سندھ یونیورسٹی (بی- ایڈ 1.5) میں پہلا دن

 جاب سے تین دن کی ایک ساتھ اچانک چھٹی کا ملنا بھی کسی عید سے کم نہیں ہوتا۔ افسوس! یہ کیا تھا؟ اچانک سے یونیورسٹی کی کلاسز کا شروع ہو جانا جیسے خوشیوں پر اوس پڑ گئی ہو۔ بہرحال ایک تجسس بھی تھا کہ اتنے شوق سے داخلہ لیا تھا۔ جس کے لیے تگ و دو کافی عرصے سے چل رہی تھی۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو کیمپس کی افراتفری اور شور وغل دیکھنے کے بعد اولڈ کیمپس کوئی ایک ویران سی جگہ معلوم ہو رہا تھا، جہاں نہ پوائنٹس کا شور اور نہ کوئی افراتفری نظر آرہی تھی۔ کیمپس میں اتنا سناٹا تھا کہ کہیں سے بھی یونیورسٹی معلوم نہیں ہورہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہ کوئی خاموش لیکن پُرسکون جگہ ہو۔ درخت آس پاس آپس میں باتیں کررہے تھے ، ان درختوں پر پرندے گویا جھولے جھولنے اور اٹھکیلیاں کرنے میں مصروف تھے۔ وہاں پہنچ کر میں منتظر تھی کہ کوئی جان پہچان والی لڑکی نظر آ جائے۔ پر صد افسوس کوئی نہ ملی، بہرحال والد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کلاسز کے باہر انتظار کرتی رہی یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ سیکشن بی کی کلاس کون سی والی ہے۔ میں کلاس میں بیٹھ کر کلاس کا انتظار کرتی رہی۔

Old Campus/ Elsa Kazi Campus, University of Sindh, Jamshoro

 یونیورسٹی تھی تو معلوم نہیں ہوتا کہ کون استاذ ہے اور کون سے طلبا؟ اور بی ایڈ کے طلبا کی تو کوئی عمر کی حد بھی نہیں تھی تو وہاں بڑی بڑی عمر کے طلبا بھی نظر آرہے تھے۔ جنہیں اچانک دیکھ دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں یہ تو کوئی استاذ نہیں؟ اچانک کلاس میں ایک سناٹا طاری ہوگیا باہر بیٹھے طلبا بھی کلاس میں آکر بیٹھنے لگے جس سے معلوم ہوا کہ یقینا اب کوئی استاذ کلاس میں آ چکے ہیں پھر روسٹرم پر ایک ٹیچر آکر کھڑے ہوگئے۔ سب طلبا بیٹھے رہے کچھ طلبا کھڑے ہوئے۔ پھر اس استاذ نے گھور کر پوری کلاس کو دیکھا تو میں ڈر کر کھڑی ہوگئی کہ شاید سر غصہ نہ کریں کہ پوری کلاس کھڑی کیوں نہ ہوئی؟ ان سب کو دیکھا دیکھ میں بھی کھڑی ہوگئی پھر سر نے کہا: "ارے بھئی کھڑے کیوں ہورہے ہو؟" ساتھ بیٹھی مریم نے کہا: "ہاں کھڑے کیوں ہوئے ہیں؟ یونیورسٹی ہے یہ تو۔" پھر تمام طلباء بیٹھ گئے یہ سر کامران تھے۔ سر اچانک آئے اور بنا کچھ کہے، بنا کوئی بات کیے انگریزی ،میں بولنا شروع کردیا۔ سر اتنی تیز رفتار میں انگریزی بول رہے تھے جو کہ کافی دیر تک سر پر سے گزرتی رہی سر کوئی اسٹوری بتا رہے تھے اور ساتھ ہی اپنی کلاس کے کچھ رولز اینڈ ریگولیشن، جو بمشکل سمجھ آنے لگے۔ پھر انہوں نے باقاعدہ مضمون کا تعارف کروا کر باقاعدہ کلاس شروع کردی۔ 50/50 منٹ کی ایک ساتھ دو کلاسیں پہاڑ کی طرح بوجھ اور بھاری لگ رہی تھیں۔ جو باتیں لیکچر کی سمجھ آرہی تھیں ان کو میں نوٹ کرتی جارہی تھی۔ جس کے تقریبا چار صفحات بن چکے تھے، ناجانے وہ باتیں جو رہ گئیں اگر میں وہ بھی اس میں لکھتی تو شاید ایک کتاب تیار ہو جاتی۔ انگریزی سن کر اور پڑھ کر ہمیشہ نیند ہی آئی ہے تو لیکچر میں سرے سے ہی کوئی اردو کا نام و نشان تک نہ تھا پھر بمشکل خود کو ہوش و حواس میں رکھا قریب تھا کہ آنکھیں بند ہو جاتیں اور پوری کلاس سوجاتی کیوں کہ سر دو کلاس کے بجائے تیسری کلاس بھی لے چکے تھے اور مس سمیرا باہر کھڑی دیکھ رہی  تھیں کہ کب کلاس ختم ہو۔

پھر مس سمیرا نے کلاس لینا شروع کی اور ہمارا بریک ٹائم بھی کلاس میں مدغم ہوگیا۔ پھر مس  زہرا آگئیں ان کو ہم پر رحم آیا تو انہوں نے ہمیں بریک ٹائم اپنی کلاس میں سے دیا۔ بریک کے لیے گئے تو معلوم ہوا کہ سب کا بریک ٹائم ایک ہی وقت میں ہوتا ہے۔ گویا یونیورسٹی نہ ہوئی پرائمری اسکول ہوگیا، جہاں لائن میں لگ کر کھانے کی لیے چیز لینی پڑے گی اور بریک ٹائم ختم ہو جانے کا خوف بھی رہے گا۔ نماز کا ٹائم بھی بریک ٹائم میں ہی شامل تھا۔ اس وقت ہمارا بریک دیر سے ہوا تھا اس لیے میں فورا واپس اوپر آگئی۔ گرلز کومن روم میں آکر نماز پڑھی اور لنچ کیا۔ سر آلمانی آکر اپنا تعارف کروا کر تمام طلبا سے ان کا تعارف لے کر واپس چلے گئے تھے۔

 بریک کے بعد واپس آئے تو مس زہرا کریکیولم پڑھانے لگیں اور چارٹس کو پلٹ کر لگایا اور ہمیں تجسس میں رکھا۔ پھر سر طارق آئے تو انہوں نے ایچ ڈی ایل پڑھانا شروع کیا۔ ایچ ڈی ایل کچھ قدرے بہتر تھا کیوں کہ وہ مضمون ایجوکیشنل سائیکالوجی میں بیچلر لیول میں کافی حد تک پڑھا ہوا تھا۔ سوچا کہ اس سبجیکٹ پر کم محنت کرنی پڑے گی کیوں کہ کافی چیزیں پہلے سے پڑھی ہوئی ہیں، جن پر کم محنت لگے گی مگر کیا معلوم تھا کہ اسی سبجیکٹ پر سب سے زیادہ محنت درکار ہوگی؟ اور مجھے جتنا لکھنے کا شوق تھا اتنا لکھنا پڑے گا کہ لکھتے لکھتے ہی بے زاری ہو جائے گی یہاں تک کہ لکھائی بھی لکھ لکھ کر نکھرنے کے بجائے بگڑ جائے گی۔ خیر ایک ٹیچر آتا تھا دوسرا جاتا تھا۔ اللہ اللہ کرکے پرائمری اسکول کی طرح کلاسز مکمل ہوئیں اور جب گھر پہنچی تو مغرب کا ٹائم ختم ہونے والا تھا اور 

عشاء کی اذان ہونے والی تھی۔

از قلم سیدہ حفظہ احمد 

1 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

  1. The impressions and experiences shared in this article are extremely important and useful for better guidance
    of incoming students.

    Muhammad Suhail Khan

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی