تحریر : سیدہ حفظہ احمد
![]() |
سیرت خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروقؓ |
آپ کا مکمل نام عمر ابن الخطابؓ تھا۔
پیدائش:
عمر ابن الخطابؓ کی پیدائش 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں میں ہوئی تھی (ایک روایت کے مطابق ہجرت سے چالیس سال قبل آپ کی پیدائش ہوئی)۔ آپ نبی اکرم ﷺ سے تیرہ برس چھوٹے تھے۔
رسول اللہ ﷺ سے رشتے داری:
آپؓ سسر نبی ﷺ ہیں۔ (بی بی حفصہؓ نبی امی ﷺ کے نکاح میں تھیں)۔
آپ داماد علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ (بی بی کلثومؓ دختر علی ؓ یعنی نواسئ رسول ﷺ آپؓ کے نکاح میں تھیں)۔
لقب:
آپؓ کو نبی اکرم ﷺ نے فاروق اعظم کا لقب دیا۔
کنیت:
آپؓ کی کنیت ابو حفص تھی۔
قبل از اسلام:
آپ ؓ اسلام سے پہلے مسلمان کے خلاف بولتے تھے ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نماز میں سورۃ الحآقة کی تلاوت کررہے تھے۔ دل میں بغض لیے آپؓ نے کہا کہ یہ تو شاعر ہے (نعوذ باللہ من ذلک ) تو قرآن جیسی مقدس کتاب کے ذریعے ان کو جواب ملا "وما ھو بقول شاعر"۔
جب انہوں نے سوچا کہ یہ تو بڑا کاہن ہے ( نعوذ باللہ من ذلک) تو قرآن نے پھر جواب "وما بقول کاھن"۔ اس وقت اس کے دل میں اسلام کا رعب و دبدبہ پیوست ہوگیا۔
قبول اسلام:
نبیﷺ کا عمرو بن ہشام (ابو جہل ) کے بجائے عمر ابن الخطابؓ انتخاب و دعا کا ثمرہ تھے اور اس دعا ہی کی بدولت آپؓ کو نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کرنے کا شرف نصیب ہوا۔
قبول اسلام کا واقعہ تاریخ کا ایک ایسا سنہرا باب ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ پڑھنے اور سننے والوں کے دل ایمان سے پر نور ہوجاتے ہیں۔
ایک مرتبہ آپؓ نبی ﷺ کو قتل کےارادے سے نکلے، راستے میں نعیم بن عبد اللہ ؓ ملے کہ یا عمر کہاں کا ارادہ ہے۔ فرمایا آج میں محمد کو قتل کردوں گا (نعوذ باللہ) لیکن حضرت نعیمؓ نے کہا کہ آپ ذرا اپنی بہن کے گھر کے احوال تو جاکر دیکھیے۔ وہاں ان کے بہنوئی خباب بن ارتؓ اور بہن فاطمہ بنت عبداؓللہ اسلام لاچکی تھیں۔ گھر پہنچے تو دونوں قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ حضرت عمرؓ سورۃ طه کی آیت "اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی" سن کر کانپ گئے، دوڑتے ہوئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آج میں بری نیت لے کر نہیں آیا۔
دین کی تقویت:
آپؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد دین کو تقویت ملی، آپ کا ایمان لانا مسلمانوں کی عزت کا سبب بنا۔ نبی ﷺ کے لیے جان بھی حاضر تَھی۔
آپؓ نے سب سے پہلے علی الاعلان کعبہ کی چھت پر پہلی بار اذان دی اور کعبة اللہ میں اس دن پہلی نماز پڑھائی گئی۔
آپؓ نے اسلام سے پہلے اپنے رعب سے متاثر کیا لیکن اسلام لانے کے بعد نبی عربی ﷺ کے خادم بن گئے۔
آپؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک ایک کافر کے گھر جاکر اسے پکار پکار کر بتاتا ہو کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور اعلان کرواتا ہو کہ جس نے بیوی کو بیوہ، بچوں کو یتیم کرنا ہو، ماں باپ کی کمر کو جھکانا ہو تو وہ عمر کے مقابلے میں آئے۔
خصوصیات:
آپؓ سادگی و اخلاق کے پیکر تھے۔ آپؓ میں سادگی، عدل و انصاف، رواداری، انتظامی معاملات میں سختی نمایاں تھی۔ آپؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے اگر اس دنیا میں ایسا ایک اور عمر پیدا ہوجاتا تو پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔
آپؓ کا شمار عرب کے اولین سترہ پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عمر کو دیکھ کر شیطان بھی اپنا راستہ بدل لیتا تھا۔
دور صدیقی میں عظیم کارنامے کا مشورہ:
حضرت عمرؓ نے اس بات کے ڈر سے قرآن کی تدوین کا مشورہ دیا کہ قرآن میں پہلی کتابوں کی طرح تحریف نہ ہوجائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اصل میں ملاوٹ کر بیٹھے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنی وفات سے قبل وصیت لکھوائی تھی اور حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔
دور خلافت:
آپؓ کی خلافت مسلمانوں کے لیے رحمت شمار کی جاتی ہے۔ آپ فطرتا سخت مزاج تھے، لیکن خلیفہ بن کر اتنے نرم ہوگئے تھے، جن کی ہیبت کفار کے دلوں میں رچ بس گئی تھی۔
آپؓ اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے اور تیرہ ہجری سے لے کر چوبیس ہجری تک حکومت کی۔ آپ نے دس سال، چار ماہ، دس دن کی سلطنت امام عادل کی طرح نظم و ضبط سے قائم کیا۔
آپؓ نے بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی اور عدل کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
آپؓ نے ایسے معاشرے کی طرف توجہ مبذول کروائی، جس میں انسانی ہمدردی، عوامی فلاح و بہبود، زراعت کی ترقی اور خصوصا عدل و انصاف جیسے اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
آپؓ کا نظام اور طرز حکومت ایسی خوبیوں کا نمونہ تھی، جس میں حاکم، امیر، عادل، اور دیگر عہدے دار اور خود خلیفہ لوگوں کے سامنے جواب دہ ہو۔
آپؓ خلیفہ ہوتے ہوئے بھی پیوند لگے کپڑے پہن کر یہ سوچتے کہ فرات کے پاس ایک کتا بھی بھوکا مرجائے تو اس کا جواب دہ میں ہوں گا۔
امیر المؤمنین ہوتے ہوئے رات کو بھیس بدل کر مدینے کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے۔ دن کو لوگوں کی مشکلات سنتے رات کو ان کی مشکلات چھپ کر حل کیا کرتے تھے۔
آپؓ صاحب الہام بھی تھے، ایک مرتبہ آپ کو یہ معلوم ہوا کہ بکری کی ٹانگ پل پر ٹوٹ گئی ہے اور اس بات پر رونے لگے کہ اب اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ تو نے پُل ٹھیک کیوں نہ کروایا؟
آپؓ نے ایک مرتبہ بچوں اور ان کی ماں کی خبر گیری کرنے کے بعد امیر المؤمنین کے خلاف عورت کی جلی کٹی بات پر بھی اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ جب تو کل امیر المؤمنین سے ملے گی تو مجھے بھی پالے گی اور اپنی شناخت ظاہر نہ کی۔
ایک مرتبہ بیت المال کا اونٹ گم ہوگیا تو خود بیت المال اونٹ تلاش کرنے نکلے اس غرض سے کہ معلوم نہیں اس میں کتنے لوگوں کا حق ہوگا؟
آپؓ نے ایک شخص کو اپنے غلام پر ظلم کرتے دیکھا تو کہا کہ تم لوگوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو جب کہ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے؟
تواضع و انکساری:
آپؓ کیکر کے درخت کے نیچے تکیے کی جگہ اینٹ لگا کر سونے کو ترجیح دیتے تھے۔
آپؓ امیر المؤمنین ہوتے ہوئے بھی مسجد میں جھاڑو دیتے، بیوہ عورتوں کے گھر پانی بھرنے ان کا سودا سلف لینے جاتے ان کے اونٹ چراتے۔
فتوحات:
آپؓ کے دور خلافت میں عراق، شام اور مصر فتح ہوا۔
آپؓ نے سب سے پہلے باقاعدہ فوج کا محکمہ قائم کیا اور فوجیوں کے وظائف مقرر کیے۔
سنہ 16 ہجری میں آپؓ کے دور خلافت میں سن ہجری مقرر کیا گیا اور محرم الحرام کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا۔ اس سے پہلے لوگ عام الفیل یا کسی خاص واقعے سے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب لگاتے تھے۔
آپؓ کا دور خلافت اسلام کا سنہری دور کہلاتا ہے۔
رعب و دبدبہ:
آپؓ کے جاہ و جلال کی وجہ سے زمین کانپتے ہوئے سہم گئی۔
آپؓ کی وجہ سے دریائے نیل جاری ہوا۔ اس سے پہلے ہر سال ایک عورت کی قربانی کرکے اس کا خون دریا میں ڈالا جاتا تو دریا جاری ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے دریا سے کہا کہ اگر تو اللہ کے حکم سے چلتا ہے تو چل ورنہ ہمیں تیری کوئی ضرورت نہیں۔
عمر کا تذکرہ ہی عدل کا تذکرہ ہے:
آپؓ کے بارے میں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس (عمر ) کا تذ کرہ کیا کرو کیوں کہ اس (عمر) کا تذکرہ ہوتا ہے تو عدل کا تذکرہ ہوتا ہے، جب عدل کا تذکرہ ہوتا ہے تو اللہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔
جنت کی بشارت اور خوفِ خدا:
آپؓ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی اور آپ کے لیے نبیﷺ نے خواب میں ایک خوب صورت محل بھی دیکھا۔
اس کے بعد بھی وہ وقت نزع کے وقت یہ کہ رہے تھے:
(ویل لك يا عمر : ان لم يغفر لك ربك )
تباہی ہے اگر اس رب نے مجھے نہ بخشا۔
آپؓ نے نبی ﷺ کے بائیں پہلو میں سونے (قبر) کی اجازت طلب کی ہو اور کہا کہ امیر المؤمنین کہہ کر نہ پوچھنا اور اجازت ملنے کے بعد بھی یہ کہا کہ جب مجھے لے کر جاؤ تو ایک بار پھر اجازت طلب کرنا شاید مجبوری میں اجازت دے دی ہو۔
شہادت:
آپؓ کو خنجر سے 27 ذی الحجہ کو 23 ہجری میں ایسا زخمی کیا گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور بالآخر یکم محرم الحرام 24 ہجری کو جام شہادت نوش فرمایا۔
آج تک عمر ابن الخطابؓ جیسا بیٹا نہ کسی ماں نے پیدا کیا، اور نہ ہی پیدا ہوسکے گا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ان کی سیرت سے اسلام کو سیکھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ایسا عدل ہم اپنے معاشرے میں قائم کرسکیں، دشمن ہمیں بری نگاہ سے نہ دیکھ سکے۔ آمین
۲٤_اگست_۲۰۲۰
٤_محرم الحرام_١٤٤۲
ایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks