راہ گیر (افسانچہ)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
الفاظ کی تعداد: 502

صبح سورج طلوع ہوتے ہی بابا جی اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کررہے تھے۔ سورج اب سوا نیزے پر آگیا تھا۔ گرمی کی شدت بھی بڑھتی جارہی تھی۔ اس کے بخار میں اب کمی آگئی تھی۔ بابا جی مسلسل اس کے سر پر پٹیاں رکھ رہے تھے۔ ظہر سے کچھ وقت پہلے اسے ہوش آگیا تھا۔
کئی دن بعد اس کی طبیعت میں بہتری آئی تھی۔ ہسپتال سے چھٹی کے بعد بابا جی اسے اپنے گھر لے آئے تھے تاکہ اس کا خیال رکھیں اور اس کی حالت بہتر ہوسکے۔
...............
عصر کی نماز سے واپسی پر بابا جی نے سڑک حادثے پر ایک خاندان کو متاثر پایا۔ بابا جی اسے ہسپتال لے گئے تھے اور اس کے گھر والوں کی آخری رسومات کا انتظام کروایا تھا۔
..............
"موت آتے دیر نہیں لگتی، نہ ہی کسی کو بتا کر آتی ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھو، وقت برف کی طرح قیمتی سرمایہ ہے۔ برف فروش کے لئے اس کا قیمتی سرمایہ و کل اثاثہ یہ برف ہی ہوتی ہے۔ اگر برف پگھل کر ضائع ہو جائے تو یہ بے سود ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وقت گزر جائے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

اگر تم زندہ ہو اور تمہاری سانسیں چل رہی ہیں تو یقینا اس میں اللہ تعالی کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہے۔ تم نے اس حادثے میں اپنے پورے خاندان کو کھودیا، مگر تم سلامت ہو۔ کیوں؟ کیوں کہ اللہ تعالی نے تمہیں ایمان کی حلاوت چکھنے کے لیے زندہ باقی رکھا۔"
بابا جی نے سریش کو سمجھایا اور خاموش ہوگئے۔
سریش نے بتوں کو پوجتے پوجتے اپنی زندگی کا کئی حصہ گزار دیا تھا۔ اسی حال میں اس کا خاندان ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔ وہ یہ روگ لیے بیٹھا تھا۔
بابا جی! "میرا دل بہت بے چین ہے، مجھ سے اب اور یہ بے چینی برداشت نہیں ہوتی، لگتا ہے دل پھٹ جائے گا"۔ ساری بات سننے کے بعد سریش نے کہا۔
"بیٹا! ہمیں بھی ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔ گیا وقت اب ہاتھ نہیں آنا، مگر حال اور مستقبل ابھی باقی ہے۔ گزرے کل پر اللہ تعالی معاف کردے گا۔ تم ایمان لائے تو دیکھنا خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی تمہارا دل پرسکون ہوجائے گا۔ کیوں کہ یہ اللہ سے رجوع چاہتا ہے۔ تم اس پر ضرور سوچنا"۔ بابا جی نے اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا۔
.......
سریش کو بابا جی سے انسیت ہوگئی تھی۔ اتنے دن بابا جی نے سریش کا اس قدر خیال رکھا تھا اور ایک بات پر سریش کا دل اٹکا ہوا تھا، وہ بہت متاثر ہوا تھا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ ایک مسلم شخص کسی غیر مسلم کا جھوٹا کیسے کھا سکتا ہے اور اتنا خیال کیسے رکھ سکتا ہے؟ یقینا اس مذہب میں کوئی نہ کوئی ایسی طاقت اور اپنائیت ضرور ہے۔ وہ اسی وجہ سے اپنے اندر ایک کشش محسوس کررہا تھا۔ اگلے دن وہ بابا جی سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ سکون کا متلاشی یہ شخص سریش سے حیدر بنا اور ابدی نیند سو گیا۔
ختم شد

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی