عنوان: وطن کا سپاہی (دفاع وطن)

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
افسانہ
بھینی بھینی خوشبو اسے مسلسل اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ وہاں ہر طرف ایسی خوشبو پھیلی ہوئی تھی کہ کبھی محسوس نہ کی گئی، ایسی خوشبو جیسے جنت کی کھڑکی کھول دی گئی ہو، ایسی خوشبو جیسے مشک و عنبر ہو۔ وہ شہد کی مکھی کی طرح دیوانہ وار اس خوشبو کے پیچھے بھاگے جارہی تھی کہ اچانک وہ ایک جگہ رک کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے پانی کا ریلا موتیوں کی طرح بہنے لگتا ہے۔ مسلسل روتے ہوئے اس پر بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے وہ اس مٹی کے ٹیلے پر اپنا سر رکھ لیتی ہے۔ 
وہ چشم تصور سے دیکھتی ہے کہ وہ حسین و جمیل جگہ پر ہے، جہاں نہریں بہہ رہی ہیں اور ہرے بھرے باغات ہیں۔ انتہائی دلکش جگہ پر حیران کن انکھیوں سے دیکھ رہی ہوتی ہے کہ وہ زمین کے کس حصے پر موجود ہے؟ وہ اردگرد دیکھتی ہے تو اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اچانک اس کے کانوں سے آواز ٹکراتی ہے، کوئی اسے پکار رہا ہوتا ہے۔
ماریہ ماریہ.....
وہ یک دم پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو اس کے سامنے قطب الدین کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کرپاتی۔
وہ کھڑی ہوتی ہے، دیوانہ وار اس کی طرف لپکتی ہے اور اس کے سینے سے لپٹ کر زارو قطار رونے لگتی ہے اور کہتی ہے کہ "تم کہاں کھو گئے تھے"؟
.............
ماریہ قطب الدین اپنے گھر کے کاموں میں مصروف تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ماریہ نے کال اٹھائی تو دوسری جانب قطب الدین کی آواز تھی، ماریہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
مختصر علیک سلیک کے بعد قطب الدین نے وہ بات کہی کہ اس کی بات سن کر ماریہ کی صدیوں کی تھکان اتر گئی تھی۔ قطب الدین نے پھر اسے کہا: "یہ بات ہم دونوں میں راز رہے گی۔ ابھی امی جان کو نہیں بتانا، ہم مل کر انہیں سرپرائز دیں گے"۔ ماریہ نے ہامی بھری۔
وہ لمحہ لمحہ گن گن کر گزار رہی تھی۔ گھڑی کی ٹک ٹک اس کے کانوں سے مسلسل ٹکرا رہی تھی۔
............
"آج بابا آنے والے ہیں"۔ ماریہ نے اپنے سات سالہ بیٹے احسن کو خوش خبری سنائی۔ وہ پانچ سال کا تھا، جب آخری بار اپنے بابا سے ملا تھا۔ وہ خوشی سے چلانے لگا کہ اس کی ماں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہا: "ابھی دادی کو نہیں بتانا"۔
صبح سے ہی ماریہ اپنے شوہر کے آنے کی خوشی میں اس کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگی۔ وہ اسے دوبارہ کال نہیں کرسکا تھا۔ اس نے جلدی کام نمٹا کر احسن کو بھی تیار کیا اور خود بھی تیار ہونے لگی۔ وہ کسی شہزادی سے کم نہیں تھی۔ 
"تم گلابی جوڑے میں بہت خوب صورت لگتی ہو"۔ قطب الدین کی کہی ہوئی بات اسے یاد آئی۔ اس نے جھٹ سے گلابی سوٹ نکال کر زیب تن کیا۔ کالے گھنے بال، بڑی سرمئی آنکھیں، تیکھی ناک، گلابی گالوں کا حسن گلابی رنگ پہننے سے مزید دوبالا ہوگیا تھا۔
..............
قطب الدین رات ہوتے ہی روانہ ہوگیا تھا تاکہ صبح یا دوپہر تک گھر پہنچ جائے۔ سنسان سڑک پر وہ تنہا رواں دواں تھا، وہ ایک تیس برس کا فوجی نوجوان تھا۔ اکیلا پن اور سنسان سڑک پر خوف کا آس پاس بھٹکنا بھی محال تھا۔
وہ تیز رفتار سے گاڑی ڈرائیو کررہا تھا کہ اچانک اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی۔ اسے محسوس ہوا شاید کوئی گڑ بڑ ہے، وہ ان چیزوں کو باآسانی بھانپ سکتا تھا۔ اس نے گاڑی کو وہیں روک دیا اور اس آگ تک پہنچنے کے لیے پیدل کا راستہ طے کرنے لگا۔ وہاں ایک غار تھا، جہاں سے چند لوگوں کی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔ اس نے غور سے سننے کی کوشش کی۔
 "آج تو ان لوگوں پر میزائیل گرا کر اس جگہ سے ان کا نام و نشان ختم کرنا ہے"۔ وہ شاید غیر ملکی جاسوس تھے، جو کسی جگہ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
میزائیل! مگر کہاں؟ قطب الدین نے دل میں سوچا... اس نے غار پر گھیرا تنگ کرنے کے لیے نفری طلب کی اور اپنے یونٹ کال کرنے کے لیے نمبر ڈائل کیا تاکہ دشمن کی اس چال کو ناکام بنادیا جائے۔ کال پر اس نے دھیمی آواز میں مکمل معلومات کال پر بتادی۔ یہ جگہ چھاؤنی کے آس پاس تھی۔ رات کی خاموشی میں اس کی سرسراہٹ معلوم ہوگئی تھی۔ اچانک پیچھے سے گولی چلنے کی آواز آئی۔ وہ گولی قطب الدین کے سینے میں پیوست ہوئی۔
باقی لوگ اندر تھے، جاسوس فورا اندر بھاگا۔ سب کو یہاں سے بھاگنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ہتھیار اٹھا رہے تھے کہ فوج نے غار پر حملہ کردیا۔ اس طرح ان کو حراست میں لے لیا گیا۔
قطب الدین تو جام شہادت پی چکا تھا مگر اس نے ملک کو ایک بڑے خطرے سے بچا لیا تھا۔
.................
دن کے دو بج رہے تھے، گھنٹی بجی تو احسن نے شور مچادیا بابا آگئے، بابا آگئے۔ احسن نے دروازہ کھولا، ماریہ دوڑتی ہوئی آئی، ریحانہ بیگم بھی حواس باختہ دروازے کی طرف اپنے بیٹے کا استقبال کرنے چلی آئیں۔
آرمی کے ایک چاق و چوبند دستے نے سلامی دی۔  گارڈ آف آنر آگے بڑھا اور ریحانہ بیگم کو سلیوٹ پیش کرتے ہوئے فوجی اعزاز آگے بڑھایا۔ ماریہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوئی، حلق میں ایک پھندا سا لگا۔ مگر وہ اب ایک شہید کی بیوہ تھی۔ دکھ کے آثار تو اس کو جلھکنے ہی نہیں دینے تھے اسے تو فخر محسوس ہورہا تھا۔
..............
ماریہ مٹی کے اس ٹیلے سے چونک کر بیدار ہوئی۔ اور یہ آیت پڑھنے لگتی ہے۔ "اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا"۔ (البقرۃ)
آج پانچ سال گزر گئے تھے مگر وہ محسوس کررہی تھی، جیسے یہ ابھی کی ہی بات ہو، جب ماریہ کو احسن کے والد قطب الدین کی کال آئی تھی۔ ماریہ کے پیچھے ریحانہ بیگم کھڑی تھیں، ریحانہ بیگم ماریہ کو دیکھ کر مسکرائیں اور کہا: "اس پاک وطن پر ایسے سو بیٹے قربان"۔

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی