انسانیت سے ہمدردی؛ سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں (قسط ۲)

قسط: 2

تحریر:شگوفہ نورانی

سیرت النبی ﷺ

آپ ﷺ تمام عالم کے لیے سراپا رحمت:

سیرت النبی کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے کفار مکہ کے ہاتھوں کیا کچھ تکلیفیں اور اذیتیں نہ سہیں، لیکن کبھی نہ کسی کے لیے بدعا فرمائی اور نہ کسی پر نزول عذاب کی تمنا کی بلکہ اگر آپ ﷺ کو عذاب کا اختیار بھی دیا گیا تب بھی ازراہ رحمت و شفقت آپ ﷺ نے ہر تکلیف نظر انداز کی اور ظالموں سے در گزر کیا، حالانکہ ان کا جرم کچھ کم نہیں تھا وہ اللہ کے محبوب کو ایذا دینے کے گناہ میں مبتلا ہوئے تھے، اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہونا چاہیے تھا لیکن آپ ﷺ نے ہمیشہ عفو و کرم سے کام لیا اور محض آپ کی صفت رحمت کے باعث وہ قہر خدا وندی سے محفوظ رہے۔ سرکار دو عالم ﷺ کی شخصیت سراپا رحمت ہے۔ آپ ﷺ کی یہ خصوصیت آپ ﷺ کی شخصیت کے ہر پہلو میں باتمام و کمال موجود ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو طائف کا واقعہ از " سیرت المصطفیٰ جلد اول ٢٧٤تا ٢٨٢")

آپ اپنی گھریلو زندگی میں، گھر سے باہر کے معاملات میں، اپنوں اور غیروں کے ساتھ، بڑوں اور بچوں کے ساتھ، ایک ناصح مشفق ہمدرد غم گسار کی حیثیت سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمت سے معمور دل عطا فرمایا تھا جو کمزوروں کے لیے تڑپ اٹھتا تھا، جو مسکینوں اور یتیموں کی حالت زار پر غم سے بھر جاتا تھا۔ سارے جہاں کا درد آپ ﷺ کے دل میں سمٹ آیا تھا۔ یہاں تک کہ رحمت ہمدردی کا وصف آپ ﷺ  کی طبیعت ثانیہ بن گیا تھا، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا اپنا، کیا پرایا، کیا مسلمان، کیا کافر، سب آپ ﷺ کے رحم و کرم سے بہرور رہا کرتے تھے۔

آپ ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دی گئی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپ ﷺ کی تمام اولاد کا انتقال آپ ﷺ کی زندگی میں ہوا۔ آپ ﷺ کو برا بھلا کہا گیا، ﷺ کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا، آپ ﷺ کے راستوں پر کانٹیں بچھائے گئے، آپ ﷺ اور آپ کے خاندان و صحابہ کرام کا تقریباً تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا، آپ ﷺ کو طرح طرح سے ستایا گیا، آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے، آپﷺ کو اپنے وطن عزیز سے نکالا گیا مگر قربان جائیے اس نبی رحمت پر آپ ﷺ نے افف تک نہ کہا اور نہ انتقام لیا۔ ( النبي الخاتم ﷺ صفحہ: ۷۶)

آپ ﷺ کی بچوں پر شفقت و ہمدردی:

بچوں پر آپ ﷺ کی شفقت کا نظارہ قابلِ دید تھا، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کوئی بچہ آپ کو کھیلتا کودتا نظر آتا تو آپ خوشی میں اس کو لپٹا کیا کرتے تھے، اس کو بوسے دیتے اس سے ہنسی مذاق کرتے، ایک بار آپ ﷺ اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور کہنے لگا کہ آپ اپنے بچوں کو بھی پیار کرتے ہو، ہم تو نہیں کرتے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت کا جذبہ ختم کر دیا ہے؟ ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ سجدہ میں تصریف لے جاتے تو امامہ کو زمین پر بٹھا دیتے اور کھڑے ہوتے تو اُنھیں گود میں اٹھا لیتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ نماز کے دوران بچے کی رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے نماز مختصر کر دی تاکہ بچے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ (خصائل مصطفیٰ صفحہ: ۲۲۵)

بچوں پر آپ کی ﷺ شفقت و مہربانی کا اظہار اس واقعے سے بھی ہوتا ہے کہ کے بار آپ (ﷺ) ایک بیمار یہودی لڑکے کی عیادت کو نکلے جو کبھی کبھار آپ ﷺ کے کچھ کام انجام دے دیا کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ کلمہ پڑھ لو، اس لڑکے نے اپنے ابّا جان کی طرف دیکھا، اس کے ابو فرمایا کہ ابوالقاسم کی بات مان لو یعنی محمد کی اتباع کرو،  چنانچہ اس لڑکے نے کلمہ پڑھ لیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام تعریفیں ہیں اس ذات اقدس کے لیے جس نے اس لڑکے کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا۔ (خصائل مصطفیٰ صفحہ: ۲۰۹) اسی طرح حضرت عبداللہ بن شداد روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپ ﷺ عشاء کی نماز کے لئے گھر سے نکلے حضرت حسن يا حضرت حسین آپ کی گود میں تھے۔

آپ ﷺ نے انہیں مصلے کے پاس بٹھا دیا اور نماز شروع کی ، پھر سجده کے وقت آپ ﷺ نے کافی طویل سجده کیا حتی کہ حضرت شداد نے سر اٹھا لیا تو دیکھا آپ کے نواسے آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر جب نماز مکمل ہو گئی لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نماز میں کافی طویل سجدہ کیا ہم لوگ سمجھے کی شاید کوئی انہونی ہو گئی ہے یا آپ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایسا کچھ بھی نہیں تھا بلکہ میرا یہ بیٹا میری پیٹھ کو اپنی سواری بنائے ہوئے تھا، مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں جلدی اٹھ جاؤں اور یہ اپنا مزا نہ کر سکے۔ (خصائل مصطفیٰ صفحہ: ۲۲۶) 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر ۳ یہاں سے پڑھیں

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی