انسانیت سے ہمدردی؛ سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں (آخری قسط)

پہلی قسط یہاں سے ملاحظہ کریں

قسط: 4

تحریر:شگوفہ نورانی

سیرت النبی ﷺ

بوڑھا شخص یا کوئی بیمار روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک روزے کے بدلے میں کچھ نفل پڑھتا یا قرآن کی تلاو ت کرتا جو خالص اللہ ہی کی عبادت ہے۔ اس کے کرنے کا حکم دیا جاتا لیکن ایسا نہیں۔ اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے: روزہ نہیں رکھ سکتے ہو تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاؤ۔ جماع کے ذریعے تم نے روزے جیسی عظیم عبادت کو نقصان پہنچایا تو اس کا ازالہ کسی غلام کی گردن چھڑا کر کرو یا ٦٠ مسا کین کو کھانا کھلاؤ۔ بغیر احرام کے میقات سے گزرنے والے کو ایک اضافی طواف کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا لیکن نہیں فرمایا :حدود اللہ کی خلاف ورزی کی ہے، اب اس کے عوض مکے کے فقراء اور مساکین کو بکرے یا دنبے کا گوشت کھلاؤ۔ قسم کا کفارہ ۱۰ مساکین کو کپڑے پہنانا یا کھانا کھلانا یا ایک غلام آزاد کرانا۔

ضرورت مند اور مستحق کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے مستقل روزگار فراہم کرنے میں مدد دی جائے۔ بھیگ مانگنے اور سوال کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اور اس عمل کو نبی کریم نے ناپسند کیا ہے۔ بد قسمتی سے آج مسلمان معاشروں میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کو پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے جس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہئے اور حقیقی مستحقین کو ان کا حق بغیر طلب کئے ملنا چاہیے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص نے راستے سے اس درخت کو کاٹ دیا جو لوگوں کو آنے جا نے میں تکلیف دیتا تھا۔ (بہشتی زیور، ساتواں حصہ صفحہ: ۳۵۷)

اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرمادی۔ بیمار کی عیادت اور اس کے علاج معالجے کا انتظام بڑے اجر وثواب کاباعث ہے۔ امام ترمذی ؒنے روایت بیان کی ہے کہ جو کوئی صبح کے وقت کسی بیمار کی عیادت کو جاتا ہے تو شام تک ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اورشام کے وقت جاتا ہے تو صبح تک ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور اسے جنت کا ایک باغ عطا کیا جاتاہے" خدمت انسانیت میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق نہیں۔ ہاں مسلمان سے ہمدردی زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن اگر کوئی غیر مسلم بھی ہمدردی اور مدد کا مستحق ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بھی اللہ کابندہ ہے۔ ( بہشتی زیور حصہ پانچواں صفحہ: ۲۸۷ ) مزید جانکاری کے لئے سیرت النبی جلد ششم دیکھیں۔

خلاصہ تحریر اور خاتمہ :

رسول اللہ نے ان فرامین کے ذریعے پوری امت کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ‘غمخواری اور محبت کی تعلیم دی ہے اور آپ نے یہ درس دیاہے کہ ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے اندر دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔ کوئی شخص کسی پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اپنی وسعت کے مطابق اسے پریشانی سے نکالنے کی کوشش کرے ۔جسمانی اور مالی جیسی بھی ضرورت ہو ہاتھ بٹائے۔

ایک آدمی بیمار ہے اور اس کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں تو ایمان اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ آپ اسکے علاج کا انتظام کریں گنجائش ہو تو رقم اپنی جیب سے لگائیں یا اپنی بستی اور قرب و جوارکے صاحب وسعت افراد کو آمادہ کرکے اس کا نظم کریں۔ یہ بھی تعاون کی صورت ہے اور اس پر بھی برابر ثواب حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح جو بھی کسی درد اور بے چینی میں مبتلا ہو اس کیلئے کوشش کرنا بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے ۔جس طرح نماز پڑھنا عبادت ہے اور اس پر اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ویسے ہی بندوں کی خدمت اور زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا عمل بھی بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے بلکہ بسا اوقات خدمت خلق کا ثواب نفلی عبادتوں سے بڑھ جاتا ہے۔

بحیثیتِ مسلمان سیرت طیبہ کےمطالعےسے ہمیں رفاہی کاموں کی ترجیح و ترغیب کی کامل رہنمائی ملتی ہےبلکہ حضور پاک (ﷺ) کی سیرت طیبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اپنے نبی مکرم (ﷺ)کےاسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اورسماجی رفاہ عامہ کےکاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے-الغرض حضوررسالت مآب (ﷺ) کے امتی ہونےکی حیثیت سےہم پہ فرض عائد ہوتاہےکہ کسی مخصوص گروہ،رنگ و نسل اورزبان سے بلا امتیاز بلا غرض و غایت سیرت نبوی (ﷺ) کی روشنی میں انسانی ہمدردی، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کےلئےکام کیا جائے-

صلی اللہ علی النبی الکریم

تمت بالخیر الحمدللہ

ختم شد۔


Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی