حسن کی دیوی

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
افسانہ/ منظر نگاری/ کہانی
وہ ایک کبوتر باز تھا، ہر رنگ اور نسل کے کبوتر اس نے پال رکھے تھے۔ وہ اس سے بہت مانوس ہوگئے تھے۔ وہ ہر روز کبوتروں کو دانہ ڈال کر انہیں آزاد چھوڑ دیتا۔ وہ دانہ چگتے اس کے بعد بلند و بالا فضا میں پرواز کرتے اور کچھ دیر بعد لوٹ آتے۔ مگر کچھ دنوں سے وہ محسوس کررہا تھا، اس کے مانوس پرندے اب دانہ چگے بغیر ہی اڑ جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ دیر باہر اڑتے پھرتے ہیں اور بہت دیر بعد لوٹتے ہیں۔
آج جب اس نے دانہ ڈال کر پرندوں کو آزاد کیا تو ان پر گہری نظر رکھی۔ اس نے دیکھا کہ پرندے دانہ چھوڑ کر اڑتے ہوئے پڑوس والے گھر کے صحن میں جا بیٹھے ہیں۔ اس کی چھت سے وہ صحن واضح نظر آرہا تھا۔
صحن میں اس کے پرندے جا کر اپنے ننھے ننھے پیروں سے ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ پیروں میں بندھی پائل کی چھن چھن زیادہ دور تک سنائی نہیں دے پارہی تھی۔ اس نے اردگرد نظر دوڑائی ایک کبوتر سیڑھیوں کی جانب چڑھنے لگا۔ ساتھ ہی چھوٹا سا ایک لان تھا، جہاں ہریالی ہی ہریالی تھی۔ ہرے بھرے پودوں سے گلشن مہک رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا شاید اس خوشبو سے لطف اندوز ہوکر پرندے یہاں آجاتے ہیں۔
اچانک ایک دوشیزہ وہاں آئی اس نے پرندوں کے لیے دانہ ڈالا تو وہ فورا دانہ چگنے لگے۔ دانہ ڈال کر دوشیزہ ایک طرف بچھے قالین پر بیٹھ گئی۔ وہ تھی بھی اسی قابل کہ اس کے قدم کسی قیمتی قالین پر ہی پڑنے چاہیئے۔ جب وہ بیٹھی تو کبوتر باز کی نظر اس پر والہانہ پڑی۔ گویا وہ ایک حسن کی دیوی تھی، جسے ایک ایسے خمیر سے گوندھا گیا تھا، جو چھپائے جانے کے قابل تھی۔ اس نے اتنے قریب رہائش پذیر ہو کر بھی اس دوشیزہ کو پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ اس قدر پردہ دار تھی کہ اس نے بہتر سمجھا کہ وہ وہاں سے ہٹ جائے مگر وہ اسے وارفتگی سے دیکھتا گیا اور اس کی سرمئی آنکھوں میں ڈوب سا گیا۔ لمبی گھنی زلفوں والا چاند سا چہرہ اور گہری سمندر جیسی آنکھوں نے بلاشبہ اسے کسی حور کا ہم پلہ بنادیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پھولوں اور خوب صورت منظر نے اس سے یہ رنگ مستعار لیے ہوں۔ سارے موسم، قوس و قزح کے تمام رنگ اور ستاروں کی کہکشاں اس کے گالوں جیسی لگتی تھیں۔
وہ بیٹھی ہوئی پرندوں کی غٹر غوں سے مسرور ہورہی تھی۔ اتنے میں دانہ چگتے ہوئے ایک کبوتر اس کی جانب لپکا تو اس نے اسے سہلاتے ہوئے اٹھایا اور گود میں بٹھالیا۔ وہ کچھ دیر اسے سہلاتی رہی، کبوتر بھی اس کی آغوش میں پرسکون بیٹھا رہا۔ وہ دو تین دن سے بیمار تھا مگر آج قدرے بہتر تھا۔ سورج غروب ہورہا تھا اور چاند بھی بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا۔ وہ کبوتر کو اپنے سفید دوپٹے کے پلو سے ڈھانپنے لگی، جیسے وہ اسے ٹھنڈے ماحول کے اثر سے بچانا چاہ رہی ہو۔
مغرب کی اذان کا وقت ہوا تو سارے پرندے اڑتے ہوئے واپس اپنے مالک کبوتر باز کے پاس چلے گئے۔ کبوتر باز ابھی تک اس کے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔
اس نے اپنے ذہن کو جھٹکا اور با اختیار کہا: عشق کا رنگ سفید پیا۔
ختم شد
22- نومبر -2022

2 تبصرے

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

ایک تبصرہ شائع کریں

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی