فاتح خیبر حضرت علیؓ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

حیدر کرار، شیرِ خدا، فاتح خیبر، دامادِ رسول ﷺ حضرت سیدنا علیؓ

خلیفہ چہارم، زندگی میں ہی جنت کی خوش خبری ملنے والے شخص، شیرِ خدا، دامادِ رسول ،ابن عم النبی حضرت علی المرتضیؓ سادگی اور خلوص کا پیکر تھے۔ عبادت و ریاضت ان کی زندگی کا مشغلہ تھی۔ شجاعت و مردانگی میں نام ہمیشہ رہا۔ دینی علوم کے دریا تھے، صبر وتحمل کا پہلو آپ کی ذات میں منفرد تھا۔ آپ بے انتہا سخی اور فیاض تھے، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے کبھی نہ گھبراتے تھے۔ دشمنوں پر اللہ کی راہ میں سخت جبکہ باہمی طور پر رحم دل تھے، غرور و تکبر سے پاک تھے۔ تقریر و خطابت کے ماہر تھے۔

آپ کا مکمل نام علی بن ابو طالب تھا۔ آپؓ کی والدہ نے آپ کا نام حیدر رکھا۔ پھر بعد میں ابوطالب نے اپنی طرف سے بیٹے کا نام علی رکھا۔

آپؓ کی کنیت ابوالحسن اور ابو تراب تھی۔

آپؓ تین سال کے تھے، جب نبی اکرم ﷺ نے آپؓ کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے نبی اکرم ﷺ کا قدم بہ قدم ساتھ بھی دیا اور کبھی تنہا نہ چھوڑا۔

آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ آپؓ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک دس سال تھی۔

جب اللہ رب العالمین نے نبی اکرمﷺ کو اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتے داروں کو دعوت اسلام دینے کا حکم فرمایا  تو آپ ﷺ نے دعوت دی اور دعوت وتبلیغ میں معاون بننے کا کہا تو سب نے انکار کردیا۔ سوائے حضرت علیؓ (جو اس وقت مجلس میں سب سے چھوٹے تھے) کے کوئی بھی آمادہ نہ ہوا۔

حضرت علیؓ نے فرمایا: میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں مگر آپ ﷺ کی ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔

جب کفار مکہ نے آپﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور نبی اکرم ﷺ نے اس رات ہی ہجرت کا ارادہ کیا اور حضرت علیؓ کواپنے بستر پر سونے کا حکم دیا۔

نبی اکرمﷺ کی طرف سے امانتیں سپرد کرنے کا فریضہ ادا کرنے کے تین دن بعد آپؓ نے بھی مدینہ ہجرت کی۔

ہجرت کے دوسرے سال آنحضرتﷺ نے اپنی بیٹی لخت جگر خاتونِ جنت حضرت فاطمہؓ الزھرۃ کو حضرت علیؓ کے نکاح میں دے دیا۔ آپ ؓ کے پاس مال کچھ بھی نہ تھا۔ آپؓ نے اپنی ذرہ (جو غزوہ بدر کے بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی)  فروخت کرکے اپنی زوجہ کا حق مہر ادا کیا۔جو بارہ اوقیہ چاندی کے برابر تھا۔

آپؓ نے تمام غزوات میں بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔

نبی اکرمﷺ نے جنگ خیبر سے پہلے اعلان کیا کہ "میں کل اسلام کا عَلَم اس شخص کو دوں گا جو خدا اور رسول ﷺ کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور رسول ﷺ بھی اس کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ اسی کے ہاتھوں فتح عنایت فرمائے گا"۔

(صحیح مسلم: 6223)

غزوہ بدر کے موقع پرتین اسلامی پرچم تھے، جس میں سے ایک حضرت علیؓ کے پاس تھا۔

آپؓ کو غزوہ بدر کے موقع پر ایک تلوار (ذوالفقار)انعام میں دی۔ یہ انعام بطور نفل تھا اور نفل اس انعام کو کہتے ہیں جو کسی مجاہد کو اس کی کارکردگی اور بہادری کے صلہ میں حصہ سے زیادہ دیا جاتا ہے۔

(حدیث نمبر: 2808)

غزوہ احد میں اسلام کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ کے پاس تھا مگر جب وہ شہید ہوئے تو حضرت علیؓ کے پاس رہا۔

غزوہ خندق میں جب چند کافر خندق پار کرکے آگے نکلنے لگے تو ایک پہلوان نے للکارا۔ حضرت علیؓ مقابلے کے لیے آگے بڑھے لیکن اس کافر نے حقارت سے منع کردیا کہ میرے مد مقابل کوئی شخص لے کر آؤ مگر حضرت علیؓ ڈٹے رہے اور کہا: مجھ سے ہی مقابلہ کرو پھر مقابلہ ہوا تو حضرت علیؓ نے اس شخص کو واصل جہنم کردیا یہ دیکھ کر باقی لوگ بھی الٹے پاؤں بھاگ پڑے۔

آپؓ نے ہی صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح نامہ کی شرائط لکھنے کی خدمت انجام دی۔

صرف غزوہ تبوک میں آپ نے نبی اکرمﷺ کے حکم سے شرکت نہیں کی۔ غزؤہ تبوک کے لئے جاتے ہوئے آنحضرت ﷺ ان کو اپنے اہل و عیال پر حاکم مقرر کرکے مدینہ چھوڑ کر گئے تھے۔

(صحیح مسلم: 6218)

نبی اکرمﷺ کی زندگی کے بعد بھی آپؓ کا رتبہ ومقام بلند تھا۔ نبی اکرمﷺ کے بعد بھی آپؓ اسلام کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہے اور علم و فتوی کی مدد کے لیے بھی کوشاں رہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ کے عہد میں آپؓ مجلس مجلس شوری کے اہم رکن تھے۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں ہونے والے انقلاب پر قابو پانے کے لیے حضرت علیؓ ملت اسلامیہ کو انتشار سے بچانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور حضرت عثمانؓ کی حمایت بھی کرتے رہے۔ (اسلامی تاریخ)

جب آپؓ نے خلافت کا بار اس وقت اٹھایا جب امت کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت امت مسلمہ ایک آزمائش میں مبتلا تھی اور دشمن اور منافقین کے وار کامیاب ہورہے تھے۔ یہ دور اسلامی تاریخ کا انتہائی نازک اور اختلاف و انتشار کا دور تھا۔ آپؓ کے دور خلافت میں اسلامی مملکت میں تو اضافہ نہ ہوسکا لیکن آپؓ نے داخلی فتنوں کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آپؓ کے دور عہد میں تین بڑی جنگیں ہوئیں جن میں سے دو جنگیں (جنگ جمل اور جنگ صفین )مسلمانوں میں آپس کی جنگ تھی۔ جو بلوائیوں اور منافق عبد اللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کی سازش کا نتیجہ تھی۔ دونوں جانب کے مخالفین اپنی اپنی جگہ حق پر تھے البتہ اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی مالی نقصان بھی ہوا مگر جب جنگ ختم ہوئی تو ہر ایک پشیمان تھا۔ اس کے علاوہ جنگ نہروان بھی ہوئی جو خارجیوں کے خلاف تھی۔

آپؓ کی خلافت کی مدت تقریبا 4 سال 9 ماہ تھی۔

اس دور خلافت میں دین اسلام کے تین بڑے ستون تھے۔ ایک حضرت علیؓ دوسرے حضرت معاویہؓ اور تیسرے عمرو ابن العاصؓ تھے سبائیوں نے ان حضرات کے خلاف قتل کی سازش کا منصوبہ بنایا تاکہ دین اسلام کا قلع قمع کردیں۔ باقی دونوں حضرات کئی وجوہات سے بچ گئے مگر حضرت علیؓ کے خلاف قتل کی سازش کامیاب ہوگئی۔

آپؓ معمول کے مطابق الصلاۃ الصلاۃ کہتے فجر کی نماز پڑھانے جارہے تھے مسجد پر پہنچتے ہی آپؓ پر 19 رمضان المبارک کو فجر کی نماز کے وقت کوفہ میں عبد الرحمٰن ابن ملجم نے حملہ کیا۔ جعدہ بن ہبیرہ کو آپ ؓ نے امامت کروانے کا حکم دیا، دوسری طرف قاتل بھی پکڑا گیا۔ آپؓ سے اجازت طلب کی گئی کہ اسے کیا سزا دی جائے؟ آپؓ نے فرمایا اسے قید رکھ کر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے، اگر میں زندہ رہا تو جو بہتر سمجھوں گا اس کے ساتھ وہ سلوک کروں گا اگر میں وفات پا جاؤں تو ایک جان کا بدلہ ایک ہی جان سے لیا جائے وہ بھی مُثلہ (شکل و صورت بگاڑنا) کیے بغیر۔

آپؓ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دو دن تک زخمی حالت میں رہنے کے بعد21 رمضان المبارک 40 ہجری کو شہید ہوگئے۔ وصیت کے مطابق ابن ملجم کو قصاص میں قتل کردیا گیا۔

غسل دینے والوں میں دونوں صاحبزادوں حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کے علاوہ حضرت عبداللہ بن جعفر ؓبھی شامل تھے، حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور منہ اندھیرے تدفین عمل میں آئی۔

واللہ اعلم بالصواب

اس کو بھی پڑھیں

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی