فاتح شام و قبرص حضرت سیدنا امیر معاویہؓ بن ابو سفیانؓ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

فاتح شام و قبرص حضرت امیر معاویہؓ بن ابو سفیان
الفاظ کی تعداد: 1505
مختصر تعارف:
آپ ؓصحابی رسول تھے۔ آپؓ کا شمار ان سترہ لوگوں میں ہوتا تھا، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپﷺ نے ان کو کاتب وحی مقرر کیا۔ آپؓ رازدار نبیﷺ تھے۔ آپؓ نہ صرف وحی کی کتابت کرتے بلکہ فرامین رسول ﷺ سے جو خطوط جاری ہوتے تھے، اس کی کتابت بھی امیر معاویہؓ کے ذمہ تھی۔ آپؓ نبی اکرم ﷺ کے برادر نسبتی تھے۔ آپؓ کی بہن ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ نبی اکرمﷺ کے نکاح میں تھیں۔
خاندانی پس منظر:
قریش قبیلے کی شاخوں میں سے دو شاخیں بہت نمایاں تھیں۔ دونوں خاندانوں کو شہرت و عظمت حاصل تھی۔ ایک شاخ بنو ہاشم، جس سے نبی اکرم ﷺ کا تعلق تھا۔ دوسری شاخ بنو امیہ تھی۔ حضرت معاویہؓ کا تعلق بھی خاندان بنو امیہ سے تھا۔ بنو امیہ کے جد اعلی "امیہ بن عبد الشمس" تھے۔
نام و نسب نامہ:
آپؓ کا نام پورا نام معاویہ بن ابو سفیانؓ تھا اور کنیت ابو الرحمان تھی۔
امیر معاویہؓ کا نسب پانچویں پشت پر نبی اکرم ﷺ سے جاکر ملتا ہے۔
معاویہ بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف قرشی اموی (اسد الغابہ)
والدین:
حضرت امیر معاویہؓ کے والد کا نام صخر تھا اور کنیت ابو سفیانؓ تھی، فتح مکہ سے قبل حضرت ابوسفیان اسلام کے بڑے دشمنوں میں شمار ہوتے تھے۔
آپ کی والدہ کا نام ہندؓ  بنت عتبہ تھا، جنہوں نے غزوہ احد میں نبی کریم کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجا چبایا تھا۔ لیکن آپؓ کے والدین کو بھی صحابیت کا شرف حاصل ہوا۔
پیدائش:
آپؓ کی پیدائش سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ راجح قول ہے کہ آپؓ کی پیدائش بعثت نبوی ﷺ سے پانچ برس پہلے ہوئی۔ (الاصابہ)
دارالامان:
فتح مکہ کے بعد جب نبی کریم ﷺ نے عام معافی کا اعلان کیا تو ابوسفیان، ہندہ اور ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کرلیا۔ آپؓ کا پورا گھرانہ فتح مکہ کے موقع پر ہی اسلام لایا۔
فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے تالیف قلب کے لیے جس گھر کو بیت الامن قرار دیا۔ یہ امیر معاویہ کے والد محترم ہی کا گھر تھا، جسے نبی اکرم ﷺ نے دار الامان ٹھہرایا اور فرمایا کہ جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر میں داخل ہوگیا اس کو امان حاصل ہے۔ (اسلامی تاریخ- امتیاز پراچہ)
قبل از اسلام کی زندگی:
حضرت امیر معاویہؓ حلم و طبع کے مالک تھے۔ آپ مذہبی علوم کے ساتھ دیگر علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ آپؓ خطیب بھی تھے اور فصاحت و بلاغت میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ آپؓ جوان اور فنون حرب وضرب (جنگ و جہاد) کے ماہر تھے۔ اسلام لانے سے قبل آپ نے مشرکین مکہ کی طرف سے کسی جنگ میں حصہ نہ لیا۔
امیر معاویہؓ کا قبول اسلام:
آپؓ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان تو فتح مکہ کے موقع پر فرمایا، مگر خود آپؓ فرماتے ہیں: "میں عمرۃ القضاء سے پہلے اسلام لاچکا تھا۔ مگر میں مدینہ جانے سے ڈرتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر مدینہ گئے تو ہم تم سے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے"۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ)
امیر معاویہ کی بعد از اسلام کی حیات:
قبول اسلام کے اعلان کے بعد شب و روز آپﷺ کی صحبت اور خدمت نبوی ﷺ میں ہی بسر کیے۔
آپؓ سب سے پہلے غزوۂ حنین میں شریک ہوئے، آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت سے انہیں سو اونٹ مرحمت فرمائے۔ (اسد الغابہ)
آپ ﷺ کے وصال کے بعد عہد خلفائے راشدین میں بھی آپؓ کا مقام و مرتبہ بلند تھا۔
دور صدیقیؓ:
دور صدیق اکبرؓ میں شام کی طرف جو لشکر بھیجے گئے آپؓ اس کے ہر دستے میں اول تھے، علاوہ ازیں فوج کے دستے کے کمانڈر بھی مقرر کیے گئے۔
دور فاروقیؓ:
دور عمرؓ میں دمشق کے گورنر مقرر کئے گئے اور اس حیثیت سے آپؓ نے روم کی سرحدوں میں جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کیے۔
عمرؓ کا قول ہے کہ: معاویہ عربوں کا کسری ہے۔ (اسد الغابہ)
دور عثمانیؓ:
عہد عثمانؓ میں آپؓ نے اس عہدے سے ترقی کی اور پورے شام کے گورنر مقرر کیے گئے۔ اس دور میں آپؓ کا ایک اہم کارنامہ "قبرص" کی فتح تھی۔ دور عثمانی میں آپ ؓ نے سب سے پہلا سمندری جہاد بھی کیا۔ اور نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت میں سب سے پہلے سمندری جہاد کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت دی تھی۔
ام حرام ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم  ﷺ  سے سنا ہے، آپ  ﷺ  نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے  (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت)  واجب کرلی۔ صحیح بخاری: 2924
مناصب:
آپؓ تقریبا 18ھ سے 40ھ تک تقریبا 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے۔ 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ 18ھ میں آپ کے بھائی یزید بن ابی سفیانؓ طاعون کی وبا سے وفات پاگئے تو حضرت عمرؓ نے ان کا عہدہ گورنری امیر معاویہؓ کو دے دیا تھا۔
دور علیؓ:
حضرت علیؓ کے دور تک آپ گورنر رہے۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی۔ بلکہ غلط فہمی کی بنا پر نوبت جنگ تک آ پہنچی اور نتیجے میں "جنگ صفین" ہوئی۔ پھر امیر معاویہؓ نے ملک شام پر اپنی خود مختار حکومت قائم کی۔ اس کے بعد آپؓ خود مختار امیر رہے یہاں تک حضرت علیؓ سے ان کی صلح ہوگئی۔
اس کے بعد جب حضرت حسنؓ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تو تمام لوگ آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر متفق ہوگئے، اس سال کو "عام الجماعة" یعنی اکٹھے ہونے کا سال کہا گیا ہے۔ (الاصابہ)
امیر معاویہؓ کا دور خلافت:
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت حسنؓ اپنی خلافت سے دستبردار ہوئے تو لوگوں نے آپؓ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا اور آپؓ کے دست شفقت پر بیعت کرلی۔ آپؓ کا دور خلافت تقریبا 20 سال (40ھ تا 60ھ) رہا۔
فتوحات:
آپؓ کے دور خلافت میں بھی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں سندھ میں مسلمانوں نے اپنے قدم مستقل نہیں جمائے تھے مگر امیر معاویہؓ کے دور میں سندھ فتح ہوا اور یہاں مسلمانوں کے قدم جمے۔ اور مسلمانوں کی سلطنت کی حدود ہندوستان تک پہنچ گئیں۔ فتوحات کے ضمن میں قندھار، مکران، سیسان، ترمذ، خراسان، روس، کابل کے ساتھ ساتھ قسطنطنیہ کی فتح بہت اہمیت کی حامل ہے۔
فوج کی ترقی:
آپؓ نے فوج کے ساتھ بحری فوج کو مزید ترقی دی ان کا وظیفہ بڑھایا اور ان کے گھر والوں کا بھی وظیفہ مقرر کیا۔ بحری فوج کو دو حصوں تقسیم کیا ایک حصہ سردی میں جہاد کرتا اور ایک حصہ گرمی میں۔
آپؓ نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے قلعوں کی مرمت کروائی اور نئے قلعے تعمیر کروائے۔ آپؓ نے مردم شماری کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپؓ نے امن و امان قائم رکھنے کے لیے پولیس کے شعبے کو مزید ترقی دی۔ آپؓ سرکاری ڈاک کا باقاعدہ ایک محکمہ قائم کیا، جس کو "محکمہ برید" کا نام دیا گیا۔
تعمیر و ترقی:
آپؓ نے فرامین اور خطوط کی ایک نقل دفتر میں رکھنے کی ابتداء کی۔ آپؓ نے نئے شہروں کو آباد کیا اور پرانے شہروں کو ترقی دی۔ آپؓ نے مساجد کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی کام کیا۔ آپؓ نے بیت اللہ شریف کی خدمت کے لیے مستقل ملازم رکھے۔ بیت اللہ شریف پر حریر کا خوب صورت غلاف چڑھایا۔ آپؓ نے ہی سب سے پہلے اقامتی ہسپتال قائم کروائے۔ سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
اگرچہ آپؓ کی حکومت خلافت سے شخصی حکومت میں تبدیل ہوئی تھی مگر آپؓ نے اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن تدبیر و طریقہ اختیار کیا اور حکمرانی کو اسلام کے دائرے اور جائز حدود میں رہ حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ آپؓ کے کردار میں سخاوت کا عنصر غالب تھا۔ آپؓ عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ (اسلامی تاریخ)
روایات:
آپؓ نے 173 روایات نقل کی ہیں۔
جن سے روایات نقل کی ہیں ان میں حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور ام حبیبہؓ بنت ابی سفیان کے نام شامل رضی اللہ عنھم ہیں۔ (اسد الغابہ)
نبی اکرم ﷺ کی دعا:
خود نبی اکرمﷺ نے ان کے لیے بہت سی دعائیں کیں اور ان کی عظمتیں بیان کیں۔
روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاویہؓ کے بارے میں فرمایا: اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے۔ (جامع ترمذی: 3842)
وفات:
بے شک آپؓ ایک عظیم لیڈر تھے۔ آپؓ نے 22 رجب المرجب 60ھ میں وفات پائی۔ آپؓ کی نماز جنازہ ضحاک بن قیسؓ نے پڑھائی۔ آپؓ دمشق کی سر زمین میں مدفن ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا اللہ ہم سب کو دین اسلام پر چلنے، ناموس صحابہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

۸_مارچ_۲۰۲١

رجب المرجب_١٤٤۲_۲٣

یہ تصنیف بھی پڑھیں

6 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی