سیرت امام المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

عنوان: حیات طیبہ ترجمانِ قرآن عبد اللہ ابن عباسؓ

سیرت امام المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ

ابن عباسؓ کے نام سے کون واقف نہیں؟ آپؓ ایک برگزیدہ صحابی تھے۔ آپؓ ذہین و فطین انسان تھے اور اجتہاد کے اعلی درجے پر فائض تھے۔ آپؓ نے دور نبوی ﷺ میں خود نبی کریم ﷺ سے ابتدائی تربیت حاصل کی۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد اکابر صحابہ سے مستفید ہوئے۔ آپؓ حسین و جمیل نوجوان تھے۔ آپ ؓ گفتگو میں فصیح و بلیغ تھے۔ آپؓ عرب کے عالم تھے۔ آپ ؓ سے سب سے زیادہ تفسیر اقوال مروی ہیں (تقریبا سو سے زائد)۔ آپؓ کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

اسم گرامی و نسب:

آپؓ کا پورا نام تھا عبداللہ تھا۔ آپؓ نبی کریم ﷺ کے چچازاد بھائی تھے۔ اس لیے ان کا نسب نامہ کچھ ہوں ہے: عبد اللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف قریشی ہاشمی۔

کنیت: آپؓ کی کنیت ابو العباس تھی۔

لقب: کثرت علم وفضل کی بنا پر آپؓ کو حبرالامة اور بحر کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ (حبرالامت کا مطلب ہے امت کا عظیم عالم اور بحر کا معنی عمومی ہے یعنی سمندر)۔

آپؓ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔

آپؓ کو ترجمان القرآن بھی کہا جاتا ہے۔ 

شاہ مغرب جرجیر نے آپؓ کو "عرب کا عالم" کہا ہے۔

حلیہ مبارک:

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ خوبصورت اور طویل قد آدمی تھے۔ آپؓ کا سینہ ابھرا ہوا تھا اور جسامت میں موٹے تھے۔ چہرہ مبارک روشن تھا۔ آپؓ داڑھی خضاب یا مہندی لگایا کرتے تھے.

والدین:

آپؓ کے والد کا نام عباس بن عبدالمطلب تھا، جو حضور اکرم ﷺ کے چچا تھے۔ آپؓ کی والدہ کا نام لبابة الکبرٰی بنت حارث بن حزن الہلالیہ تھا، ان کی کنیت ام الفضل تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنھا کی ہمشیرہ (بہن) تھیں۔

پیدائش:

آپؓ کی پیدائش کا سال متعین نہیں۔ البتہ اس بارے میں اتنا کہا جاتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ اور آپ کا قبیلہ شعب ابی طالب میں محصور تھا، اس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اور یہ محصوری تین سال رہی تو اس کا تعین کرنا مشکل ہے۔ اس لیے اس میں اختلاف ہے۔

بچپن اور نبی کریمﷺ سے نسبت:

پیدا ہوتے ہی آپؓ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو آپﷺ نے ان کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔ بچپن ہی سے آپ نے نبی کریمﷺ کے زیر سایہ تربیت پائی۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت آپ تیرہ یا پندرہ برس کے تھے۔ ان تیرہ یا پندرہ برس کے دوران آپ نے اتنا علم حاصل کرلیا تھا کہ اکابر صحابہؓ بھی جب کسی مسئلہ میں اختلاف پاتے تو ابن عباسؓ کا قول اختیار کرتے تھے۔

حضرت عمر اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما:

حضرت عمرؓ کے سامنے جب مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو صحابہؓ سے دریافت کرتے۔ جب تسلی بخش جواب نہ پاتے اس وقت وہ سوائے ابن عباسؓ کے کسی اور کو طلب نہ کرتے تھے۔

آپؓ کے بارے میں حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ:

عبد اللہ ابن عباس ہمارے سب نوجوانوں سے حسین تر با اخلاق اور ان سب سے زیادہ کتاب الٰہی کو سمجھنے والے ہیں۔

علی برتری کے اسباب:

نبی کریم کیﷺ دعا:

آپؓ کے علم میں برتری کی وجہ نبی کریم ﷺ کی برکت کی دعا تھی۔ آپ ﷺ نے ان کو دعا دی تھی۔

"اللھم فقھه فی الدین وعلمه التاویل"

ترجمہ: "اے اللہ! اس کو دین کا فہم عطا کر اور اسے قرآن کی تفسیر سکھادے"۔

ایک اور روایت میں ہے کہ:

"اللھم علمه الکتاب والحکمة"

ترجمہ:

"اے اللہ! اسے کتاب و حکمت سکھادے"۔

خاندان نبوت: 

آپؓ خاندان نبوت میں پروان چڑھے اور زمانہ طفولیت سے ہی نبی کریم ﷺ کے دامن سے وابستہ رہے۔

اکابر صحابہؓ کی صحبت:

آپؓ نے تیرہ یا پندرہ برس نبی کریم ﷺ کے سامنے گزارے۔ خود وہ وجوہات طلب کیں اور دیکھیں جس مسائل کی بنا پر وحی نازل ہوئی۔ اس کے بعد اکابر صحابہؓ سے مستفید ہوتے رہے اور جن باتوں سے محروم رہ گئے تھے، اس کی تلافی اکابرین صحابہ ؓکی صحبت میں رہ کر اور زیر سایہ تعلیم حاصل کرکے پوری ہوگئی۔

عربی ادب و اسالیب سے یگانہ:

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ آپؓ عربی ادب واسالیب کے ماہرین میں سے تھے۔

ابن عباسؓ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے اقوال:

حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ:

رسول کریم ﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی ابن عباس اس کے سب سے بڑے عالم تھے۔

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ:

ابن عباس گویا پردے کے باریک اوٹ سے غیبی حقائق کو بچشم خود دیکھتے ہیں۔

اسی طرح ابن مسعودؓ کا قول ہے کہ:

ابن عباس ترجمان قرآن ہیں۔

اس لحاظ سے آپ کا ایک لقب ترجمان قرآن بھی ہوا۔

آپؓ کے شاگرد مجاہد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ:

ابن عباسؓ جب کسی آیت کی تفسیر کرتے تو اس سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔

مرویات اور ان کا پایہ صحت:

 آپؓ 1600 سے زائد مرویات نقل کی گئی ہیں اور تفسیر میں سب سے زیادہ احادیث منقول ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی آیت ایسی نہیں کہ جب اس کی تشریح مطلوب ہو اور ابن عباس کا قول نہ ملے۔

سیاسی منصب:

آپؓ حضرت علیؓ کے دور میں بصرہ کے حاکم رہے۔آپؓ نے جنگ صفین میں حضرت علیؓ کے ہمراہ شرکت کی۔ حضرت علی ؓکی شہادت کے بعد آپ اپنا منصب عبد اللہ بن حارثؓ کے سپرد کرکے خود حجاز تشریف لے آئے۔

آپؓ کی جانب منسوب تفسیر کی قدر وقیمت:

آپؓ کے اقوال اور روایات کو نقل کرکے ایک کتابی شکل دی گئی ہے۔ جس کا مکمل نام "تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس" ہے۔ اس کے جامع "محمد بن یعقوب فیروز آبادی شافعی" ہیں، جو "القاموس المحیط" کے مصنف ہیں۔

مسشقرقین کا اعتراض:

مستشرقین کا کہنا ہے کہ آپؓ اہل کتاب سے بھی استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ نہ اہل کتاب کی تصدیق کیجیے اور نہ تکذیب۔

ان کی تردید کرتے ہوئے ان کی اس بات کا جواب ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس حدیث سے پہلے یہ فرمایا کہ:

"حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج"۔

ترجمہ:

"بنی اسرائیل سے سن کر آگے بیان کردو اس میں کچھ مضائقہ نہیں"۔

یہ روایت ان حوادث وواقعات کے بارے میں ہے جن میں عبرت کا پہلو ہے۔

دوسرا ارشاد جس پر مستشرقین کا اعتراض ہے وہ یہ ہے:

"لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم"

ترجمہ:

"اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب"

یہ حدیث ایسے امور سے متعلق ہے، جن کے بارے میں کسی کو علم نہیں کہ یہ سچ ہیں یا جھوٹ۔ ان میں دونوں باتوں کا احتمال موجود تھا اس لیے نبی اکرم ﷺ نے یہ بات فرمائی۔

اور ابن عباسؓ تو خود قرآن و سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ اس لیے مستشرقین کا یہ اعتراض بے جا ہے۔

وفات:

آپؓ وفات سے قبل ماہ ربیع الثانی 68 ہجری میں طائف تشریف لے آئے اور یہاں آکر بیمار ہوگئے۔ تقریبا آٹھ دن بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر تقریبا 70 سے 73 کے درمیان تھی۔

نماز جنازہ ومدفن:

آپؓ کی نماز جنازہ محمد بن حنفیہؓ نے پڑھائی۔ فرماتے ہیں اس وقت ایک سفید چڑیا آئی اور ان کے کفن میں داخل ہوکر غائب ہوگیا اس کے بعد محمد بن حنفیہؓ نے آپؓ کو قبر میں اتارا۔

اس وقت سب نے کسی کی آواز میں سورۃ الفجر کی آخری آیات سنی:

"یایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی"

کفن دفن کے بعد محمد بن حنفیہؓ آپ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا:

مات اللہ الیوم حبر ھذہ الامة

بخدا آج اس امت کے عظیم عالم نے وفات پائی"۔

واللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:

1-تاریخ تفسیر و مفسرین- پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم
2-اسد الغابة فی معرفة الصحابة- مؤلف ابن اثیر، مترجم مولانا محمد عبد الشکور فاروقی
3-الاصابة فی تمیز الصحابة- مؤلف امام ابن حجر عسقلانی، مترجم مولانا محمر عامر شہزاد علوی

4-علوم القرآن- مؤلف مفتی محمد تقی عثمانی رح

نومبر_2020

ربیع الثانی_١٤٤١

اس کو بھی پڑھیں

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی