تعلیم و تربیت

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
یمنٰی کی والدہ یمنٰی کو لے کر لان میں بیٹھی میڈم صاحبہ کے پاس لے کر آئیں۔
سلام میڈم صاحبہ! میڈم صاحبہ یہ میری بیٹی یمنٰی ہے۔ آج سے یہ میرے بدلے آپ کے گھر میں کام کرے گی۔
میڈم صاحبہ حیرانی سے: شابانہ! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟ جی میڈم صاحبہ بس! عمر کا تقاضا ہے کچھ نا کچھ چلتا ہی رہتا ہے، میں اتنے سارے گھر اکیلے نہیں دیکھ سکتی، اس لیے میری بیٹی آپ کے گھر کام کر لیا کرے گی۔
اچھا چلو ٹھیک ہے، تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک مجھے کہلوادینا اور اپنا خیال رکھنا۔ بیگم صاحبہ نے اسے اطمینان دلاتے ہوئے کہا۔
جی! شکریہ میڈم صاحبہ.... یمنی کی ماں نے اظہار تشکر کرتے ہوئے اپنی مالکن کو جواب دیا۔
یمنٰی ایک نوکرانی کی بیٹی تھی، جو غریبی اور پریشانی جھیلتے بڑی ہوئی تھی۔ اسے تعلیم حاصل کرنے کا بھی بڑا شوق تھا، مگر غربت کی وجہ سے وہ اتنی تعلیم حاصل نہ کرسکی تھی۔ البتہ پرائمری تک وہ پوزیشن ہولڈر رہی تھی۔
مناہل! بیٹا یہاں آؤ۔ بیگم صاحبہ نے اپنی بیٹی کو پکارا۔ مگر وہ کہاں سنتی تھی؟ وہ تو گویا کانوں میں آلے (ہینڈز فری) ٹھونس کر بیٹھی تھی اور موسیقی سے لطف اندوز ہورہی تھی۔
مناہل بیگم صاحبہ کی بیٹی تھی، یمنٰی اور مناہل ہم عمر تھیں۔ باربار آواز دینے کے باوجود مناہل کے نہ آنے پر بیگم صاحبہ نے یمنٰی سے کہا: یمنٰی بیٹا جاؤ تم اور اسے بلا کر لے آؤ۔ سارا دن بیٹھی رہتی ہے، گھر کا اور گھر والوں کا تو ہوش ہی نہیں ہے اس کو۔
 جی بیگم صاحبہ! میں بلا کر لے آتی ہوں۔ یمنی نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
یمنٰی دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے: مناہل باجی! دروازہ کھولیں۔ بیگم صاحبہ آپ کو بلا رہی ہیں۔ مناہل نے دروازہ کھولا اور حیرانگی سے کہا: تم؟ جی باجی! آج سے میں اپنی امی کی جگہ آپ کے گھر کام کروں گی۔ ہونھ! تمھاری ہمت کیسے ہوئی، اپنے گندے پاؤں میرے کمرے میں رکھنے کی، پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں یہ گندے لوگ؟
ماما،ماما! آپ نے اسے میرے کمرے میں کیوں بھیجا ہے؟ آپ کو معلوم ہے ناں مجھے اپنے کمرے میں گندگی بالکل پسند نہیں ہے۔
بیگم صاحبہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئیں: بیٹا! میں نے تمھیں آواز دی تھی، تم سن نہیں رہی تھی تو میں نے بلانے بھیج دیا تھا۔
مناہل جتنی تعلیم یافتہ تھی، اتنی ہی بدتہذیب اور زبان دراز بھی۔ تعلیم کا اثر نہ اس کی زبان سے عیاں ہوتا تھا، نہ ہی اس کے سلیقے سے۔
مناہل اپنی والدہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی: امی میں کالج جارہی ہوں،ڈرائیور کو لینے نہیں بھیجئے گا۔ میں خود آجاؤں گی۔ مناہل صاحبہ تیار تو اتنا ہوئی تھی جیسے یونیورسٹی نہیں شادی میں جارہی ہو۔ کھلے بال، تنگ کپڑے، لمبی ہیل، ہونٹوں پر لال لپ اسٹک، کانوں میں لمبی لمبی بالیاں اس کے کانوں میں جھوم رہی تھیں۔ یمنٰی اسے اس حیرت سے دیکھتی رہ گئی کہ كاش! میں بھی پڑھائی کر پاتی یہ حسرت اس نے خاموشی سے اپنے دل میں دبا لی تھی۔
روزانہ مناہل گھر آکر اس پر حکم چلاتی اور بات بات پر اسے غربت کے طعنے دیتی۔ مگر وہ اس گھر میں کام کرتی تھی، روزی روٹی کے لیے محنت کرتی تھی، سو وہ چپ رہتی تھی اور سوچتی تھی کہ کیا پڑھے لکھے لوگ ایسے ہوتے ہیں؟
ایک دن وہ گھر آئی اور اسے حکم دیا کہ چائے بنا کر لے آؤ۔ یمنٰی چائے بنا کر لے کر جاتی ہے۔
مناہل چائے کی ایک چسکی لیتے ہوئے: (جیسے کوئی کڑوی اور بدمزہ چیز منہ میں گئی ہو) یخ تھو کیا ہے یہ؟ چائے بنانے کا کہا تھا، ایسی ہوتی ہے چائے، بندہ تھوڑا دودھ ڈال دیتا ہے، کیا غریبوں جیسی چائے بنا کر لے آئی ہو میرے لیے۔
اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی اور مناہل کے والد آفاق صاحب نے آفس سے فون کرکے کہا، آج مناہل کو کچھ لوگ دیکھنے آرہے ہیں، رات کا کھانا ہمارے گھر کھائیں گے، اس لیے تیاری کرلینا۔
ان کی بات پر عملدرآمد کیا گیا، اور مہمانوں کے آنے کا وقت قریب آگیا۔ مناہل اپنے ٹھاٹ باٹ سے تیار ہوگئی تھی اور وہ اپنے تنگ کپڑوں کی وجہ سے بدنما لگ رہی تھی۔
مناہل تعلیم یافتہ تھی، مگر اپنے سانولے پن کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان رہتی تھی، چوں کہ یمنٰی پڑھی لکھی نہیں تھی، مگر تہذیب یافتہ ضرور تھی، بڑا ہو یا چھوٹا ہر ایک سے عزت اور ادب سے پیش آنا اس کا شیوہ تھا۔
ڈائیننگ روم میں بیٹھے مہمان اور میزبان سب ہی باتوں میں مشغول تھے اور مناہل کے آنے کا انتظار کررہے تھے۔ اسی لمحے یمنٰی کھانے کی ٹرالی پر سجا کھانا، ڈائننگ روم میں لے آکر آتی ہے اور میز سجانے لگتی ہے۔
سب کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ مہمان اسے مناہل سمجھ کر اس کی تعریفیں کرنے لگے، (اگرچہ یمنٰی غریب تھی لیکن اس کے ادب کا تقاضا تھا کہ وہ سلیقہ مند لڑکی تھی) وہ یہ سب سن کر ڈرگئی۔ بولنے کی کوشش کررہی تھی، مگر بول نہیں پائی۔ میزبان بھی بیٹھے حیرانگی سے منہ تکتے رہے۔ مہمان خاتون نے کہا: مناہل بیٹا! یہاں آؤ۔ ہمارے پاس بیٹھو کہ کر مناہل کے والد آفاق سے کہتی ہیں بھائی صاحب ہمیں آپ کی بیٹی بہت پسند آئی ہے، ہمیں رشتہ منظور ہے۔ اب جلدی سے شادی طے کردیں۔
پیچھے سے مناہل لہراتی، بل کھاتی نمودار ہوئی۔ یہ سب دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہوگیا تھا۔ اسی وقت اس نے یمنٰی کو ایک زوردار تھپڑ رسید کردیا، اور اسے پھر سے غریبی اور تعلیم يافتہ نہ ہونے کا طعنہ دے کر اسے گھر سے نکال دیا۔
مہمان بھی اس کی یہ بد تمیزی اور بد اخلاقی دیکھ کر ان کے گھر سے جانے کے لیے اجازت طلب کرنے لگے۔
بہت سے پڑھے لکھے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی تعلیم ان پر عیاں نہیں ہوتی ان سے لاکھ درجے بہتر ان پڑھ لوگ ہوتے ہیں، جو سلیقہ مند ، ہوشیار، باادب اور تہذیب یافتہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم تعلیم یافتہ ہیں تو ہمیں تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت دینا ہے نا کہ ہم جاہلوں سے بھی بدتر بن جائیں۔
ختم شد
۲_جولائی_۲۰۲۰
۹_ذی القعدہ_١٤٤١

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی