ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اخلاق و عادات، سخاوت و فیاضی، ایثار و قربانی، نرم دلی، شرم و حیا، تلاوت و گریہ وزاری، عبادت گزار، زہد وتقوی اور سادگی، علم وعمل، فقاہت و ثقاہت اور تاریکی میں مشعلِ راہ، مربی و مشفق، ہم درد وغم گساری کی اعلی مثال ہیں۔

آپ ؓکا لقب صدیقہ تھا۔ الغرض آپؓ کا لقب صاحب جمال ہونے کی وجہ سے حمیراء بھی تھا۔ آپ ؓہجرت سے آٹھ یا نو سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کے والد کا نام حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓاور والدہ کا نام سیدہ ام رومان ؓتھا (حضرت ام رومانؓ کے متعلق نبی اکرم ﷺنے فرمایا :اگر کسی کو دنیا میں جنت کی حور دیکھنی ہو تو وہ ام رومان کو دیکھ لے)۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا ۔آپؓ کا شجرہ نسب پانچویں پشت پر جاکر نبی اکرم ﷺسے جا ملتا ہے۔

خوش نصیبی یہ تھی کہ آپ ؓنے اس گھرانے میں آنکھیں کھولیں ،جو گھر اسلام کی روشنی سے منور ہوچکا تھا۔

آپ ؓکو وائل ابو القُعَیس کی بیوی نے دودھ پلایا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پردے کے احکامات نازل ہونے کے بعد جب ابو القعیس کے بھائی افلح ان سے ملاقات کے لیے تو انہوں نے نبی اکرمﷺ سے پہلے اجازت لینی چاہی تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا :تم ان سے مل سکتی ہو وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں۔

حضرت خدیجہ ؓاورچچا  ابو طالب کی وفات کے بعد نبیﷺ اکرم جب بالکل تنہا ہوگئے تو خولہ بنت حکیمؓ (زوجہ حضرت عثمان بن مظعونؓ) آپ ﷺکے پاس نکاح کی پیشکش لے کر آئیں کہ کنواری اور بیوہ ہر طرح عورتیں موجود ہیں۔ تو نبی اکرم ﷺکے دریافت کرنے پر حضرت خولہؓ نے حضرت سودہ ؓاور حضرت عائشہ ؓکا نام لیا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: دونوں جگہ بات کرکےدیکھ لو۔

نبی اکرم ﷺکے بعد حضرت خولہ ؓحضرت عائشہ ؓکی والدہ کے پاس آئیں اور نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت ام رومانؓ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکا انتظار کیا۔ بہرکیف یہ نکاح آسمانوں پر تو طے ہوچکا تھا اور نبی اکرمﷺ کو خواب میں کئی بار اس کی بشارت بھی مل چکی تھی۔ بنا کسی تاخیر شوال 10 نبوی میں آپ کا نکاح بعوض 500 درہم حق مہر کے نبی آخر الزماں ﷺسے ہوا۔ نکاح کے وقت آپؓ کی عمر تقریبا 6 سال تھی۔ شوال میں نکاح ہونے سے ایک توہم پرستی کا خاتمہ بھی ہوا  کہ عرب میں ماہ شوال میں نکاح یا کسی قسم کی خوشی کو ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ خطبہ نکاح آپؓ کے والد حضرت صدیق اکبرؓ نے پڑھایا۔

نبی اکرم ؓکو جب ہجرت کا حکم ملا تو آپ ﷺحضرت ابو بکرؓکے ساتھ ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت اسماء بنت ابی ابکر ؓکے ساتھ زاد راہ باندھنے میں حضرت عائشہؓ نے بھی مدد کی۔ خود آپؓ نے بعد میں والدہ اور بھائی کے ساتھ ہجرت کی۔

ہجرت کے بعد آپ  کافی بیمار ہوگئیں تو اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے نبی اکرم ﷺسے رخصتی کی گزارش کی ۔ہجرت کے پہلے سال آپؓ کی رخصتی ہوئی، اس وقت آپ کی عمر تقریبا 9 سال تھی۔

حضرت عائشہؓ کا رنگ سرخ و سپید تھا۔ آپؓ نہایت خوش رو اور صاحب جمال خاتون تھیں۔ لڑکپن میں دبلی پتلی تھیں یہ ہی وجہ ہے کہ ایک سفر پر آپؓ نبی اکرمﷺ کے ساتھ گئیں تو نبی اکرم نے فرمایا :چلو عائشہ دوڑ لگائیں۔ آپ دوڑ میں جیت گئیں ،لیکن چودہ پندرہ برس کی عمر کو پہنچ بدن میں قدرے گرانی آگئی تھی اسی لیے چند سالوں بعد جب دوبارہ مقابلہ کی پیش کش کی تو اس مرتبہ حضور ﷺجیت گئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: یہ اس دوڑ کا بدلہ ہے۔

آپؓ اپنے گھر کا کام کاج خود کرتیں ۔نبی اکرم ﷺکو آپؓ سے بہت محبت تھی۔ نبی اکرم ﷺسے کسی نے سوال کیا کہ آپﷺ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ فرمایا: عائشہ سے۔ سائل نے دوبارہ دریافت کیا مردوں میں سے؟ فرمایا: عائشہ کے والد (یعنی صدیق اکبر) سے۔

نبی اکرم ﷺدعا کیا کرتے تھے کہ اے باری تعالی! جو چیز میرے بس میں ہے یعنی مساوات بین الازواج اس میں تو عدل سے باز نہیں آسکتا لیکن جو چیز میرے بس سے باہر ہے یعنی عائشہ سے محبت اس کو تو معاف فرمادینا۔

آپؓ نے کئی غزوات میں نبی اکرم کے ساتھ شرکت کی۔ جس میں آپ زخمیوں کی دیکھ بھال کرتیں۔

غزوہ احزاب میں آپ جنگ میں بچوں اور عورتوں کے ہمراہ شرکت کرنے آئیں تو حضرت عمرؓ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آپ واپس خیمے میں تشریف لے گئیں۔

غزوہ مریسیع واقعہ افک پیش آیا جس کی برات اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نازل کی۔

غزوہ احد میں آپ زخمیوں کو مشکیزے سے پانی بھر بھر کر دیا اور ان کی مرہم پٹی بھی کی۔

آپؓ اتنی بابرکت ثابت ہوئیں کہ آپ کی وجہ سے 5 احکامات قرآنی آیات کی صورت میں نازل ہوئے۔ (تیمم، افک، ایلاء، تخییر، تحریم)

آپؓ جب نبی اکرم ﷺسے ناراض ہوتی تو ان سے بیان نہیں کرتی تھیں ،مگر پھر بھی نبی اکرمﷺ پہچان لیا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :کہ اے عائشہ، تم جب مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے معلوم ہوجاتا ہے۔ فرمانے لگیں، اے اللہ کے حضور میں نے آپ سے کبھی ایسی بات نہیں کی۔ نبی اکرمﷺ  نے ارشاد فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی تو کہتی ہو: محمد کے رب کی قسم اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم کے رب کی قسم۔ اس کے جواب میں حضرت عائشہ نے فرمایا : یا رسول اللہ میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں ورنہ آپ تو میرے دل و جان میں ہیوست ہیں۔

آپ ؓنے دس ہجری میں نبی اکرم ﷺکے ساتھ پہلا حج کیا اس کے بعد وفات تک ہر سال حج کی سعادت حاصل کی۔

آپؓ نبی اکرمﷺ کی زندگی میں بھی باقی ازواج مطہرات سے نرم اور خوش دلی سے پیش آتی رہیں اور آپﷺ کے وصال کے بعد بھی۔

آپ ؓکی وفات 17 رمضان المبارک 58ھ میں ہوئی۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ ؓنے پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفن ہوئیں۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر 67 سال تھی۔

آپؓ سے 2210 مرویات نقل کی گئیں ہیں۔

4-4-2022

۲۔رمضان المبارک۔۱۴۴۳ھ

شاید آپ کو یہ تحریر پسند آئے

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی