تبصرہ افسانہ مہر عندلیب

تبصرہ: مہر عندلیب
افسانہ نگار: ثناء احسان یوسفزئی
تبصرہ نگار: سیدہ حفظہ احمد
افسانہ
مجھے جب یہ افسانہ بھیجا گیا تو وقت انتہائی قلیل تھا۔ اور پڑھنے کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر میں نے وعدہ کرلیا تھا کہ میں آج ضرور پڑھ کر تبصرہ کرنے کی کوشش کروں گی۔
یقینا میں نے جب پڑھنے کا سوچا تو میرے ذہن میں تخیل ایسا بالکل نہیں تھا کہ میں اتنی دلچسپی کے ساتھ پڑھ سکوں گی۔

مگر جب پڑھنے بیٹھی تو کہانی واقعی اتنی دلکش اور پر اثر تھی کہ میں اس میں کھو چکی تھی۔ پڑھتے پڑھتے اختتام اتنی جلدی ہوگیا کہ گھڑی کی سوئیاں کہاں سے کہاں گزری کچھ پتہ نہ چلا۔
اس افسانے کی ابتداء سے اختتام تک مجھے پکڑے اور جوڑے رکھا میں چاہ کر بھی اسے ادھوری کہانی چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے بھی ملتوی نہ کرسکی اور ایک ہی نشست میں مکمل کرنے کی کوشش کی۔
میں لکھاری کو بذات خود نہیں جانتی مجھے کسی اور نے گزارش کی کہ اس پر تبصرہ کرنا ہے تو میں نے بمشکل ہامی بھرلی۔
یقینا ثناء صاحبہ ایک بہترین افسانہ نگار کی لسٹ میں شامل ہیں۔ میں نے ابھی تک جتنے بھی (نئے) لکھاریوں کے افسانے پڑھے اتنا بہترین شاہکار میں نے اس قبل نہیں پڑھا۔
محترمہ کا مشاہدہ مطالعہ قدرے گہرا ہے، اسی وجہ سے میں نے اس افسانے میں ڈوب کر پڑھا۔ تحریر میں کھوجانا قاری کو سحر میں جکڑ لینا آسان نہیں ہوتا۔ مگر محترمہ کے قلم سے الفاظ کی روانی، سلاست، جملوں کی بنت کے ساتھ ساتھ لفظوں کا چناؤ فسلفیانہ باتوں کا ذکر بھی اس قدر بہترین انداز میں کیا گیا ہے۔ تجسس سے بھرپور افسانہ کہ قاری اسے ایک ہی نشست میں مکمل کیے بنا چین سے نہیں بیٹھے گا۔
تحریر میں رموز اوقاف کا استعمال بھی تحریر کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ اس کے مکمل، بھرپور اور درست استعمال سے تحریر میں جان پڑی رہی.... (اس کی کمی کے باعث قاری کو اکتاہٹ سی محسوس ہونی لگتی ہے۔)
مہر عند لیب ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک لڑکی کو کچھوے سے مشابہت دی ہے۔ اب یہ نہ سمجھیے گا کہ کچھوا آہستہ چلتا ہے اور خرگوش تیز... کچھوے سے مشابہت اس کے خول کی وجہ سے دی گئی ہے کہ اس قدر صلاحیتوں کی حامل شخصیت خود کو اتنی پر اعتماد، خوددار اور رنگوں سے کھیلنے اور ان کو سمجھنے والی لڑکی اوپر سے اتنی مضبوط کہ ہر ایک کو متاثر کرتی چلی گئی۔ لوگوں کی زبانوں سے اس کا چرچا ختم نہیں ہوتا۔ مگر جب کم عمری میں ایک روگ لیے خاموشی کے ساتھ وہ اس دنیا سے چل بسی تو دنیا اسے ایک خاص وقت کے لیے یاد کرتی تھی، مگر کسی شخص کے دل و دماغ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا کرتے تھے  مگر زبان اس کے اعتراف سے عاری تھی۔ اور پہلے وہ حسد کا شکار ہوا پھر تجسس اور پھر محبت۔ جسے وہ نہ کہہ سکا نہ بھلا سکا۔ اور یہ محبت اس کی موت کے وقت اسے محسوس ہوئی اور ساری زندگی یہاں تک کہ بڑھاپے تک ہر وقت لمحے اس کے ساتھ رہی۔
لکھاریہ نے اس میں ایک بات کہی جو مجھے سمجھ میں آتی تھی مگر اب دل و دماغ پر ثبت ہوچکی ہے کہ:
"مداح مداح ہوتے ہیں اور حاسد ، حاسد صرف اس وقت تک رہتا ہے جب تک ہنر موجود ہے، جیسے ہی ہنر کی اشاعت ختم، ساری مانوسیت ختم، سب صرف اجنبی رہ جاتے ہیں۔"
جیسے صالحہ ہما اس دنیا سے گئی تو دنیا کے لیے وہ اجنبی ہوچکی تھی۔
لکھاریہ کے لیے میرے پاس الفاظ کم پڑ گئے ہیں۔ افسانہ جس قدر تعریف اور داد کی مستحق ہے۔ میں اس انداز اور الفاظ میں اس کا حق نہیں نبھا سکی۔
بس دعا ہے کہ اللہ تعالی محترمہ کے قلم میں مزید برکت عطا کرے۔ آمین

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی