انسانیت سے ہمدردی، سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں (قسط ۳)

قسط:۳

تحریر: شگوفہ نورانی

سیرت النبی ﷺ

آپ (ﷺ) کا خواتین سے ہمدردی:

عورتیں فطرتاً کمزور ہوتی ہیں، آپ ﷺ نے بار بار صحابہ کرام کو تلقین فرمائی کے وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ آج سے چودہ سو سال قبل رحمت للعالمین (ﷺ) نے ایسے وقت بچیوں کو آرام اور رحمت کا ذریعہ قرار دیا جب ناک اونچی کرنے کے لیے بچیوں کو زندہ دفن کر دینے کا رواج تھا۔ آپ (ﷺ) نے اس وقت اُن پر تحفظ و سلامتی اور شفقت و محبت کی ایک ایسی چادر تان دی تھی جب دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی بچیوں کے تحفظِ و سلامتی کے لیے کوئی قانون نہیں تھا۔

آپ (ﷺ) کو خادموں اور نوکروں سے ہمدردی:

آپ (ﷺ) نے خادموں اور نوکروں کا بھی بڑا خیال تھا چنانچہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ یہ خادم تمہارے بھائی ہے۔ اُنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنایا ہے۔ اگر کسی کا بھائی اس کا ماتحت بن جائے تو اسے اپنے کھانے میں سے کچھ کھلائے، اس کو ایسا لباس پہنائے جیسا وہ خود پہنتا ہے، اس کی طاقت و ہمت سے زیادہ کام نہ لے، اگر کبھی کوئی شخت کام لے تو اس کا تعاون بھی کرے۔۔۔۔ اسی طرح حضور اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے اگر تمہارا خادم یعنی نوکر تمہارے لیے کھانا بناکر لائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ یا اس کھانے میں سے اُسے کچھ دے دو اسلئے کی آگ کی تپش اور دھنویں کی تکلیف تو اس نے برداشت کی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی دس سال خدمت کی ہے، آپ نے مجھے کسی بات پر اف تک نہ کہا، نہ کسی کام کے کرنے پر یہ کہا کہ کیوں کیا؟ اور نہ کسی کام کے نہ کرنے پر یوں کہا کہ کیوں نہیں کیا؟ (خصائل مصطفیٰ صفحہ: ۲۱۹)

آپ (ﷺ) کی یتیموں سے ہمدردی:

یتیموں کے لیے بھی آپ کے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اسلئے آپ صحابہ کرام کو یتیموں کے کفالت کرنے پر اُکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے آپ نے قربت بیان کرنے کے لیے بیچ اور شہادت کی انگلی کا اشارہ فرمایا۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرم (ﷺ) کے ساتھ جنت میں ہوں گے۔

آپ (ﷺ) کا مریضوں سے ہمدردی اور اُن کی عیادت فرمانا:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ک آپ (ﷺ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور میں ایسا بیمار تھا کہ مجھے کچھ عقل و ہوش نہ تھی، تو رسول اللہ (ﷺ) نے وضو فرما کر اپنی وضو کے پانی کا چھینٹا میرے منھ پر ڈالا، تب مجھے ہوش آئی۔ (خصائل مصطفیٰ صفحہ ۲۰۷) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) ایک دیہاتی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اور جب نبی اکرم (ﷺ) کسی کی عیادت فرماتے تو یہ دعا ارشاد فرماتے "لابأس طھور إن شاء اللہ " یعنی کوئی حرج نہیں یہ تو اگر اللہ نے چاہا گناہوں سے پاکی کا سبب ہے۔ (خصائل مصطفیٰ، صفحہ ۲۰۷)

آپ (ﷺ) کا جانوروں سے ہمدردی:

آپ (ﷺ) کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہ تھا بلکہ بے زبان جانور بھی آپ (ﷺ) کی رحمت سے مستفید ہوتے تھے۔ احادیث میں ہے کے ایک مرتبہ حضور اکرم کسی انصاری صحابی کے باغ میں تصریف لے گئے، وہاں ایک اونٹ موجود تھا آپ (ﷺ) کو دیکھ کر اونٹ کے آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔ آپ یہ منظر دیکھ کر اس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے، اس کے بدن پر ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ پرسکون ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے دریافت کیا اونٹ کس کا ہے ؟ ایک انصاری نوجوان نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) میرا ہے۔ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس نے تمہیں اس جانور کا مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے زیادہ کام لیتے ہو۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کا ح سےکم فرمایا ہے۔ اگر تم ذبح کرو تو اچھے طریقے پر ذبح کرو، ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھڑی تیز کر لیا کرو تاکہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ (سیرت النبی ششم اور بہشتی زیور پانچواں حصہ صفحہ؛ ۲۸۷)

یہ دین ہمیں انسانوں کے ساتھ پیار و محبت کا درس دیتا ہے، صحابہ کرام ؓ اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دی ہیں۔ انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورتمند انسانوں کی مدد کے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن دین اسلام نے خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ اُن کے درمیان فرق وتفاوت رکھا ہے، اور یہی فرق و تفاوت اس کا ئنات کا رنگ وبو کا حسن و جمال ہے۔ وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت، مالدار، اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تو اس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔

اُس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے۔ وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدد اُن کے وہ بھائی کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا و خوشنودی اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو۔

بیہقی شریف کی روایت ہے:

"الخلق عيال الله فأحب الخلق إلى الله من أحسن إلى عياله" ساری مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، اللہ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ کی عیال کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ۔" سبحان اللہ اس رب کریم کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہرگز نہیں۔ انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی مدد ،مسافروں، محتاجوں اور فقرا اور مساکین سے ہمدردی، بیماروں، معذوروں، قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں اور وسیع تر تناظر میں ان سب سے بڑھ کر انسانوں سے ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے دوزخ کی آگ سے بچایا جائے اور رب کی رضا اور صراط مستقیم کی طرف ان کو دعوت دی جائے ۔

احادیث مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

٭لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہے جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔

٭اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔ یا ان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو۔

٭میرے نزدیک کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کی سعی ایک ماہ مسجد میں اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جس نے غصہ بُجھایا اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کر لی اور جس نے غصہ پی لیا اگر اس نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات دور کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات دور کر دے گا۔ اس حدیث میں کسی ضرورت مند انسان کی حاجت کو پورا کرنے پر کتنے ہی انعامات کا ذکر کیا گیا ہے۔

٭بے شک بد خُلقی اعمال کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو برباد کر دیتا ہے

٭جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا یہاں تک کہ وہ ضرورت پوری ہو جائے اللہ تعالیٰ اس دن اسے ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈگمگا رہے ہونگے۔

٭ایک دن مجلس میں نبی رحمت نے صحابہ کرام ؓسے سوالات کئے۔ آپنے پوچھا: آج کس نے جنازے میں شرکت کی؟ ّسیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا :میں نے، آپ نے فرمایا :آج کس نے بھوکے کو کھانا کھلایا ؟ سیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا: میں نے۔ آپنے پھر سوال کیا: آج کس نے اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھا ؟ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میں نے۔ آپنے ایک بار پھر پوچھا: آج کس نے بیمار کی عیادت کی؟ سیدنا ابوبکر ؓ نے فرمایا میں نے۔ نبی نے فرمایا جس آدمی میں یہ ٤ باتیں جمع ہو جائیں وہ جنتی ہے۔

صحابہ کرام ؓ نیکیوں کے اس قدر حریص تھے کہ ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ایک دن میں مدینے کے مضافات میں ایک جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس میں تنہا ایک بڑھیا بستر پر پڑی نظر آئی اور جھونپڑی صاف ستھری اور ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ میں نے بڑھیا سے پو چھا: اماں آپ کے یہ کام کون کرتا ہے؟ عرض کیا ایک شخص فجر سے بھی پہلے آتا ہے اور یہ سارے کا م کرکے چلا جاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کو تجسس ہوا کہ وہ کون شخص ہے۔ دوسرے دن صبح آئے تو وہ کام کرکے چلا گیا تھا۔ پھر آئے تو وہ گھر کی صفائی کر رہے تھے دیکھا تو ابو بکر ؓ تھے۔ سید القوم خادمھم یہ تھے قوم کے حقیقی رہنما اور خادم تھے۔

 سیدنا ابو بکر ؓ کئی گھرانوں کی مستقل کفالت بھی کرتے تھے اور محلے میں کئی گھروں کی بکریوں کا دودھ بھی دھوتے تھے۔ خلیفہ بنے تو ایک دن محلے سے گزرتے ہوئے ایک لڑکی نے دیکھا تو کہنے لگی ہائے!! آپ تو مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے ہیں۔ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دھوئے گا ؟ آپؓ نے فرمایا:ــ مجھے تمہاری بکریوں کا دودھ دھونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی (گویا کہ میں خلیفہ ہوتے ہوئے بھی یہ کام کروں گا) ۔ ایک حدیث میں بڑے عجیب انداز میں بھوکے ، پیاسے اور بیمارکا ذکر آیا ہے۔

امام مسلم حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں :نبی اکرم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں بیمارہوا تھا تو تُونے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا: میرے اللہ! تُوتو رب العالمین ہے میں کیسے تیری عیادت کرتا؟ اللہ فرمائے گا: میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تُو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔ یتیموں اور بیوائوں، فقراء اور مساکین سے اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبت ہے اور کن کن طریقوں سے اللہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ دیکھئے جتنی عبادات اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہیں بالخصوص روزہ ،حج اورعمرہ اور شرعی قسم توڑنے کا کفارہ وغیرہ۔ ان عبادات میں کسی کمی یا کوتاہی کا ازالہ اس جیسی کسی عبادت کے بجائے فقراء اور مساکین کی خدمت سے کیا جاتا ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

چوتھی قسط کے لیے یہاں پر کلک کریں

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی