تحریر: سیدہ حفظہ احمد
اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت |
معاشرے کے چار ستون ہیں: فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً
ترجمہ:
اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ (سورۃ النساء:1)
معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہیں، اسی سے مل کر معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اسلام ایک مستحکم اور منظم معاشرہ چاہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے اس کی بنیادی اکائی یعنی خاندان منظم اور مستحکم ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاندانی نظام کیسے مستحکم ہو؟ اس کے لیے اللہ رب العالمین نے عائلی قوانین بتائے ہیں، جو وسیع اور واضح ہدایات پر مبنی ہیں۔ کیوں کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے عائلی قوانین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے تعالی نے احکامات کا بیشتر حصہ عائلی قوانین کے متعلق نازل فرمایا۔
اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں خاندانی نظام میں کئی قسم کی خرافات پائی جاتی تھیں، اسلام نے ہر اس باطل نظام کی نفی کردی، جو انسان کے تقدس کو پامال کرے۔
اسلام سے پہلے نکاح کے نام لوگ بدکاری کرتے تھے، باپ کے مرنے کے بعد بیٹا ماں سے نکاح کرلیتا تھا، متعدد نکاح کرنے پر کوئی پاپندی نہیں تھی، زنا کی بنیاد پر بھی نسب تسلیم ہوتا تھا۔ منہ بولے بیٹے کا نسب بھی اس کے اصل باپ کے نام سے تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، عورتوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں تھا، عورتوں کو اپنی رائے بیان کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اسلام نے اس سب باتوں کی نفی کردی اور احکامات میں سے تقریبا ایک تہائی حصہ خاندانی نظام سے متعلق بیان کردیا۔
اسلام نے حکم دے دیا کہ بقیہ تمام نکاح کے مروجہ طریقوں کی نفی کردی گئی ہے اب صرف دو طریقے باقی رکھے اور ارشاد فرمادیا:
اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ
ترجمہ:
سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔(سورۃ المؤمنون:6)
متعدد نکاح پر پابندی لگا کر حکم دیا گیا کہ:
فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَةً
ترجمہ:
عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، ہاں! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم (ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، (سورۃ النساء:3)
زنا کی بنیاد پر نسب تسلیم نہیں کیا جاتا اگر کوئی زنا کرے تو اس کی سزا مقرر کردی گئی۔
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ
ترجمہ:
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے۔ (سورۃ النور:2)
منہ بولے بیٹے کا نسب اصل باپ سے ہی شمار کیا جائے گا۔ منہ بولے بیٹے کی اسلام میں کوئی اصل نہیں۔
اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ
ترجمہ:
تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ (سورۃ الاحزاب:5)
ظہار (بیوی کو ماں کہنا) سے متعلق ارشاد فرمادیا اور اس کی سزا مقرر کردی کہ:
اَلَّذِيۡنَ يُظٰهِرُوۡنَ مِنۡكُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِهِمۡ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمۡؕ اِنۡ اُمَّهٰتُهُمۡ اِلَّا الّٰٓـىِٔۡ وَلَدۡنَهُمۡ
ترجمہ:
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (ان کے اس عمل سے) وہ بیویاں ان کی مائیں نہیں ہوجاتیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے۔ (سورۃ المجادلة:2)
اور اگر ایسا غلطی سے بھی کہہ دیا تو اس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔
وَالَّذِيۡنَ يُظٰهِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِهِمۡ ثُمَّ يَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّتَمَآسَّا
ترجمہ:
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں پھر انہوں نے جو کچھ کہا ہے، اس سے رجوع کرتے ہیں، تو ان کے ذمے ایک غلام آزاد کرنا ہے، قبل اس کے کہ وہ (میاں بیوی) ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ (سورۃ المجادلة:3)
یہ ہی نہیں بلکہ وراثت سے متعلق تفصیلی احکام بیان کیے اتنی تفصیل کے ساتھ کوئی اور احکام قرآن نے بیان نہیں کیے۔ جیسا کہ نماز اور زکوۃ کے تفصیلی احکامات ہمیں احادیث میں ملتے ہیں مگر وراثت کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ خود قرآن میں اس کے تفصیلی احکامات ذکر کردیے گئے۔ اس کا ذکر سورۃ النساء کی آیت 11 اور 12 میں کیا ہے۔
يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ ۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡن الخ
ترجمہ:
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ (سورۃ النساء:11)
اسی طرح محرمات کی تفصیل بھی بتادی اور پچھلے تمام نکاح جو بے بنیاد تھے ان کو ختم کرنے کا حکم نازل کردیا گیا اور رضاعت کو بھی حرمت کے اسباب میں شامل کیا گیا۔
حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمۡ اُمَّهٰتُكُمۡ وَبَنٰتُكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ وَعَمّٰتُكُمۡ وَخٰلٰتُكُمۡ وَبَنٰتُ الۡاٰخِ وَبَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِىۡۤ اَرۡضَعۡنَكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمۡ وَرَبَآئِبُكُمُ الّٰتِىۡ فِىۡ حُجُوۡرِكُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِىۡ دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ فَاِنۡ لَّمۡ تَكُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ وَحَلَاۤئِلُ اَبۡنَآئِكُمُ الَّذِيۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِكُمۡۙ وَاَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَيۡنَ الۡاُخۡتَيۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَف
ترجمہ:
تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو (اور انہیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہوگیا ہو) تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی گناہ نہیں ہے، نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو، البتہ جو کچھ پہلے ہوچکا وہ ہوچکا۔ (سورۃ النساء:23)
اسی طرح مختلف مقامات پر خاندانی نظام سے متعلق احکامات بیان کیے گئے ہیں۔
افراد سے گھر بنتے ہیں، گھر سے خاندان بنتے ہیں، خاندان سے قبیلے اور قبیلوں سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خاندان اور گھر کی بنیاد اس اساس پر قائم کی جائے جس سے ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل ہو۔ اس کے لیے اللہ تعالی نے لازم قرار دے دیا کہ مرد و عورت کا ملاپ جائز طریقے سے ہو کیوں کہ اس کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہو گی اس کی بہتر پرورش ہوسکے گی، جو آگے چل کر ایک مکمل خاندان کی صورت اختیار کرے گا۔ نکاح کے نتیجے میں ہی خاندان تشکیل پاتے ہیں اور اس ہی بنیاد پر تمام رشتے میاں بیوی، بہن بھائی اور دیگر رشتے وجود میں آتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً
ترجمہ:
اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ (سورۃ النساء:1)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندان کا ادارہ ایک قدیم ترین ادارہ ہے۔ اسلام نے آکر اس کے فکر و اخلاق اور عادات کی ترتیب کو منظم کیا۔ اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت یہ ہی ہے کہ اگر یہ بے ترتیب اور غیر منظم ہو تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے خاندانی نظام سے متعلق واضح احکامات نازل فرمادیے اب اس پر عمل ہر عاقل، بالغ مسلمان پر فرض ہے تاکہ فرد مل کر ایک مہذب خاندان اور معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
واللہ اعلم بالصواب
١٣_مارچ_۲۰۲١
۲۸_رجب المرجب_١٤٤۲
بہترین
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا یا عزیزہ
حذف کریںآج ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اس طرح کی تحریروں سے مسلمانوں کا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
حذف کریںایک تبصرہ شائع کریں
Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks