حفاظتی حصار

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

ماں کے بارے میں تو لوگ بہت کچھ لکھتے ہیں ، مگر باپ کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ماں پر مختلف قسم کی تحریریں مل جائیں گی، مگر باپ کے بارے میں لکھنے کے لئے بہت ہی کم لوگوں نے قلم اٹھایا ہے۔ جب کہ اللہ تعالی نے ماں اور باپ کے لیے ہمیشہ والدین کا لفظ کہہ کر توجہ دلائی ہے اور کلمہ حق کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا :

" لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰهَ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا"

ترجمہ:

" تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے "۔ (البقرة آیت نمبر 83)

اس آیت کی رو سے ماں اور باپ دونوں کا رتبہ برابر ہے۔ البتہ احادیث صحیحہ کی رو سے ماں کا رتبہ اعلٰی ہے۔ باپ کو پیچھے نہیں رکھا گیا مگر پھر بھی ہم والد کے معاملے میں کچھ زیادتی کر جاتے ہیں۔

"وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ؕ اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا‏ " 

ترجمہ:

اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اور نہ انہیں جھڑکو۔ بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو۔"۔ (سورۃ الإسراء آیت نمبر 23)

اللہ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے اور نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر والدین کے سامنے عاجزی وانکساری سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں بھی دونوں کو ایک لفظ میں سمو کر توجہ دلائی ہے کہ:

"وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا " 

ترجمہ:

"اور جھکائے رکھو ان کے سامنے اپنے بازو عاجزی اور نیاز مندی سے اور دعا کرتے رہو : اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا "۔ (سورۃ الإسراء آیت نمبر 24)

بچپن یاد کرکے عاجزی و انکساری سے جھکے رہنے کا حکم دیا اور تو اور نماز میں بھی والدین کے لیے دعا کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اگر ہم اپنی نماز پر ایک نظر دوڑائیں تو ہم آخری رکعت میں "ربنا" سے شروع ہونے والی دعا پڑھتے ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو یہ دعا سکھاتی جاتی ہے، جس میں والدین کی بخشش و مغفرت کی دعا بھی کی جاسکے۔

"رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌‌ ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِىۡ وَلـِوَالِدَىَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡحِسَابُ "

ترجمہ:

یا رب! مجھے بھی نماز قائم کرنے والا بنا دیجیے اور میری اولاد میں سے بھی (ایسے لوگ پیدا فرمایے جو نماز قائم کریں) اے ہمارے پروردگار ! اور میری دعا قبول فرمالیجیے۔ (سورۃ ابراهيم آیت نمبر 40)

اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ ہمارے لیے قابل احترام ہستی ہیں۔ والدین کے بارے میں اگر اور لکھنے بیٹھی تو یہاں بہت سارے صفحات بھر جائیں گے ، لیکن الفاظ ختم نہیں ہوں گے۔

ہم ہمیشہ صرف ماں کو ترجیح دے کر باپ کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔ ویسے تو ہر دن ماں باپ کا ہوتا ہے۔ مگر مغرب نے والدین کی عزت نہ کرکے ان کا معیار کو پامال کرکے اولڈ ایج ہومس بنوائے، اور انہیں ان کی عمر ڈھل جانے پر اولڈ ایج ہوم میں داخل کروانے کا ٹرینڈ چلادیا، جس کے نتیجے میں سال میں صرف ایک دن ماں کا ایک دن باپ کا منایا جانے لگا ان کو دیکھ مشرق بھی کچھ ان ہی کے طرز عمل پر چلنے لگا اور ماں اور باپ کا دن منانے لگا۔

لیکن اسلام نے ہمیں ماں اور باپ کے لئے حسنِ سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا کندھے جھکانے عاجزی وانکساری اختیار کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح مغرب کے طرز عمل پر آج باپ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، جہاں ماں کا کردار اہم ہے وہیں باپ کا کردار بھی اہم ہے۔ ماں جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے اور حدیث کی رو سے یہ بات ثابت ہے۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے“۔ ( ترمذی :1900)

ہماری زندگی باپ کے بغیر ادھوری ہے۔ در حقیقت باپ ہی ہے، جو ہمارے اس دنیا میں آنے کا سبب بنتا ہے۔ باپ شفیق و مہربان ہوتا ہے۔ اپنا سب کچھ لٹا کر اپنی تمام تر زندگی اولاد کی نظر کردیتا ہے۔ اگرچہ وہ کبھی ہم پر غصہ ہوجاتے ہیں، ڈانٹ دیتے ہیں، مگر ان کے دل میں ہمارے لیے محبت، شفقت، رحمدلی اور نرمی کبھی ختم نہیں ہوتی۔

میرے ابو جان

ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا

میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائی میں

تو میں آج لکھنا چاہوں گی کہ میرے ابو اگرچہ غصے کے تھوڑے تیز ہیں، اور اکثر ڈانٹ ڈپٹ، غصہ عام سی بات ہے، لیکن صاف دل کے مالک ہیں۔

پہلے میں سمجھتی تھی، ابو مجھ سے پیار نہیں کرتے، کیوں کہ ابو بہن کو (میری نظر میں) زیادہ ترجیح دیتے تھے، کیوں کہ وہ ان کی پہلی اولاد تھی۔ کچھ عرصے ہاسٹل میں بھی رہی، اس لیے اس کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کی فرمائشیں فورا پوری ہوجاتی۔ میں کوئی فرمائش کرتی تو صبر کرنے یا بہن کا انتظار کرنے کا کہہ دیا جاتا مگر ایسا صرف وقتی طور پر تھا جو مجھے محسوس ہوتا تھا۔

البتہ مجھے یاد ہے ڈانٹ ڈپٹ ابو نے بچپن میں نہیں کی بلکہ امی کی ڈانٹ اور مار سے ہمیشہ بچایا۔( یہ الگ بات ہے کہ امی ابو کی غیر موجودگی میں کھچائی کرتی تھیں)۔

لیکن بس ایک تھپڑ جو مجھے بھی اب تک یاد ہے، اور ابو کو بھی بہت چھوٹی تھی میں مدرسے کا پیپر تھا، بہن سے ضد کررہی تھی کہ امی کو بلاؤ تو جاؤں گی، امی نانی کے گھر دوسرے شہر میں تھیں۔ عین وقت آنے سے قاصر تھیں، تو ضد ختم کرنے اور مدرسے کے لئے راضی نہ ہونے پر میں ڈٹی ہوئی تھی۔ اسی کشمکش میں ابو کا کرارا طمانچہ وہ پہلا اور آخری طمانچہ یاد ہے۔ بغیر ناشتہ کیے گود میں اٹھایا چاچا کے ساتھ زبردستی موٹر سائیکل پر بٹھا کر چھوڑ کر آئے۔

ابو کہتے ہیں کہ میں اکثر ضد کرتی تھی کہ مدرسہ نہیں جانا، مجھے سکول جانا ہے ،اور پھر بہن بھائی کو سکول چھوڑ کر جلدی سے ابو کا بائک چلادینا اور اب اسی بات کو لے کر ابو میرا مذاق بناتے ہیں۔ ہاہاہاہاہا لیکن شکرگزار ہوں ان کی مجھے حافظِ قرآن بنایا، البتہ مشورہ امی کا تھا اور نام بھی اسی نسبت سے حفظہ ہی رکھا۔ہمیشہ اپنی نگرانی میں اپنے زیر سایہ سکول مدرسہ کالج چھوڑ کر آنا، لے کر آنا، ایک تحفظ دیتا تھا۔ کبھی ڈر محسوس نہ ہوا کسی کا مگر ہفتے میں ایک بار ابو کراچی جاتے تو ابو یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ کر جاتے، کیوں کہ مدرسہ کے وقت میں بھائی بھی چھوٹا تھا۔ پھر سکول کالج اور یونیورسٹی کے لیے بھائی کو ذمی داری سونپ دی گئی ابو کی غیر موجودگی میں۔

مگر ظلم یہ کہ ابو کی غیر موجودگی میں اکثر ہی یہ ذمہ داری ابو کی طرح پوری نہیں کی گئی۔ کیونکہ مدرسہ کالج اور کالج کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ابو کی غیر موجودگی کی وجہ سے میں نے گھٹنوں بیٹھ كر لینے آنے کا انتظار نہ کیا ہو۔ ایک بار تو مجھ چھوٹی سی بچی پر یہ ظلم ہوا کہ 3 بجے کے بجائے 5 بج گئے۔ مایوسی کے عالم میں مجھ جیسی صبر والی بچی اک آنسو بھی نہ بہا پائی، اور اب یونیورسٹی کے لیے بھی یہ ہوتا تھا کہ جس دن ابو گھر پر نہ ہوتے، بھول میں ابو کو ہی یاددہانی کروادیتی، پھر فورا ابو کی کال پر یاد آتا کہ آج تو ابو گھر پر نہیں ہیں پھر سمجھ جاتی کہ انتظار منتظر ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ابو مجھے جب مدرسہ سے لینے آتے تو موٹر سائیکل چلاتے چلاتے گنگناتے تھے۔ میں گھر آکر امی سے شکایت کردیتی کہ ابو گانے گاتے ہیں پھر یہ بات یاد دلا دلا کر ابو اب بھی ہنساتے ہیں۔ ابو غصے کے بہت تیز مگر ہنسی مذاق کرنے میں بہت آگے ہیں۔

یہ بچپن بہت جلدی گزرگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم بڑے ہوگئے، مگر ابو ویسے ہی رہے ہمیشہ کی طرح غصہ کرنے والے، مگر ہر طرح سے خیال رکھنے والے ذرا سی بات پر ٹیشن لینے والے اور ہمیں دیکھ کر کہنے والے کہ گھبراؤ نہیں۔

اچانک ہی اللہ كے گھر سے حج کا بلاوا آجاتا ہے، امی ابو حج کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ پہلا تجربہ تھا کہ ابو امی اتنے دن کے لئے کہیں جارہے تھے اور کھانا پکانا گھر کی سب سے چھوٹی (مجھ ہی) کو کرنا تھا۔ پھر کر بھی رہی تھی مگر شدید گرمی کی وجہ سے موجودہ دانوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ امی کے بتانے پر ابو بھی ٹینشن میں آگئے اور دوڑتے ہوئے حرم کعبہ جا پہنچے، اور نفل ادا کرکے خانہ کعبہ کے پاس میرے لئے دعا کی۔

پھر یہ وقت بھی گزرگیا اور اب گزشتہ دنوں امی ابو کسی وجہ سے گھر سے دور چلے گئے۔ اب مجھے ہی سب کچھ دیکھنا پڑا۔ ہمیشہ کی طرح بھائی اور میری نوک جھونک جاری رہی۔ پھر دس دن بعد ابو کی تشریف آوری ہوئی، کھانے میں نمک تیز والے چاول ابو کے آگے رکھنے پڑے۔ پورے دن کا غصہ خوشی میں بدل گیا، جب ابو نے کہا کہ کس نے بنائے ہیں؟ چاول تو اچھے بنے ہیں۔

پھر اگلے دن ابو کی فرمائش پر کسٹرڈ بنایا ابو کو سخت (جما ہوا) کسٹرڈ پسند ہے۔ میں نے تھوڑا پتلا بنایا ابو نے پہلے کہا یہ کیسا بنایا ایسا نہیں بنانا تھا۔ مگر پہلے ہی چمچ میں تعریف کی، تو خوشی ملی۔

خیر اگلے دن پھر بھائی اور میری نوک جھونک جاری رہی اور کھانا کھاتے وقت " تو, تو میں, میں" شروع ہوگئی اور میں نے غصے میں کھانا نہ کھانے کا عزم کرلیا، سسک سسک کر رونا شروع کردیا۔ پھر ابو اپنے کام پر جاتے جاتے رک گئے کہ اگر ایسے روتی رہی کھانا نہ کھایا تو میری جان تجھ میں ہی اٹکی رہے گی۔ ابو کے منانے پر مجھے ماننا پڑا اور اس دن محض بہت شدت سے احساس ہوا کہ ابو ہم سب سے برابر کی محبت کرتے ہیں۔

اکثر لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے والد ہم سے محبت نہیں کرتے۔ مگر حالات و واقعات ہمیں ایک دن یہ ثابت کرکے دکھادیتے ہیں کہ والد کا سایہ ہم پر کتنا ضروری ہوتا ہے۔

ان کا ہونا ایک حفاظتی حصار کی طرح لگتا ہے اور والد تو بیٹیوں کے لیے محافظ کی طرح ہوتے ہیں، ان کی قدرو منزلت اور ان کے پسینے کی ایک بوند کا بھی ہم حق ادا نہیں کرسکتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے ( یعنی باپ کو ) غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے“ ۔ (جامع ترمذی :1907)

ایک بہترین دعا جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے :

"رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮهُ وَاَصۡلِحۡ لِىۡ فِىۡ ذُرِّيَّتِىۡ ؕۚ اِنِّىۡ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاِنِّىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ "

ترجمہ:

"یا رب ! مجھے توفیق دیجیے کہ میں آپ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی، اور ایسے نیک عمل کروں جن سے آپ راضی ہوجائیں، اور میرے لیے میری اولاد کو بھی صلاحیت دے دیجیے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں شامل ہوں۔"(سورۃ الاحقاف آیت نمبر 15)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے والدین کی قدر کرنے، ان کی عزت کرنے، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے، ان کی نافرمانی سے بچائے، ان کا سایہ ہم پر سدا سلامت رہے۔ آمین

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے

یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے

(طاہر شہیر)

21_جون_2020

۲٧_شوال_١٤٤١


 

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی