نبی الرحمت ﷺ بحیثیت محسن انسانیت

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
ایم اے اسلامک اسٹڈیز (سندھ یونیورسٹی جام شورو)
الفاظ کی تعداد: 1200
ہیں مجسم آپ رحمت محسن انسانیت
آپ ہیں فخر نبوت محسن انسانیت
عرب میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم جب انسانیت غلامی کی زندگی بسر کررہی تھی۔ کفر و شرک میں ڈوبی دنیا چاند، سورج اور بتوں کی پرستش کر رہی تھی، انسان اپنا آپ بھلا بیٹھا تھا، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، انسان پستی اور ذلت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس ڈوبتی کشتی کو پار لگانے، کفر و شرک کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے روشنی کی ایک کرن پھوٹی، رب العالمین نے انسانیت کی معراج پر ایک ایسا سورج طلوع کیا، جس نے ذرے ذرے کو روشن کردیا۔ اللہ نے عالمِ انسانیت پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا اور محمد ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمادیا۔ آپ ﷺ کی شخصیت میں تمام نبیوں کے کمالات و صفات کو جمع فرمایا۔ بحیثیت نبی آنحضرت ﷺ پوری دنیا کے لیے انسان کامل، خاتم النبیین اور رحمت اللعالمین بن کر آئے۔
"اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے"۔ (سورۃ الأنبياء: 107)
نبی اکرم ﷺ انسانوں میں ہی پیدا ہوئے اور انسانوں کی طرح ہی زندگی کے نشیب و فراز سے گزرے۔ آپ بیٹے تھے، باپ اور شوہر بھی تھے۔ آپ تاجر، معلمِ کامل، حاکمِ اعلی، سپہ سالار و منتظم بھی تھے۔ آپ ﷺ غلاموں کے محسن، غریبوں کے محب، یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کے سہارا، بے آسروں کے آسرا، درد مندوں کی دوا بھی تھے۔ غرض یہ کہ آپ ﷺ کی ذات مبارک خوبیوں کا منبع تھی، آپ ﷺ نے کفر و شرک میں ڈوبی دنیا کو نور اسلام سے منور کردیا۔ آپ ﷺ کی رحمت کسی ایک قوم یا طبقے کے لیے نہیں تھی بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔
رسول اللہ ﷺ تمام انسانیت کے محسن ہیں۔ آپ نے کسی خاص طبقے کو مخاطب نہیں کیا بلکہ بالعموم فرمایا: "جو شخص اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا"۔(صحیح بخاری: 5997)
ولقد کرمنا بنی آدم بھی ہمیں احترام انسانیت کا ثبوت دیتا ہے۔ ایک انسان کا ناحق قتل ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ انسان چاہے زندہ ہو یا مردہ اس کا احترام لازم کیا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ یہودی اور کافر کا جنازہ بھی دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے۔ (صحیح بخاری: 1311)
نبی ﷺ نے کتنی ہی تکالیف اور مشکلات برداشت کیں، احد کے میدان میں دندان مبارک شہید ہوجانے کے باجود بھی آپ کی زبان مبارک سے دعائیہ کلمات جاری تھے۔ یہ ہی نہیں بلکہ پتھر سے لہولہان کرنے والوں کو بھی معاف کیا، گردن پر تلوار رکھ کر یہ پوچھنے والے کو معاف کیا کہ بتا تجھے اب مجھ سے کون بچائے گا؟ اتنے ظلم برداشت کرنے کے بعد بھی فتح مکہ کے موقع پر اعلان کیا کہ جاؤ! آج تم سب آزاد ہو۔ اس عفو و درگزر اور محسن انسانیت کے رحم و کرم ہی کے نتیجے میں امت محمدیہ اتنی نافرمانیوں کے بعد بھی اجتماعی طور پر عذاب الہی سے محفوظ رہی۔
آپ ﷺ نے عالم انسانیت کو رہنما اصول فراہم کیے جو تمام عالم انسانیت کے لیے حد درجہ مفید ہیں۔ حق کا احترام ہی احترام انسانیت ہے۔ آپ ﷺ نے حق اور فرض کی ادائیگی کا شعور اس قدر بیدار کردیا تھا۔ چھوٹا ہو یا بڑا اسے کو پہنچانتا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اس میں سے پیا۔ آپ ﷺ کی دائیں طرف حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ تھے۔ اور حضرت ابو بکرؓ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا لڑکے! کیا اجازت دو گے کہ میں پہلے یہ پیالہ ابو بکر کو دے دوں؟ اس پر جواب دیا، "یا رسول اللہ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا"۔ (صحیح بخاری: 2351)
آپ ﷺ کا حسن سلوک غلاموں کے ساتھ ایسا تھا جیسے وہ گھر کا ہی حصہ ہوں بلکہ تمام لوگوں کو اس بات کی تلقین کی اور فرمایا: "یہ تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ نے تمہارے ماتحت بنادیا ہے۔ لہٰذا ان سے اچھا برتاؤ کرو۔ جو خود کھاؤ، پیو، پہنو وہ انھیں بھی کھلاؤ، پلاؤ اور پہناؤ اور ان کی طاقت سے بڑھ کر ان پر بوجھ نہ ڈالو۔" (سنن کبریٰ للبیہقی : 15782)
مزدوروں غریبوں، مسکینوں اور غلاموں کا حق انہیں فورا ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا "آدمی کا یہی گناہ کافی ہے کہ اپنے مملوک کے حق کو روک کر بیٹھ جائے۔" (صحیح مسلم: 2312)
اسلام سے پہلے عورتوں پر مظالم ڈھائے جاتے تھے، بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ مگر محسن انسانیت ﷺ نے آکر اس دنیا میں عورتوں کی اہمیت اجاگر کی، ہر رشتے میں انہیں قابل احترام ٹھہرایا۔ وراثت میں ان کا حصہ مقرر کیا گیا۔ اور تمام گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور فرمایا: "تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو"۔ (جامع ترمذی: 3895)
مسلم و غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر پڑوسیوں کے ساتھ احسن انداز سے پیش آنے کی تلقین کی اور فرمایا: "چالیس گھر (چاروں جانب سے دس، دس) تمہارے پڑوسی ہیں۔" (سنن کبریٰ للبیہقی: 12617)
ایک صحابیہ اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان کے شوہر عثمان بن مظعون ؓ کو بلا کر فرمایا: عثمان! کیا تم نے میرے طریقے سے بےرغبتی کی ہے؟ جواب دیا: نہیں! میں تو آپ ہی کی سنت کا طالب رہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تو سوتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، عثمان! تم اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا حق ہے، لہٰذا کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو، اسی طرح نماز پڑھو اور سویا بھی کرو"۔ (سنن ابوداؤد: 1369)
بچوں پر آپ ﷺ کی شفقت کا نظارہ بھی قابلِ دید تھا، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کوئی بچہ آپ کو کھیلتا کودتا نظر آتا تو آپ خوشی میں اس کو لپٹا لیا کرتے تھے، اس کو بوسے دیتے اس سے ہنسی مذاق کرتے، ایک بار آپ ﷺ اپنے نواسے حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور کہا: "کیا آپ بچوں کو چومتے بھی ہیں؟ واللہ ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے"۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے تو اس بات پر قدرت نہیں ہے کہ جب اللہ ہی نے تیرے دل سے رحمت کو کھینچ لیا ہو۔" (مسند احمد: 23200)
بچوں کے ساتھ اس قدر نرم خو تھے کہ ایک بچہ جس کی چڑیا مرگئی تھی، اسے اداس دیکھا تو پاس جاکر اس کی دلجوئی کی، کبھی مسجد میں بچوں کے رونے کی آواز سنی تو نماز کو مختصر کردیا تو کبھی حسن و حسینؓ دورانِ سجدہ کمر پر بیٹھ گئے تو سجدے کو طویل کردیا۔
غرض یہ آپ ﷺ کا پوری انسانیت پر احسان ہے، جس کا عقل ادراک نہیں کرسکتی۔ اس احسان کو ہمیں گراں قدر اہمیت دینی چاہیئے۔ کیوں کہ اس احسانیت کا ابر پوری دنیا پر برستا ہے اور امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ تمام مخلوق اس سے فیض حاصل کررہی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں سنت رسول ﷺ کی اتباع کرنے توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی