اقبال کا فلسفہ خودی

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
الفاظ کی تعداد: 1372
اقبال کا فلسفہ خودی
علامہ اقبالؒ کا فلسفہ خودی قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنۡسٰٮهُمۡ اَنۡفُسَهُمۡ
ترجمہ:
"اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔" (سورۃ الحشر:19)

حدیث میں ہے:
من عرف نفسَه فقد عرف ربَّه
ترجمہ:
"جس نے اپنے نفس کو پہچانا یقینا اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔"

خودی فارسی زبان کا لفظ ہے، جو لغت کے اعتبار سے دو متضاد معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

خودی سے مراد عام طور پر منفی معنی لیا جاتا ہے۔ یعنی خود پسندی اور انا کے معنی میں عام طور پر اس سے مراد لیا جاتا ہے۔ خودی کا لفظ اقبالؒ کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ علامہ اقبالؒ نے اس کو خود اعتمادی، خود شناسی، خود داری اور اپنی عزت نفس کا احساس جیسے مثبت معنی میں استعمال کیا ہے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں

خودی انگریزی لفظ پرسنیلٹی اور اردو میں شخصیت کے بھی مترادف ہے۔
خودی اقبالؒ کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی، جذبہ خود داری، اپنی ذات و صفات کے پاس رکھنے، اپنی انا کو شکست سے محفوظ رکھنے، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یعنی زندگی میں رکاوٹیں آجانے پر کہیں رکنا نہیں بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ اس بات کو علامہ اقبالؒ نے کتنے خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے:
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی

علامہ اقبالؒ نے پورے فلسفیانہ غوروفکر میں جتنی اہمیت خودی کے فلسفے کو دی ہے اتنی کسی اور کو نہیں دی۔ علامہ اقبالؒ نے انفرادی و اجتماعی طور اس پر بہت زور دیا ہے اور اس موضوع پر بہت سے اشعار کہے ہیں۔
اقبالؒ کی اس خود شناسی کی اتنی اہمیت بڑھی کہ اس فلسفہ خودی سے پہلے نہ سنی گئی اور نہ دیکھی گئی۔ کیوں کہ ایک طرف مغربی مفکروں نے فلسفہ خودی کو بے وقعت سمجھ لیا اور مشرق نے اس کی پرستش آنکھیں بند کرکے کی۔ دونوں جانب کے مفکرین کی ایماندارانہ تحقیق کا نتیجہ ایک جامع فکری نظام کی صورت میں دنیا میں متعارف کرواتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ مسلمان کبھی ان اوصاف خودی سے عاری نہ ہو۔ سوچ، معاملات، مذکرات، گفتگو اور طرز حیات میں اس کا رویہ ان اوصاف کی نفی نہ کرے۔
مسلمان کی پہچان میں خود داری اور مضبوطی ہو۔ فکری یا علمی پستی اور جھکاؤ انسان کو بے وقعت کردیتا ہے۔ اقبال مسلمان کی بے وقعتی سے بہت نالاں تھے اور اس کی سر بلندی کی مسلسل تعلیم دیتے رہے۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی ہی حقیقت ہے۔ خودی ایک مکمل یا کامل شخصیت بھی ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ وہ تو اسے ایک مستقل جدوجہد قرار دیتے تھے ایسی جدوجہد جو ہر حال میں قائم رہے۔
ڈاکٹر سعید عبداللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔
خودی عشق کے مترادف ہے۔
خودی ذوق تسخیر کا نام ہے۔
خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔
خودی ذوق طلب ہے۔
خودی ایمان کے مترادف ہے۔
خودی یقین کی گہرائی ہے۔
خودی سوز حیات کا سر چشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے۔
فرد و ملت کی ترقی و تنزلی، خودی کی ترقی و تنزلی کے زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام ہی زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے اقبالؒ کے نقطہ نظر سے خودی زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سب کچھ ہے۔
خودی کیا ہے راز دورن حیات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات

علامہ اقبالؒ نے خودی کی تربیت کے تین مراحل بھی بیان کیے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے اس کی تربیت کو ضروری امر قرار دیا ہے۔ بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان کی سی ہے۔ اقبالؒ اسے ایک تخلیق سمجھتے ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔ خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں۔
اطاعت الہی:
اقبالؒ کے نزدیک پہلا مرحلہ درجہ اطاعت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنا۔ یعنی اللہ تعالی کے قانون حیات کی پابندی کرنا۔ بندہ اطاعت گزار اور فرمان بردار ہوتا ہے تو خودی کو پہچان سکتا ہے۔
ضبط نفس:
دوسرا درجہ ضبط نفس کا ہے۔ یعنی نفس کو قابو میں رکھنا اور بے راہ روی کا شکار نہ ہونا، خود کو منہیات سے روکنا۔ یعنی نفس جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں اس کو ضبط کیے رہنا۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات

نیابت الہی:
جب انسان مندرجہ بالا دونوں مراحل سے گزر جاتا ہے تو اس درجے پر فائز ہوجاتا ہے۔ یعنی جب اللہ کا حکم ماننے لگ جاتا ہے تو ایک مسلمان شجاعت، حق و سچ کا اس طرح علمبردار بھی بن جاتا ہے کہ پھر دنیا و آخرت کی ہر منزل پانے کی جستجو میں جت جاتا ہے۔
ڈھونڈتا رہتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں

علامہ اقبالؒ نے پیش نظر صرف دو چیزیں تھیں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اس لیے انہوں نے اس بات کو بھی ظاہر کیا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہی ہے۔
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ

توحید خودی کی تلوار کو مضبوط کرتی ہے۔خودی توحید کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس متعلق علامہ اقبال کا یہ شعر مشہور ہے:
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

جب انسان اطاعت الہی اور ضبط نفس پالیتا ہے تو خودی فیضان الہی کا حق دار ہوجاتی ہے اور یہ عطیہ ربانی کے ساتھ ایک مستقل جدوجہد اور عمل پیہم کا بدلہ بھی ہے۔ ایسی خودی میں ایک مقناطیسی طاقت پیدا ہوجاتی ہے جو فیضان الہی کو اپنی جانب کھینچ کر خود میں جذب کرلیتی ہے۔ اس طرح وہ منفرد حیثیت برقرار رکھتی ہے۔
جتنی زیادہ عمل پیہم اور جدوجہد جاری رہے گی اسی طرح ایک وقت ایسا آجائے گا کہ فیضان الہی خودی کی رضا سے چلنے لگے گا۔ اسی لیے تو اقبال نے کہا ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ خودی کو ایسی یکتائی اور انفرادیت کیوں حاصل ہے؟ اس کا جواب بھی اقبال نے یہ دیا ہے کہ خودی کو یہ انفرادیت اور یکتائی اپنے ماحول میں سرگرم رہنے اور اپنی نمود اور افزائش میں عمل پیہم جاری رکھنے اور تخلیق عمل کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ علامہ اقبال نے بتایا کہ کون سے عوامل ایسے ہیں، جن سے انسانی شخصیت مضبوط ہوتی ہے اور کون سے عناصر ایسے ہیں، جن سے انسانی شخصیت کمزور ہوتی ہے۔ آپ  نے واضح کیا کہ خودی عشق و محبت سے استحکام حاصل کرتی ہے۔ اگر انسان اللہ سے عشق نہیں کرتا تو ایک راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح دست سوال کرنے سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ وہ پھر چاہے کوئی شخص ہو یا پھر قوم۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ انسان کو خود شنادی مصائب و تکالیف برداشت کرکے ہوتی ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اسی طرح خوف، حزن، نا امیدی، غلامی اور بے یقینی سے انسان کی شخصیت کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کے برعکس بے خوفی، پر امیدی، عشق و محبت، ایمان، یقین، علم و دانش اور حکمت سے شخصیت پختہ ہوجاتی ہے۔
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صُورِ اسرافیل

الختصر یہ کہ بنیادی چیز عشق الہی، ایمان، یقین، حکمت اور علم ہے۔ اور یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔
ختم شد

Post a Comment

Comment for more information please let me know and send an email on hajisyedahmed123@gmail.com Thanks

جدید تر اس سے پرانی