لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔ اس رات کو مبارک فرمانا اس لئے ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر بے شمار خیرات و برکات نازل ہوتی ہیں اور قرآن کریم کا شب قدر میں نازل ہونا قرآن کی سورة قدر میں تصریح کے ساتھ آیا ہے۔ انا انزلنہ فی لیلة القدر، اس سے ظاہر ہوا کہ یہاں بھی لیلة مبارکہ سے مراد شب قدر ہی ہے۔

قرآن کے شب قدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے پورا قرآن سماء دنیا پر اسی رات میں نازل کردیا گیا تھا۔ پھر تئیس سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوتا رہا۔

اور بعض مفسرین عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لیلہ مبارکہ سے مراد شب برات یعنی نصف شعبان کی رات قرار دی ہے مگر اس رات میں نزول قرآن دوسری تمام نصوص قرآن اور روایات حدیث کے خلاف ہے۔

شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ

ترجمہ:

مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن (سورۃ البقرۃ:185)

اور

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ

ترجمہ:

ہم نے اس کو اتارا شب قدر میں (سورۃ القدر:1)

جیسی کھلی نصوص کے ہوتے ہوئے بغیر کسی قوی دلیل کے نہیں کہا جاسکتا کہ نزول قرآن شب برات میں ہوا۔ البتہ شعبان کی پندرھویں شب کو بعض روایات حدیث میں شب برات یا لیلة الصک کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس رات کا مبارک ہونا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذکر ہے۔

اس کے ساتھ بعض روایات میں یہ مضمون بھی آیا ہے جو اس جگہ لیلہ مبارکہ کی صفت میں بیان فرمایا ہے یعنی

فيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ اَمۡرًا مِّنۡ عِنۡدِنَا

ترجمہ:اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے۔ (سورۃ الدخان :4 تا 5)

چونکہ بعض روایات حدیث میں شب برات یعنی شعبان کی پندرہویں شب کے متعلق بھی آیا ہے کہ اس میں آجال و ارزاق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اس لئے بعض حضرات نے آیت مذکورہ میں لیلہ مبارکہ کی تفسیر لیلة البرات سے کردی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ یہاں اس رات میں نزول قرآن کا ذکر سب سے پہلے ہے اور اس کا رمضان میں ہونا قرآن کی نصوص سے متعین ہے۔

حدیث میں ہمیں جو روایات ملتی ہیں اس میں بھی شعبان کی پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ اس دن اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اس فضیکت والی رات میں لا تعداد انسان آتش جہنم سے نجات پاتے ہیں۔ ایک روایت منقول ہے کہ:

وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَصُوْمُوْا یَوْمَھَا فَاِنَّ اﷲَ تَعَالٰی یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ الَاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرُ لَہ، اَلَا مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ، الَاَ مُبْتَلًی فَاُعَا فِیَہُ اَلاَ کَذَا الَاَ کَذَا حَتّٰی یَطُلُعُ الْفَجْرُ۔

ترجمہ:

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برات) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ، اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہے کہ آگاہ ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں ؟ آگاہ ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں ؟ آگاہ ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں ؟ آگاہ ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے مثلاً فرماتا ہے مثلاً کوئی مانگنے والا ہے کہ میں عطا کروں ؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں ؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔(مشکوٰۃ شریف:۱۲۸۰)

نبی اکرم ﷺ اس رات قبرستان تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ نے ان کو بستر پر نہ پایا تو پریشان ہوئیں اور ان کو تلاش کرنے نکلیں تو آپ ﷺ جنت البقیع میں موجود تھے۔

روایت نقل کی جاتی ہے کہ:

ام المؤمنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو نہ پایا تو میں(آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔(جامع ترمذی:۷۳۹)

ایک اور روایت میں ہے کہ:

عائشہؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو(گھر میں) نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔(جب مجھے دیکھا تو) فرمایا: عائشہ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا (شاید) آپ اپنی کسی(اور) زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ (لوگوں) کو معاف فرما دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ:۱۳۸۹)

اس کے علاوہ ایک اور روایت میں ملتا ہے کہ اس رات سب کی بخشش کردی جاتی ہے سوائے کینہ پرور اور مشرک کے۔

عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ،‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏ إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، ‏فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ

ترجمہ:

ابوموسیٰ اشعریؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور(مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ:۱۳۹۰)

غرض یہ کہ شب برات کی فضیلت سے متعلق اس طرح کی روایات منقول ہیں مگر اسناد ضعیف ہیں۔ لیکن کثرت تعداد کے وجہ سے ان کو ایک طرح سے تقویت مل جاتی ہے۔ دس سے زائد صحابہ کرام سے فضیلت کی احادیث مروی ہیں اس لیے اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بھی ٹھیک نہیں۔

شیخ الاسلام مفتی شفیع عثمانیؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ شب برات کی فضیلت کا معاملہ، ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایات حدیث میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں لیکن شب برات کی فضیلت کی روایات اگرچہ با عتبار سند کے ضعف سے کوئی خالی نہیں لیکن تعد دطرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرلینے کی بھی گنجائش ہے۔

شب برات اکابرین امت کی نظر میں:

خیر القرون میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ (مرکز اہل السنۃ والجماعۃ) اپنی تحریر میں چند اکابرین کے اقوال نقل کرتے ہیں جن میں سے چند یہاں نقل کیے جارہے ہیں:

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں:

"لیلة القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں"۔

علامہ ابن رجب الحنبلیؒ فرماتے ہیں:

لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں رات سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔

اہل شام کے تابعین حضرات مثلاً امام خالد بن معدانؒ ، امام مکحولؒ ، امام لقمان بن عامرؒ وغیرہ شعبان کی پندرھویں رات کی تعظیم کرتے تھے اور اس رات خوب عبادت فرماتے تھے۔ ان ہی حضرات سے لوگوں نے شب برات کی فضیلت کو لیا ہے۔

 امام محمد بن ادریس الشافعیؒ فرماتے ہیں:

ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے 1) جمعہ کی رات 2) عید الاضحیٰ کی رات 3) عید الفطر کی رات 4) رجب کی پہلی رات 5) نصف شعبان کی رات، میں نے ان راتوں کے متعلق جو بیان کیا ہے اسے مستحب سمجھتا ہوں فرض نہیں سمجھتا۔

علامہ زین الدین بن ابراہیم الشہیر بابن نجیم المصری الحنفیؒ فرماتے ہیں:

رمضان کی آخری دس راتوں میں، عیدین کی راتوں میں، ذی الحجہ کی دس راتوں میں، شعبان کی پندرھویں رات میں شب بیداری کرنا مستحبات میں سے ہے۔

خاتمۃ المحدثین حضرت علامہ مولانا محمد انور شاہ الکشمیریؒ فرماتے ہیں:

یہ رات لیلۃ البرات ہے۔ اس رات کی فضیلت کے بارے میں روایات قبول کی جاتی ہیں۔

حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

شب برات کی اتنی اصل ہے کہ پندرھویں رات اور پندرھواں دن اس مہینے کا بہت بزرگی اور برکت کا ہے۔

حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ:

شعبان کی پندرھویں شب ایک افضل رات ہے۔

حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ فرماتے ہیں:

شب قدر اور شب برات کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر و تسبیح، دعا اور استغفار کی ترغیب دی ہے۔

شیخ الاسلام شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:

شب برات کی فضیلت میں بہت سی روایات مروی ہیں جن میں سے بیشتر علامہ سیوطی نے الدر منثور میں جمع کردیا ہے۔ ان روایات کے ضعف کے باوجود شب برات میں عبادت کا اہتمام بدعت نہیں۔ اول یہ کہ روایات کا بکثرت مجموعہ موجود ہونا اس ہر دلالت کرتا ہے کہ لیلۃ البرات کی فضیلت بے اصل نہیں۔ دوسرے اس امت کا معمول اس رات میں بیداری اور عبادت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ کہ ضعیف روایات کی دوسری سند کے ساتھ تائید ہوجائے تو وہ قابل قبول ہوتی ہیں۔ محض اسنادی ضعف کو دیکھ کر بے اصل کہہ دینا غلط ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت ثابت ہے، اس دن اور اس ماہ میں روزہ رکھنا فضیلت اور برکت کا باعث ہے۔ اس دن ایام بیض کا روزہ بھی ہوتا ہے۔ مگر اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے۔ اجتماعات سے بچ کر تنہائی میں انفرادی طور پر عبادت کرنا افضل ہے۔ جتنی ہوسکے زیادہ سے زیادہ عبادت کرے۔ عبادات، نوافل، استغفار، ذکر واذکار وغیرہ کریں۔ اس کے علاوہ گناہ اور بے جا رسومات اور فضولیات سے بچیں۔

واللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:

قرآنی آیات

سورۃ الدخان آیت نمبر 3

سورۃ بقرۃ آیت نمبر: 185

سورۃ القدر آیت نمبر:1

سورۃ الدخان آیت نمبر: 4

سورۃ الدخان آیت نمبر:5

احادیث

مشکوٰۃ شریف کتاب: جمعہ کا بیان باب: جمعے کی رات روشن رات اور جمعے کا دن چمکتا دن ہے حدیث نمبر:1341

جامع ترمذی، کتاب: زکوۃ کا بیان، باب: زکوة ادا کرنے کی فضلیت، حدیث نمبر: 663

صحیح بخاری، کتاب: روزے کا بیان، باب: ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا بیان، حدیث نمبر: 1969

سنن نسائی، کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث، باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف، حدیث نمبر: 2358

صحیح بخاری، كتاب: روزے کا بیان، باب: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے جائیں۔ حدیث نمبر: 1914

صحیح مسلم کتاب: روزوں کا بیان، باب: رمضان کے روزوں کی قضا جب تک کہ دوسرا رمضان نہ آجائے تاخیر کے جواز کے بیان میں اور یہ اس آدمی کے لئے ہے جس نے بیماری سفر حیض وغیرہ عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دیا، حدیث نمبر: 2687

مشکوٰۃ شریف، کتاب: تراویح کا بیان، باب: پندرہویں شعبان کے روزے اور شب برات کی عبادت کا حکم، حدیث نمبر: 1280

جامع ترمذی، کتاب: روزوں کے متعلق ابواب، باب: شعبان کی پندرھویں رات، حدیث نمبر: 739

سنن ابن ماجہ، کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ، باب: شعبان کی پند رھویں شب کی فضیلت، حدیث نمبر: 1389

سنن ابن ماجہ، کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ، باب: شعبان کی پند رھویں شب کی فضیلت، حدیث نمبر: 1390

کتب:

معارف القرآن: شیخ الہند حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی

١_اپریل_۲۰۲١

١٧_شعبان المعظم_١٤٤۲

ماہ رمضان کے متعلق بھی پڑھیں

4 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی