نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

 تحریر: سیدہ حفظہ احمد 
ارے او چاچا اتنی گرمی میں پنکھا بند کیے کیوں بیٹھے ہو؟
حارث نے چھوٹی سی کیبن نما دکان میں جھانکتے ہوئے گرمی سے بے حال چاچا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
چاچا بھی اپنے کام میں مگن تھے۔ وہ اپنی کتابیں جما رہے تھے کہ شاید کوئی ایسا راہ گیر ہو، جو ان کتابوں کا خریدار نکل آئے اور اس کے گھر کی روزی روٹی کا بندوبست ہوسکے۔ چاچا نے گردن اٹھائی اور پسینے سے شرابور منہ کو رومال کے زریعے صاف کرتے ہوئے کہا۔ بیٹا! بجلی بہت مہنگی ہوگئی ہے۔ پچھلے ماہ بھی واپڈا والوں نے اتنا بل بھیج دیا تھا، بڑی مشکل سے جمع کروایا۔ اب ان ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ پہلے کی طرح پھلوں کی ریڑھی پر دن رات محنت مشقت کروں اور گھر کے تمام واجبات ادا کروں اور بچوں کا پیٹ بھی پالوں۔
ہاں ٹھیک کہا چاچا۔ حارث نے بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا ہمارا بجلی کا بل بھی بہت زیادہ آیا تھا پہلے تو جیسے تیسے کرکے جمع کروادیا تھا، اس بار تو پورا ہفتہ ٹرانسفارمر پھٹنے کی وجہ سے لائٹ ہی نہیں تھی۔
حارث چاچا سے اور ان کی اس دکان سے بڑی محبت کرتا تھا۔ اسے کتابوں سے اور ان کی خوشبو سے بہت انسیت تھی۔ وہ ہفتے میں ایک بار ضرور آتا اور ایک کتاب ضرور خرید کر لے کر جاتا۔
بس بیٹا یہاں امیر امیر تر ہوتا جارہا اور غریب کی تو پوچھو ہی مت۔۔۔۔ چاچا نے دکھی ہوتے ہوئے بات مکمل کرنا چاہی یہاں بنگلے ہیں، گاڑیاں ہیں، ایک سے ایک لباس اور انواع و اقسام کے کھانے ہیں مگر صرف امیروں کی پہنچ ان تک ہے اور حکومت کے ٹھیکیداروں کے لیے یہ سب کچھ مفت ہے۔ کیوں کہ وہ یہ سب کچھ عوام کو نوچ نوچ کر اپنی جیبیں بھر کر ہی حاصل کرتے ہیں۔
ہاں چاچا ٹھیک کہا: کیا بنے گا پاکستان کا؟ حارث نے چاچا کے سامنے سوال داغ دیا۔
پتہ نہیں بیٹا، بس اللہ ہی مالک ہے ہم غریبوں کا۔
مغرب کی اذان کا وقت ہوا تو چاچا نے حارث کو کہا: چلو بیٹا اب تم بھی مسجد کی طرف لپکو، میں بھی دکان بند کر کے نماز پڑھوں گا۔
ٹھیک ہے چاچا آج بہت دیر ہوگئی باتیں کرتے ہوئے پتہ نہیں چلا۔ حارث اللہ حافظ کہتا ہوا مسجد کی جانب چلا گیا۔
چاچا نے بھی اپنی دکان بند کی، جو ان کے ایک کمرے کے مکان کے ساتھ ہی منسلک تھی اور نماز پڑھنے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیں حضرت بجلی کا بل آیا ہے۔ چاچا کی زوجہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی گویا ایک بم گرایا۔ وہ پہلے ہی دل ہی دل میں حکومت اور واپڈا والوں کو دو چار بھاشن سنا چکی تھیں مزید کیا کہتیں؟
مینو! ادھر آ جلدی سے یہ دیکھ کر بتا بجلی کا بل کتنے کا آیا ہے؟ بابا نے اپنی بیٹی کو پکارتے ہوئے کہا۔
مینو جو ان کی اکلوتی اولاد تھی اور بڑے منتوں مرادوں کے بعد ہوئی تھی اور اب آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔ جھٹ سے بابا کے ہاتھ سے بل تھاما اور دیکھتے ہی سوچنے لگی۔ بابا منتظر تھے اس نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ بابا! چچ چالیس ہزار۔۔۔۔۔ اور کل ہی آخری تاریخ ہے۔
یہ ایک پہاڑ تھا، جو اس بوڑھے جسم پر گرا تھا اور اس جسم میں اب اٹھنے کی سکت باقی نہیں تھی۔ گھر میں جیسے تینوں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ مینو کی والدہ نے کہا: یا اللہ! ہماری اس جھونپڑی میں نہ فریج ہے، نہ اے سی، بس ایک پنکھا اور ایک بلب کے لیے چالیس ہزار؟
کہاں سے لائیں گے ہم چالیس ہزار؟ مینو نے اپنی اماں سے سوال کیا۔ وہ جو کپڑے کڑاہی کے پیسے جمع ہوئے ہیں ناں وہ والے ڈبے میں جتنے پیسے ہیں، وہ سب گن کر لاؤ۔۔۔۔ اماں نے جیسے اسے یک بارگی حکم صادر کیا۔ مینو دوڑی دوڑی گئی اور وہ ڈبہ اٹھا لائی۔
اماں! یہ تو دس ہزار ہیں صرف۔۔۔
بابا کو ادھر ادھر نظر دوڑاتے دیکھا۔ یہ مینو کے لیے ڈنر سیٹ لائی تھیں ناں تم۔ یہ کتنے کا لائی تھی؟ آٹھ ہزار کا۔ ہائے! میں بچی کے جہیز کے لیے لائی تھی، یہ میں داؤ پر نہ لگاؤں گی۔ مینو کی اماں نے فیصلہ سنایا۔ رات بھر سوچوں میں گزری۔
صبح اٹھتے ہی مینو نے وہ ڈنر سیٹ کا ڈبہ اپنے بابا کو دیا وہ جانتی تھی یہ بل بھرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔
اس کی اماں نے بھی دس ہزار ہاتھ پر رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

Electric bill 

جتنی جمع پونجی تھی سب ملا کر بھی تئیس ہزار رقم جمع ہوسکی ہے۔ یہاں تک کہ گھر کے سامان میں سے الماری اور پھر اسٹیل کے برتن بھی بیچ ڈالے ہیں۔
مینو کے ابا نے سرگوشی کی جو مینو نے سن لی تھی۔
اس کی آنکھیں بھی نم تھی کہ وہ کیا کرے کہ رقم جمع ہوجائے۔ اس نے کانوں پر ہاتھ لگایا اور اپنی بالیاں اتار کر بابا کے ہاتھوں میں رکھ دیں۔
نہیں بیٹا! میں یہ ظلم نہیں کرسکتا یہ تمہاری اماں نے بڑی محنت سے پیسے جمع کرکے تمھاری سالگرہ پر تحفے کے طور پر بنوا کر دی تھی۔ میں یہ نہیں لے سکتا۔
سولہ ہزار میں لی تھیں ناں ابا۔ بارہ تیرہ ہزار میں تو سنار خرید ہی لے گا۔ مینو نے سانس لیے بغیر جواب دیا۔
پھر بھی رقم پوری نہیں ہوگی بیٹا! ابا نے فورا چھت پر لٹکے پنکھے کی طرف دیکھا اور بمشکل اسے نیچے بھی اتار لیا پھر بیٹری اور اس جڑا پنکھا بھی کھول کر اتارا اور کہا اب ہوجائے گی مشکل آسان اور نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
یہ بالیاں تو رکھ بیٹا! شاید اگلی بار کام آجائے۔
ابا فورا دوڑے دوڑے بجلی کا بل جمع کروانے گئے وہاں بھی ایک لمبی لائن تھی۔ جو اسی طرح سے ستم زدہ لوگوں کی تھی جو
اپنے گھروں کا سامان بیچ کر رقم پوری کرکے لائے تھے۔
ختم شد
جون 2024

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی