حضرت حریث بن زیدؓ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
الفاظ کی تعداد: 863

قرآن کریم میں اللہ تعالی کئی مقامات پر صحابہ کی شان بیان کی ہے۔ قرآن کے کئی حصے تو ایسے ہیں جو خاص کسی صحابی کے لیے ہیں مگر کئی مقامات پر تمام صحابہ کی شان کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں، جس طرح تم لائے ہو،  تو ہدایت پر ہیں۔ (سورۃ البقرۃ: 137)
قرآن کی طرح کئی احادیث میں بھی صحابہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے اور ان کے رستے پر چلنے یا پیروی کرنے والوان کو ہدایت یافتہ کہا گیا ہے۔
رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا: میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ نے فرمایا:  یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔ (جامع ترمذی:2641)
پیروی ان کی کی جاتی ہے، جو ہدایت یافتہ ہوں۔ جو بہترین نمونہ ہوں، جو ہمیں دین سے جوڑے رکھتے ہوں۔ یہاں صحابہ کی اقتداء کرنے کا حکم کیا گیا ہے۔
رسول ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے والی یہ ہستیاں کتنی قابل قدر اور قابل عزت ہیں۔ یہ ہماری سوچ سے بھی بالاتر ہے۔
احادیث میں ان کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں، انہوں نے ہر ہر بات کو نبی ﷺ سے نقل کیا، ہم تک دین پہنچانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ غرض یہ کہ نبی ﷺ کا حلیہ آپ کا رہن سہن بھی ہمیں بتلایا۔ ان اصحاب کی عزت یا کردار پر حرف نہ آنے دینا بھی ایک مسلمان کی نشانی ہے۔
کیوں کہ ہر صحابی کے لیے اللہ تعالی نے رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ فرمایا ہے۔ ان کو جنت کی بشارت دی ہے۔
ان کے پروردگار کے پاس ان کا انعام وہ سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ وہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہوگا اور وہ اس سے خوش ہوں گے۔ یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھتا ہوں۔ (سورۃ البینہ:8)
2 ہجری 17 رمضان المبارک کے دن بدر کے مقام ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی۔ جس نے دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب پیدا کردیا اسی لیے قرآن مجید میں اس کو یوم الفرقان کہا گیا ہے۔
امریکی پروفیسر ہٹی اپنی کتاب میں ہسٹری آف دی عربین میں کہتا ہے: "یہ اسلام کی سب سے پہلی فتح مبین تھی۔" (معارف القرآن جلد دوم)
صحابہ کرامؓ نے ایمانی قوت کا اس طرح مظاہرہ کیا کہ حق اور باطل کی جنگ میں نسبی تعلق کو آڑے نہیں دیا بلکہ دین اسلام کی ترویج کی خاطر اور رضائے الہی کی خاطر اپنا جانیں پیش کیں۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ لیکن 313 مسلمان 1000 ہزار مشرکین مکہ پر بھاری تھے۔
ان ہی میں سے ایک صحابی حریث بن زیدؓ تھے۔
آپ اپنے بھائی عبد اللہ بن زیدؓ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور غزوہ احد میں بھی شامل ہوئے۔ عبد اللہ بن زیدؓ وہ صحابی ہیں، جنہیں خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے تھے۔
روایت میں ہے کہ عبداللہ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے (مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی تو ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا تو آپ نے فرمایا:  یہ ایک سچا خواب ہے، تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ اور جو تمہیں بتایا گیا ہے، وہ ان پر پیش کرو، وہ اسے زور سے پکار کر کہیں۔ جب عمر بن خطاب ؓ نے بلال ؓ کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے، میں نے (بھی) اسی طرح دیکھا ہے، جو انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  اللہ کا شکر ہے، یہ بات اور پکی ہوگئی۔ جامع ترمذی: 189
امام ترمذی کہتے ہیں عبداللہ بن زیدؓ ہی ابن عبد ربہ ہیں اور انہیں ابن عبد رب بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حریث بن زیدؓ صحابی ہیں اور عبد اللہ بن زیدؓ کے بھائی بھی ہیں۔
آپؓ کا سلسلہ نسب یہ ہے: حريث بن زيد بن ثعلبہ بن عبد ربہ بن زید بن حارث
آپؓ کا تعلق قبیلہ بنی خزرج سے تھا۔
آپؓ کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ البتہ احادیث میں انہیں بدری صحابی کہا گیا ہے۔
المختصر یہ کہ تمام صحابہ کی عظمت و محبت ہر شخص کے دل میں ایسی ہی ہونی چاہیئے، جیسے ہمارے رسول ﷺ کے دل میں تھی۔
 "تمام صحابہ عادل ہیں"۔
بے شک صحابہ کرامؓ کی زندگیاں بھی ہمارے لیے قیمتی موتی لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
25_دسمبر_2022

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی