اقبال کے شیدائی

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے (بال جبریل)
کیا ہے یار حاشر کیوں بور کرنے لگ گئے ہو تم؟ ہر وقت تم کوئی نہ کوئی شعر پڑھتے رہتے ہو۔ تمہیں اور کوئی کام نہیں ہے زندگی میں؟ جب سے تم نے یہ شاعرانہ انداز اپنایا ہے ناں، دل کرتا ہے تمہارے ساتھ ہی نہ رہوں، دوستی ہی ختم کردوں۔
علی نے شکایت بھرے انداز میں حاشر کو دھکماتے ہوئے کہا۔ گویا وہ دوستی بھی نہیں چھوڑنا چاہ رہا ہو اور شاعری بھی نہیں سننا چاہ رہا ہو۔ مگر حاشر پر شاعری کا بھوت سوار تھا۔ وہ اب علامہ اقبالؒ کی گہری شاعری بھی سمجھنے لگا تھا، دن بہ دن اس کی سوچ پروان چڑھ رہی تھی۔
خودی میں گم ہے خدائی، تلاش کر غافل
یہی ہے اب تیرے لیے صلاح کار کی راہ
حاشر نے علی کو چڑاتے ہوئے ایک کے بعد ایک شعر پڑھا۔
.........
ان دنوں اسکول میں ہفتہ طلباء (Student week) شروع ہونے والا تھا، نومبر شروع ہوتے ہی اسکول میں ہر طرف بہت گہما گہمی تھی۔ میٹرک کے طلباء کا یہ آخری سال تھا، اس لیے وہ اس سال کو بہت یادگار بنانا چاہتے تھے۔ ہر ایک بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لینا چاہ رہا تھا اور اپنی دلچسپی کے مطابق آگے بڑھنے اور حصہ لینے کی تگ و دو کررہا تھا۔
سر محسن اچانک کلاس میں داخل ہوئے۔ استاذ کو دیکھتے ہی یکایک کلاس میں خاموشی طاری ہوگئی۔
کلاس پر ایک نظر دوڑا کر مسکراتے ہوئے سر محسن نے سوال کیا: کیا بات ہے بھئی! اتنا ہنگامہ کیوں ہورہا تھا کلاس میں؟
سر! اسٹودینٹ ویک شروع ہورہا ہے ناں، سب اس کی تیاری کے لیے پرجوش ہیں۔ اسی لیے کلاس میں اتنا شور تھا۔ اسد (جو کلاس کا پریفیکٹ تھا) نے جواب دیا۔
سر محسن: اوہ اچھا! تو پھر کون کون مقابلوں میں حصہ لے رہا ہے؟
سر! میں کوئز میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ عمر نے بھی جواب دیا۔
میں تقریری مقابلے میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ شہیر نے ہاتھ کھڑا کرکے جواب دیا۔
میں بیت بازی میں حصہ لوں گا۔ حاشر نے جیسے ہی کہا تو علی نے اسے گھور کر دیکھا۔
سر محسن نے خاموش بیٹھے احسن سے پوچھا: آپ کس مقابلے میں حصہ لیں گے؟
 سر میں خطاطی اور تحریری مقابلے میں حصہ لوں گا۔ احسن نے جواب دیا۔
سر محسن نے علی کو حاشر کی جانب گھورتا ہوا دیکھا تو فورا اس سے سوال کیا۔ سوچ بچار کے بعد علی نے جواب دیا: قرات، نعت، نیشنل سونگ اور اسپیلنگ بی۔ ارے واہ! بھئی علی آپ تو بہت چھپے رستم ہو۔ سر نے علی کو داد دیتے ہوئے کہا۔
ایک ایک کرکے لڑکوں نے اپنی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ 
 ایک ہفتے تک کلاسز میں پروگرام کے حوالے سے تیاری کا حکم پرنسپل صاحب کی جانب سے تھا۔
سب لڑکے اپنے اپنے مقابلے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔
........
عادل کے والد کا سیالکوٹ (شہرِ اقبال) سے پچھلے ہفتے ہی ٹرانسفر ہوا تھا۔ اس بنا پر اب عادل بھی کراچی ایئر فورس اسکول میں ہی زیر تعلیم تھا۔ آج اسکول میں عادل کا دوسرا دن تھا، اسے جب اس بات کی اطلاع ملی کہ ہفتہ طلباء میں بیت بازی مقابلہ بھی ہونے جارہا ہے تو اس نے پر جوش ہو کر مقابلے میں حصہ لے لیا۔
.......
تحریری، تقریری اور بیت بازی مقابلے میں "علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات" پر خاص تھیم دیا گیا تھا۔ جب کہ بیت بازی مقابلے کی شرائط میں ایک اور اضافہ یہ بھی تھا کہ مقابلے میں صرف علامہ اقبال کے اشعار ہی پڑھے جائیں، ان شرائط کے مطابق پورا نہ اترنے والے کو مقابلے سے خارج کردیا جائے گا۔ حاشر نے بھی ان شرائط کو مد نظر رکھا۔ گوگل اور فیسبک کی مدد سے بہت سارے اشعار نکال کر یاد کیے۔
بیت بازی مقابلہ خاص طور پر 9 نومبر کو رکھا گیا تاکہ علامہ اقبالؒ کے نظریے اور افکار پر بھی غور کیا جاسکے اور سب ان کے اشعار سے بھی محظوظ ہوسکیں۔
........
"ہر سال بیت بازی مقابلہ حاشر ہی جیتتا آرہا ہے، کیوں کہ اسے علامہ اقبالؒ کے بہت سارے اشعار بھی یاد ہیں۔ عادل تو ابھی نیا ہے اس نے اتنی جلدی تیاری بھی نہیں کی"۔ مقابلے سے قبل لڑکے آپس میں گفت و شنید کررہے تھے۔
بیت بازی میں تمام حصہ لینے والے لڑکے تیاری سے آئے تھے، مقابلہ زور و شور سے جاری ہوا۔ ایک ایک کرکے لڑکے راؤنڈ سے آؤٹ ہوتے جارہے تھے۔ تیسرے راؤنڈ میں بھی حاشر اور عادل کے درمیان مقابلہ سخت تھا۔
....
حاشر تمہارا یہ بھوت کب اترے گا؟ بریک ٹائم میں علی نے حاشر سے اچانک سوال کیا۔
حاشر نے اسے مسکرا کر دیکھا اور کہا: اچھا یار! ناراض کیوں ہوتے ہو؟ یہاں بیٹھ جاؤ تم تو ایسا دور بھاگنے لگے ہو، جیسے میں کوئی ناجائز کام کرنے لگ گیا ہوں۔ اچھا یہ بتاؤ خودی سے کیا مراد ہے؟
حاشر نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بات شروع کرنی چاہی۔ تاکہ وہ اپنی بات واضح کرسکے۔
ہاں! یہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں، خود غرض، انا پرست، جیسے تم اب ہوگئے ہو! تمہیں اب اپنے سوا کوئی دکھتا ہی نہیں ہے، من موجی ہوگئے ہو یار تم۔ علی نے خفا ہو کر کہا۔
حاشر نے کہا: ہاں! ٹھیک کہا۔ لیکن خودی اقبالؒ کے نزدیک نام ہے،احساس غیرت مندی کا، جذبہ خود داری کا، خود اعتمادی، خود شناسی اور اپنی عزت نفس کے احساس کا۔ اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
علی نے بھی اس کی بات کو دلچسپی لیتے ہوئے سنا۔ ساتھ میں اور لڑکے بھی آگئے، انہوں نے حاشر اور عمر کو کئی دن بعد ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔
حاشر نے اپنی بات کو مکمل کرنے کے لیے دوبارہ بولنا شروع کیا: علامہ اقبالؒ نے پورے فلسفیانہ غوروفکر میں جتنی اہمیت خودی کے فلسفے کو دی ہے، اتنی کسی اور کو نہیں دی۔ علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ مسلمان کبھی ان اوصاف سے عاری نہ ہو۔ سوچ، معاملات، مذاکرات، گفتگو اور طرز حیات میں مسلمان کا رویہ ان اوصاف کی نفی نہ کرے۔ ایک مسلمان کی پہچان میں خود داری اور مضبوطی ہو، کیوں کہ فکری یا عملی پستی اور جھکاؤ انسان کو بے وقعت کردیتا ہے۔
یہ ہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک خودی ایک مکمل اور کامل شخصیت ہے۔ وہ اسے مستقل جدوجہد قرار دیتے تھے۔ خودی خود آگاہی اور یقین کی گہرائی کا نام ہے۔ فرد و ملت کی ترقی و تنزلی، خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ہے۔
اس میں توحید کا راز بھی چھپا ہے۔ خودی توحید کی محافظ بھی ہے۔ لا الہ الا اللہ کا راز بھی خودی ہے۔ توحید خودی کی تلوار کو محفوظ بنادیتی ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ سب لڑکے اسے متاثر کن نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک بریک ٹائم کی گھنٹی بجنے لگی اور سب اپنی کلاس میں جانے لگے تو حاشر نے انہیں کہا کہ ٹھہرو...
سب متوجہ ہوگئے، ناجانے حاشر اب ان سے کیا کہنا چاہ رہا ہے؟
ہم  اگرخودی سے تعمیری کام لینا چاہتے ہیں تو اس کی تربیت بھی ضروری ہے۔ تربیت خودی کے تین مراحل ہیں، جس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔ان شاء اللہ 
علی نے اسے سراہتے ہوئے کہا: یار! تم تو میری توقع سے زیادہ قابل ہو، تم نے اتنی گہری باتیں سمجھی ہوئی ہوں گی، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اب علی اور حاشر کی دوستی مزید گہری ہوچکی تھی۔
.......
 سر محسن ججز کے بنائے ہوئے نتیجے کا اعلان سنانے اسٹیج پر تشریف لائے اور مائیک کے ذرا قریب ہوگئے۔ وہ اب نتائج کی وجوہات بیان کرنے والے تھے کہ مقابلہ کس بنیاد پر ختم ہوا ہے؟ 
معزز سامعین کرام! آج کے اس مقابلے میں ہم نے شرائط بیان کردی تھیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تقریبا شرکاء مقابلے سے اس لیے شروع میں ہی خارج ہوتے گئے کہ انہوں نے شرائط کا خیال نہیں رکھا اور علامہ اقبالؒ کی روح کو مجروح کرتے رہے۔ ہمارے معاشرے میں اب ہر شعر کو اہمیت دینے کے لیے اس پر اقبالؒ کے نام کو جوڑ دیا جاتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔ حاشر اور عادل نے بہترین مقابلہ کیا۔ مگر اختتام پر کوئی ایک ہی ونر ہوتا ہے۔
عادل اور حاشر کا دل دھک دھک کررہا تھا کہ ونر کون ہوگا؟ 
سر محسن سانس لینے کو ذرا رکے پھر کہا: حاشر نے بھی آخری شعر جو پڑھا وہ اقبال کا نہیں تھا۔ اس بنیاد پر ججز کے فیصلے کے مطابق آج کے ونر عادل قرار پائے ہیں۔
سب لڑکے پہلے تو حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ پھر فورا ہی ہال میں زور دار تالیوں کی آواز گونجنے لگی۔

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی