ورکنگ وومن کے مسائل

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
ورکنگ وومن کے مسائل
دین اسلام نے خواتین کو بے مثل حقوق سے نوازا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو معاشی اور کاروباری آزادی دی ہے۔ اس آزادی کے ساتھ اسلام نے خواتین پر لزوم حیا، پردہ اور حفاظتِ عصمت کی ذمہ داری بھی عائد کی ہے۔ خواتین بھی اللہ رب العالمین کی جانب سے خداداد صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے منتخب دائرہ کار میں بہترین خدمات سر انجام دے سکتی ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کے لیے تگ و دو کرنے والی خواتین ہمارے یہاں ورکنگ وومن کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں۔
یوں تو اسلام نے عورت کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر واجب کی ہے۔ لیکن ضرورت پڑنے پر عورت کو معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کی اجازت بھی دی ہے۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جن میں سر فہرست نام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ہے کہ وہ تجارت کیا کرتی تھیں۔ جنگوں میں بھی خواتین طب و جراحت کا کام کیا کرتی تھیں۔ انصاری خواتین کھیتی باڑی کیا کرتی تھیں۔ اس ضمن میں کئی نام ہمارے سامنے بھی آتے ہیں۔
جدید دور کے جدید مسائل میں ایک معاشی مسئلہ بھی ہے۔ اس لیے عورتیں گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ معاشی مسئلے سے نمٹنے کے لیے مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں اور اپنے رفیق کی مددگار بھی بنتی ہیں۔ لیکن اس بنا پر ان کے کاندھوں پر دوہری ذمہ داری ہوتی ہے، جہاں کام دوگنا ہوجاتا ہے وہاں مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ 
ایک کام کرنے والی خاتون پر عام عورت سے زیادہ ذمہ داریوں اور کام کا بوجھ ہوتا ہے۔ اگر ایک کام کرنے والی خاتون غیر شادی شدہ ہوتی ہے تو اس کے لیے مسائل کم ہوتے ہیں بنسبت ایک شادی شدہ عورت کے۔ کیوں کہ شادی شدہ عورت جاب اور گھر دونوں کو ایک ساتھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔
ایک خاتون جب کام کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہے اس کے گھر کے نکلنے سے پہلے ہی وہ کئی مسائل کا شکار ہوتی ہے۔ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں جن کاموں کی اشد ضرورت ہوتی ہے، ان کاموں کو پہلے سے ہی مکمل کرنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کی دیکھ بھال و تربیت بھی ایک مشکل و ضروری امر ہوتا ہے، وقت پر کھانا تیار کرنا، کپڑے دھلے اور استری ہونا وغیرہ۔ وہ ان سب کو منظم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ باہر کے کام کے ساتھ گھر والے بھی اس سے کاموں میں عمدگی اور نفاست طلب کررہے ہوتے ہیں، اونچ نیچ کی گنجائش باقی نہیں ہوتی۔
گھر سے نکلتے ہی وہ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہے تو ٹرانسپورٹ میں، سڑک پر یا راستے میں اسے لوگوں کی کئی باتیں سننے کو ملتی ہیں، جسے وہ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جانا چاہتی ہے۔ 
ایک کام کرنے والی خاتون سے مردوں کی بنسبت کم تنخواہ میں زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر اسے تلخ باتیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اکثر مختلف طرح سے ہراساں بھی کی جاتی ہے۔
جاب کے ساتھ گھر کا کام بھی اسے دیکھنا ہوتا ہے۔ وہ ہی سارے کام جو ایک عورت پورے دن میں کررہی ہوتی ہے، اس عورت کو دن کے باقی حصے میں کرنے ہوتے ہیں۔ کام کے بوجھ کی وجہ سے وہ خود پر دھیان نہیں دے پاتی، نیند پوری نہیں کر پاتی، اس کی وجہ سے وہ جسمانی و ذہنی طور پر بھی متاثر ہورہی ہوتی ہے۔
ایک کام کرنے والی خاتون کا سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرنا مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا سماجی حلقہ دن بہ دن محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ گھر اور کام دونوں کو بیک وقت دیکھنے کی وجہ سے ان کے پاس شادی بیاہ و دیگر رسومات میں شرکت کرنے کا وقت بمشکل ہی نکل پاتا ہے۔
 زیادہ تر خواتین ایسے گھر سے تعلق رکھتی ہیں، جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے تو گھر کی باقی خواتین یوں سمجھتی ہیں کہ یہ باہر تو بیٹھ کر آرام کرکے آئی ہے، اب باقی کام اسے ہی دیکھنے ہیں۔ اس کی مشقتوں کا موازنہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی آسائش اور آرائش و زیبائش سے ایک گھر میں رہنے والی عورت اپنا موازنہ کررہی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ حسد، بغض، عداوت کا بھی اسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بعض اوقات کم ظرف مرد جب اپنے گھر کی خاتون کو کام کرتا دیکھتے ہیں تو اپنے کام میں سستی اور کاہلی دکھانا شروع کرتے ہیں اور بالآخر کام چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ یوں وہ گھر بیٹھ کر آرام سے عورت کی کمائی کھا رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس طرح کے مرد ہی شکی مزاج بھی ہوتے ہیں، اس خاتون کو گھر آکر ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے اور صفائیاں پیش کرنے کے لیے بھی الگ سے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے عورت ذہنی طور پر متاثر رہتی ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے گھروں کا سکون تباہ ہوتا ہے پھر اس عورت کو جاب چھوڑنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ خاص طور پر اس مسئلے کا سامنا کررہی ہوتی ہے، اور شکوک و شبہات کی وجہ سے گھر اجڑنے تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا ایک عورت کے لیے مزید مشکلات پیدا کردیتا ہے۔
بعض اوقات تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب اس عورت کو زندگی کے کسی بھی معاملے میں کسی دوسرے کی ضرورت نہیں، کسی محافظ کی ضرورت نہیں، اس کے لیےانسانی ہمدردی اور سہولتیں معطل ہوگئیں۔ تو یاد رہے ایک گھر میں رہنے والی عورت کی طرح ایک کام کرنے والی خاتون کو بھی معاملات میں دوسرے لوگوں کی مدد چاہیئے ہوتی ہے۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم کام کرنے والی خواتین کو بھی انسان ہی سمجھیں کیوں کہ وہ بوجہ مجبوری ہی باہر نکلتی ہیں۔ وہ مدد اور سہارے کی اتنی ہی حقدار ہوتی ہیں جتنی کہ ایک گھر میں رہنے والی عورت۔ ان خواتین کا اگر ہم دست بازو نہیں بن سکتے، حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے تو کم از کم حوصلہ شکنی بھی نہ کریں۔ خود بھی سکون سے جیئیں اور ان کو بھی جینے دیں۔
ختم شد
25-ستمبر -2022
22_صفر المظفر_1444

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

  1. ماشاء اللہ بہت زبردست لکھا ہے... ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے یہ مسئلہ... اور ایک جاب کرنے والی عورت کو سب سے زیادہ تحفظ، ساتھ اور ہمدردی کی ضرورت اپنے لائف پارٹنر کی طرف سے ہوتی ہے جو وہ دینے میں کنجوسی سے کام لیتا ہے یا سرے سے خیال ہی نہیں رکھتا... اور عورت اندر باہر سے ٹوٹ کر رہ جاتی ہے... اس موضع پر اور زیادہ لکھا جانا چاہیے.. کیونکہ یہ اس دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے
    اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے!!!

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی